صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مثنویاں اور داستانیں

پروفیسر سید مجاور حسین رضوی 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                               ٹیکسٹ فائل

طلسم ہوش ربا میں نسوانی معاشرہ

خدا مغفرت کرے نواب مرزا شوق کی۔ ہوسکتا ہے ان سے کچھ عورتوں کا ’’حال پوشیدہ‘ نہ رہا ہوا اور انہیں عورت ’’آفت اور قیامت نظر آئی ہو اور اللہ معارف کرے مرزا رسوا کو! انہوں نے اتنا اچھا ناول لکھا کہ آج کے پڑھنے والے کو انیسویں صدی کے لکھنؤ میں صرف امراؤ جان، بسم اللہ جان، خورشید جان، خانم اور آبادی ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس دور کے نسوانی معاشرے کا تشخص طوائفیت اور جسم فروشی سے ہی کیا گیا۔ لکھنؤ کی عیاشی کی کہانیاں انیسویں صدی کے لکھنؤ کی پہچان بنا دی گئیں ۔! تاریخ کا یہ کتنا بڑا المیہ اور ماہرین سماجیات کی یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک چھوٹے سے طبقے پر پورے معاشرہ کا قیاس کر لیا گیا۔ !
حالانکہ انیسویں صدی کا معاشرہ صرف امراؤ جان اور فریب عشق کا معاشرہ نہیں تھا۔ یہ مرثیوں کا بھی معاشرہ تھا، جس کے کرداروں کے تقدس کی خود پاکیزگی بھی قسم کھاتی ہے اور جہاں عصمت و عفت کے کبھی نہ بجھنے والے چراغ روشن ہیں !
پھر ایک اور رخ سے اس مسئلہ کو دیکھئے :
کیا تاریخ میں کبھی کوئی ایسا لمحہ آیا ہے جب معاشرہ میں جسم فروشی نہ رہی ہو؟ کسی زمانے میں بھی۔ لیکن کیا اس زمانے کی پہچان یا اس علاقے کی شناخت آوارگی یا جسم فروشی سے کی گئی؟ کیا آج کال گرلس نہیں ہیں ؟ امراؤ جان میں کسی نے کسی کو ایڈس کا تحفہ نہیں دیا اور آج نائٹ کلب ہو یا ہوٹل ہوں یا کیبرے ہو یا گلیاں ہوں شاعر کو کہنا پڑتا ہے
جسم امراض کے نکلے ہوئے تنوروں سے
تو کیا آج کے معاشرے کی یہ پہچان بنے گی۔؟
آج اسکرین پر نظر آنے والی اداکارہ آرٹسٹ ہے، فن کار ہے، آج تو اس کے جسم کی اسکرین سے لے کر معمولی کاغذ تک پر نمائش ہوتی رہتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ گزرے ہوئے کل کی رقاصہ اور مغنیہ کے فن کی نمائش کو عصمت فروشی کے تختۂ  دار پر لا کر کھڑا کر دیں ۔ اس کی پیشانی پر بدچلنی کی کیلیں ٹھونک دیں اور اس کے پورے جسم میں عیاشی کا تختہ جڑ دیں ۔ !!
