صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
موجِ ہوائے رنگ
شہزاد احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
چور سے ڈرتے تھے لیکن گھر کا دروازہ نہ تھا
گرچہ وہ آباد ہے تارِ رگِ جاں کے قریب
ڈھونڈتے اس کو کہاں جس کو کہیں دیکھا نہ تھا
اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا مگر تنہا نہ تھا
پیاسی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ آیا تھا ابھی
خشک تھی دل کی زمیں پانی ابھی برسا نہ تھا
حسرتیں رہنے لگیں غولِ بیاباں کی طرح
آرزوؤں کا نگر بسنے ابھی پایا نہ تھا
٭٭
لوگ اس بزم سے آئے تو غزل خواں آئے
ہم پریشان گئے اور پشیماں آئے
بجھ گئے آج سُلگتی ہوئی یادوں کے چراغ
یوں سکوں آیا ہے جیسے کوئی طوفاں آئے
شوقِ منزل نے کسی گام بھی رکنے نہ دیا
راہ میں لاکھ چمن لاکھ بیاباں آئے
پا بہ زنجیر اڑا لائی ہے اک یاد ہمیں
آج کس حال میں سُوئے چمنستاں آئے
دلِ برباد میں یوں آئی ہے امید تیری
جس طرح نورِ سحر حشر بداماں آئے
ڈس نہ جائے کہیں ناگن سی لپکتی ہوئی رات
کوئی لمحہ میری دنیا میں فروزاں آئے
دل میں طوفان چھپے بیٹھے ہیں لیکن شہزاد
ایک مدت ہوئی آنسو سرِ مژگاں آئے
٭٭
OOO