شریف اور شائستہ لکھنؤ۔ تہذیب کا دلدادہ، تمدن کا رسیا، اعلیٰ ترین اقدار کا پاسبان و امین اپنی شخصیت کو قربان کر کے دوسروں کی شخصیت کو ’’پہلے آپ‘ کہہ کر ابھارنے والا لکھنؤ۔ اور اپنی تاریخ پر کوئی آہنی پردہ نہ ڈالنے والا لکھنؤ۔ ان تمام اہل قلم سے پوچھنا چاہتا ہے جو طوائف کو لکھنؤ کی ’’زوال آمادہ تہذیب‘ کی علامت قرار دیتے آئے ہیں کہ انہوں نے لکھنؤ دشمن انگریزوں کے زرخرید اور متعصب لکھنے والوں کی تحریریں پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کے دریچے کیوں بند کر لے ئے۔؟ صداقت فکر سے کیوں محروم ہو گئے؟
بے شک تخلیق کار کا قلم کمرے کی آنکھ ہوتا ہے لیکن انیسویں صدی کے لکھنؤ میں اگر آپ انیس و دبیر، ضمیر و تعشق کے مرثیے نہیں بھی دیکھنا چاہتے تو داستانیں ہی پڑھ لیجئے کہ ان داستانوں میں ایک مکمل سماجی نظام موجود ہے اور اس سماجی نظام میں عورت بہت اہم ہے اور یہ عورت مضبوط کردار کی مالک، باحیا، صاحب عصمت ہونے کے ساتھ بہادر، کارزار حیات میں معرکہ آرائ، منظم، اپنی کمزوریوں کے ساتھ تمام لطافتوں اور رعنائیوں کا پیکر ہے۔
اودھ کی داستانوں میں بوستان خیال کے ترجمے ، ملک محمد گیتی افروز وغیرہ سے صرف نظر کرتے ہوئے چند لمحوں کے لئے فسانہ عجائب کی ہی سیر کر لیجئے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماہ طلعت پکی عورت ہے کج بحشی کرتی ہے، ہٹ دھرمی کرتی ہے۔ خودپسند ہے لیکن شوہر سے محبت میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، باحیا ہے۔ مہرنگار تو غیرت و عفت کی دیوی ہے۔ عقل و دانش کا پیکر ہے۔ انجمن آراء خوبصورت ہے مگر بد چلن نہیں ۔ بنی اسرائیل کی عورت یعنی قاضی کی بھاوج عصمت آب ہے۔ غرض کہ ایک جادو گرنی کو چھوڑ کے ساری خواتین اپنی کمزوریوں کے ساتھ عصمت و عفت کی علامتیں ہیں ۔ کیا مجال ہے جو ان میں سے کبھی کسی کے دل میں اپنے محبوب کے علاوہ کسی دوسرے کا خیال بھی آیا ہو ۔ !
لیکن اس داسانچہ سے قطع نظر طلسم ہوش ربا کی اگر سیر کریں تو ہر گزرگاہ خیال پر محبتوں کے چراغ روشن نظر آتے ہیں ۔ اس طلسم کی عورتوں کی کچھ خصوصیات پر غور کیجئے۔ قصہ صرف اتنا ہے کہ شہزادہ اسد کو طلسم ہو شربا کو فتح کرنا ہے۔ اس میں افراسیاب سے محار بات کا تذکرہ ہے اور اسد مہ جبیں پر عاشق ہے و افراسیاب کی لڑکی ہے۔
داستانوں کے ماحول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سماج میں مرد حاوی نہیں ہے بلکہ مرد و عورت دونوں برابر سے ایک دوسرے کے شریک کار نظر آتے ہیں ۔ لاچین و بلقیس ثانی، افراسیاب و ملکہ حیرت، بہار و قباد، مخمور و نورالدہر، براں وایرج، عمر و عیار و صر صر، قرآں و صبا رفتار، اسد و مہ جبیں ، غرض کہ صنفی اعتبار سے طلسم ہوش ربا میں توازن ہے۔ نہ عورت مرد کی کنیز ہے اور ہن مرد مطلق العنان ۔!
سیاسی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو طلسم ہوش ربا میں اقتدار کی تقسیم تقریباً برابر کی ہے۔ جادوگروں میں بے شک مختار کل افراسیاب ہے لیکن اس کی ایک وزیر ملکہ صنعت سحر ساز ہے۔ اس کی نانی اور دادی یعنی آفات چہار دست اور ماہیانہ زمرد پوش محافظ سلطنت ہیں ، حجرہ ہفت بلا کی ایک بلا تاریک شکل کش ہے اور حجرہ پنجم کی یاقوت سخنداں جس کے ساتھ ہر وقت دو نہریں بہا کرتی ہیں اور پھر بے شمار جادوگرنیاں ہیں جنہیں حکومت کا کل پرزہ سمجھنا چاہئے۔ پھر مخبری اور سراغ رسی کے لئے عیار بچیاں یعنی صر صر، صبا رفتار، تیرنگاہ خنجر زن، شمیمہ نقب زن اور صنوبر ہیں ۔ لیکن ان سب سے بالا تر افراسیاب کی بیوی ملکہ حیرت ہے جو منظم اعلیٰ بھی ہے اور ’’جو سکہ خطبہ افراسیاب کا مگر عمل دخل ملکہ حیرت کا ہے‘ ۔
ان تمام عورتوں میں کوئی بھی نہ طوائفیت رکھتی یہ نہ بد چلن ہے نہ کسی پر مرزا شوق کے مصرع صادق آتے ہیں اور نہ ہی یہ رسوا ہیں ۔
ان کے اور نقائص ہوں گے اور ہیں لیکن جو معاشرہ ان عورتوں کا ا ہے اس سے محمد حسن عسکری، عزیز احمد یا خورشید الاسلام یا ازیں قبیل صرف نادم ہوسکتے ہیں یا اپنے ذہنی تعقب پر تاسف کر سکتے ہیں ۔ غیظ سے اپنی انگلیاں کاٹ سکتے ہیں ۔ ! مگر اس معاشرہ کو طوائفیت کا نام نہیں دے سکتے۔
اور یہ جادوگروں کا معاشرہ تھا جس معاشرے سے نہ مصنف کی ہمدردیاں وابستہ ہیں نہ سننے والوں کی ۔ لیکن اس معاشرہ میں نہ کہیں عدم توازن ہے اور نہ بدچلنی ۔ نہ عورت خود جلتی ہے نہ مرد کو جلاتی ہے۔ مصور اور صورت نگار میں کبھی بھی خوش فعلی کے طور پر مار پیٹ ہو جاتی ہے چنانچہ مصور نے صورت نگار کو طمانچہ مارا تو صورت نگار نے بھی ہزاروں گالیاں دیں ۔ دو تھڑ رسید کیا۔ صر صر عیارہ ین عمر و عیار سے محبت کے باوجود اسے ایک بار لات بھی رسید کر دی۔ یہ ایک رخ ہے۔ دوسری طرف عورتیں بڑی اچھی منظم ہیں ۔ ایک ملکہ گلزار عنبریں مو ہے۔ اس کے یہاں سب قیدیوں کو کھانا تو ملتا ہی ہے۔ آٹھویں دن مٹھائی بھی ملتی ہے چنانچہ بدیع الزماں کو بھی مٹھائی ملی تھی۔ اسی طرح ملکہ حیرت کے ایک انتظام کا نمونہ ملاحظہ ہو :
’’عمرو نے شہر نا پرساں کو خوب لوٹا۔ ملکہ حیرت نے شاہی خزانے سے سب کے نقصان کی تلافی کر دی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کر دیا کہ آئندہ حکومت کسی نقصان کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔ لوگ اپنی حفاظت آپ کریں ‘۔
حالت جنگ میں جب ایمرجنسی ہو، ایک اچھا انتظامیہ اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہے۔؟
یہ جادو گرنیاں اپنے عہد کی سائنس (جادو) سے واقف ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے فن کی ماہر ہے۔ بدچلنی یا بدکرداری کا کیا ذکر، کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے تو دیر سے پانی کی طرح بہہ جائیں ۔
ان عورتوں میں فوجی مہارت اور جنگی صلاحیت ہے۔ یہ اپنے اپنے صوبوں کی گورنر (قلعہ دارنیاں ) ہیں ۔ کوئی موقع پڑتا ہے تو فوج لے کر نکلتی ہیں ۔ ان میں نہ بزدلی ہے اور نہ زندگی کی حقیقتوں سے فرار اور ان تمام باتوں کے ساتھ یہ جس کی ہیں اس کی ہیں ۔ بستر کی چادر کی طرح مرد بدلنے کی قائل نہیں ہیں ۔ !
یہ تو ہوا جادوگروں کی مملکت کا حال جہاں عورت بڑے وقار، دبدبے اور کلے ٹھلے کے ساتھ زندگی گزارتی ہے ۔عورت کی ایک صحت مند معاشرے میں کیا حیثیت ہونی چاہئے، وہ ان جادوگروں کے دیس میں ہے۔ جو آج کے اعلیٰ ترین نسائی حسیت کے علمبردار ممالک میں نہیں ۔!
اب اس کے مقابل جو معاشرہ ہے اس کے لئے داستان گو لفظ اسلام یا خدا پرستوں کے لشکر کی ترکیب استعمال کرتا ہے۔ یہاں دو طرح کی خواتین ملتی ہیں :
۱ ۔ وہ خواتین جو امیر حمزہ کی رشتہ دار ہیں جن کی جھلک چشم فلک نہیں دیکھ سکتی، وہ خوش رہتی ہیں ، سکون سے چراغ خانہ بن کر رہتی ہیں ۔
۲۔ وہ خواتین جو جادو گرنیاں تھیں اور ہیں اور اب اسد کے لشکر میں ہیں اور افراسیاب سے لڑ رہی ہیں ، ان میں اور افراسیاب کے لشکر کی جادو گرنیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ علوم متداولہ سے یہ دونوں واقف اور باخبر ہیں ۔ اپنے فن کی ماہر ہیں ۔ بزدل نہیں بہادر ہیں ۔ گو کہ فراسیاب کے ساتھ والی خواتین کی غالب اکثریت بد چلن نہیں ہے اور ملکہ حیرت افراسیاب کے مرنے کے بعد جس شوہر پرستی کا مظاہرہ کرتی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ لیکن خدا پرستوں کے لشکر کی جادو گرنیاں یا شہزادیاں کردار کے اعتبار سے ایک روشن مینار ہیں ۔ شوہر پرست، باوفا، صاحب ا یثار ہیں ، ایک کی ہو کر رہین والی، دنیاوی عیش و آرام کو ٹھکرانے والی۔ زمرد شاہ باختری عرف خداوند لقا کی لڑکی لالان خوں قبا ثابت قدم کوئے محبت بنے کے لئے جس جگہ وارث ین بٹھایا وہیں جان دیہنا چاہتی ہے۔ مہ جبیں افراسیاب کی لڑکی ہے۔ افراد سیاب نے اسے ہر طرح کی لالچ دی ہے، اس پر دباؤ ڈالا ہے۔ سمجھایا ہے کہ وہ اسد کی محبت سے باز آ جائے لیکن مہ جبیں
ہم ان سے اقبال دورہ کر اگر جئے بھی تو کیا کریں گے ذرا اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
’’ان کے (شہزادہ اسد) ساتھ تڑپ تڑپ کے مر جاؤں گی کہ یہی لطف زندگی ہے‘۔
بہار اور مخمور دونوں کے لئے افراسیاب نے ہر طرح کی لالچ اور طلسمی جنت کے دروازے کھول رکھتے ہیں ۔ مگر ناممکن ہے کہ ذراسی لغزش بھی ہو جائے۔
ان عورتوں کا ایک اور نفسیاتی چلو ہے جو معاشرت کا حُسن ہے یعنی ان عورتوں میں باہم ایک دوسرے کے خلاف حسد کا جذبہ نہیں ہے اس پر بہت سی عورتیں عاشق ہیں مگر یہ سب ایک دوسرے سے اس لئے محبت کرتی ہیں کہ ہم ایک ہی شمع کے پروانے ہیں ، اسی ے ساتھ وہ ایک دوسرے کے وقت پر کام بھی آتی ہیں مثلاً بہار یا مخمور یا ملکہ براں ۔ ا سب کے محبوب الگ الگ ہیں ۔ مگر یہ سب شہزادہ اسد کے لئے اور ایک دوسرے کے لئے خلوص کے خزانے رکھتی ہیں ۔ جان دینے سے گریز نہیں کرتیں ۔ انہیں میں ملکہ محبوب کا کل کشا بھی ہے جس کا کر دار ایثار و قربانی کی معراج ہے صورتحال یہ ہے کہ عفریت طلسم بڑھتا چلا آ رہا ہے اور وہ صرف ملکہ محبوب کا دل کھا کر مطیع ہوسکتا ہے۔ محبوب اپنی کوکھ پر خنجر مارتی ہے ۔ د ل نکال کر پیش کرتی ہے اور عفریت کی مصیبت سے اسد کو چھٹکارا دلاتی ہے۔
یہ عورتیں پیکر مہر و وفا ہیں ۔ یہ نہ آفت ہیں نہ قیامت بلکہ یہ ایک مثالی معاشرہ کی وہ خواتین ہیں و کسی نہ کسی شکل میں ہندوستانی تاریخ کے صفحات میں اپنا وجود رکھتی تھیں ۔ رضیہ سلطانہ، چاند بی بی، حیات بخشی بیگم، مخدومہ جہاں ، علی مردان خاں کی بیٹی، رانی درگا وتی، اہلیہ بائی۔ خواتین کا یہ زریں سلسلہ تھا جس کا منطقی نتیجہ بیگم حضرت محل تھیں اور طلسم ہوش ربا کی یہ خواتین انہیں روایات کا روشن اور تابناک عکس تھیں ۔
ایک خیال یہ ہوسکتا ہے کہ یہ ساری شہزادیاں عاشق مزاج ہیں تو حق یہ ہے کہ عورت کا عشق کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ گر وہ ایک کی ہو کر رہے۔ یہ شہزادیاں ایک ہی بار عشق کرتی ہیں جس سے عشق کرتی ہیں اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ اپنی شخصیت کے اعتبار سے اپنے کفو سے عشق کرتی ہیں ۔ کمتر درجہ کے آدمی کی ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے اگر کسی کمتر نے ان کے بارے میں سوچا بھی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ایسا نہیں ہے کہ طلسم ہوش ربا میں جو معاشرہ ہے اس میں خواتین صرف شہزادیاں یا پریاں ہیں بلکہ ایک طبقاتی سماج ہے س میں ہر طبقے کی عورت نظر آتی ہے اور لباس و زیورات سے پہچانی جاتی ہے۔ شہزادیاں اور ملکہ ’’انگیا گوکھرو کی یا کامدانی کی، پر زر کرتیاں سبز بادلے کی، ململ اور آب رواں کی پیشواز، زردار پاجامے، پائینچے گلبدن کے لچھتے دار شجر اور زربفت کے لہنگے۔ شبنم کے دوپٹے اور زیورات میں ٹیکہ، کنگن، چمپاکلی، کرن پھول، چاند ٹیکی، جھومر، یاقوت اور احمر کے چھپکے، جگنو کا توڑا، ناک میں نتھ، کان میں بجلیاں ، بالے ، جھمکے، مندرے، ادراج، بازو بند، نوگر ہی، جوشن، دست بند، پازیب، چھڑے، جھانجھ، گھنگھرو خلخال، پیر میں زردوزی کی زیرپائی، آرام پائی‘۔
یہ ہے وہ متمدن معاشرہ خوش حال لوگوں کا مگر اسی کے ساتھ کنیزیں ، جلیسیں ، خواصیں ، آتو جی، چھو چھو، ماما، اصیلیں ، مغلانی، قلماقنی بھی نظر آتی ہیں ۔ ملکہ حیرت کے سر پر وزیر زادیاں مگس رانی کرتی ہیں ۔ تین چار سو تو صرف چتر بردار ہیں ۔ دیہات کی عورتیں البتہ غربت کا شکار ہیں ۔ ان کے ’’لہنگے پھٹے ہوئے ہیں اور پیتل کی بالیاں پہنتی ہیں ۔ گاڑھے کی کرتیاں ‘ ہیں ۔ شہر میں ساقنیں حصہ پلاتی ہیں ۔ ہزار بناؤ کئے دلائی سفید اودی گوٹ کی اوڑھے۔ آگے سے طوق سونے کا دکھانے کو گلا کھولے ۔ پائینچے پاجامے کے پیچھے تخت پر پڑے‘۔
ان کے آگے بڑھ کر کبڑنوں اور سنکرینوں کی بہار دیکھئے کہ :
’’لہنگے قیمت کے پہنے سامنے ٹوکروں میں ترکاریاں ، انار، امرود، شریفے، چنے تھے۔ گنڈیریوں کے لئے گنے پونڈے چھیلتی تھیں ‘۔
ساری عورتیں نفاست پسند ہیں ، ان میں شوخی ہے لیکن بدکاری نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ ترین معیار کی زندگی گزارنا چاہتی ہیں ۔‘ ان کے پاس عقیق کی سردانی ہے۔ دانتوں میں مستی لگاتی ہیں ۔ گگونہ، غازہ تو ہوتا ہی ہے پور پور مہندی رچی ہوتی ہے۔
’’بی گلرنگ! تم کو اپنی صورت کی قدر نہیں ۔ ابٹنا منہ پر ملا کرو، چند دنوں میں رنگت کھل جائے گی‘۔
یہ خواتین حقہ اور پان سے شغل کرتی ہیں ۔ ہوا اور تخت رواں ، محافہ، پالکی نالکسی جیسی سواریاں استعمال کرتی ہیں ۔ ان کے یہاں دسترخوان بھی دیبا کا ہوتا ہے، ان کے بستر جب بجھتے ہیں تو
’’چادر گھڑی دن رہے حکم دیا کہ پلنگ ہمارا بالائے بام بچھاؤ کہ چاندنی کی کیفیت دیکھیں گے اور وہیں آرام کریں گے۔ بجرد حکم پلنگ کوٹھے پر آراستہ ہوا اور اوٹ پھولوں کے کھڑے کر دئیے۔ گلاب اور کیوڑے کے قرابوں اور عطر کے شیشوں کے منہ کھول کر رکھ دئیے۔ گلدستے جابجا چن دئیے، کنیزوں نے کہا داری خواب گاہ آپ کی درست ہے‘۔
ان کی نفاست اور ایک سحرکار ماحول کی تخلیق وہ چاہے باغ کا نقشہ ہو، جشن ہو، ساز ہوں ، موسیقی کے مختلف راگ ہوں ، جو بھی ہو ان سب میں نفاست ہے لیکن آوارگی اور بدچلنی نہیں ہے۔ بیشک شہزادیاں شراب پیتی ہیں لیکن یہ ’’ماڈرن ڈرنک‘ نہیں ہے یہ کوئی بھی مشروب ہوسکتا ہے سج سے سرور آتا ہے اس کے نشہ میں خرمستی، بدسمتی نہیں ۔
یہ عورتیں ان تمام باتوں کے ساتھ ہمدرد بھی ہیں ، ذہین بھی ہیں ۔ ان ہی عورتوں میں ملکہ آسمان پری ہے جس نے ا میر حمزہ کو مرہم سلیمانی دیا تھا جس سے ہر زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ ان میں جہاں طب کا یہ پہلو ہے وہاں ٹونا ٹوٹکا بھی ہے کہ ’’اگر سات جمعرات سوت کا نام لیکر نیم کی پتی اور نمک کنوئیں میں چھوڑ دیا جائے تو وہ مالزادی فوراً نکل جائے گی۔ !!‘
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ داستان گو عوامی زندگی سے باخبر نہ تھے۔ عوامی زندگی سے اگر مراد یہ ہے کہ بیل کس طرح ہنکائے جاتے ہیں ، سیار کس طرح بھگائے ہیں ۔ ہڑتال کیسے ہوتی ہے تو یقیناً یہ معاشرہ تو داستانوں میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ داستانوں کی فضا شرفائے شہر کی ہے مگر اس شہر میں گھسیارے، لکڑہارے، بہیلے ، چڑیمار، کپڑا بننے والے اور ان سب کے ساتھ کھاردے اور گاڑھے کی لنگیاں اور انگوچھے ملتے ہیں ۔ لیکن یہ سب ہے تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔ عمرو ک زنبیل سے کلوا کر برآمد ہوتا ہے مگر اسی کے ساتھ کٹنی مہترانی بھی دکھائی دیتی ہے و ٹوکر بغل میں رکھے بالیاں اور جھمکے پہنے نظر آتی ہے۔ یہ مہترانیاں مخبری بھی کرتی ہیں ۔ داروغہ ان سے گھر گھر تلاشی لینے کا بھی کام لیتے ہیں ۔
یہ ساری باتیں ہیں لیکن ان میں کہیں بھی نہ زوال آمادہ تہذ٘ب ہے، نہ بدکار معاشرہ، بد چلن عورتیں ۔ لکھنؤ کا یہ خوددار معاشرہ، متنوع معاشرہ بہرحال طوائف سے خالی نہیں ہے۔ مگر ذرا طوائف کا تذکرہ دیکھئے :
’’کس طرف ساقتوں کی بناوٹ ہے، رنڈیاں طرحدار چکلہ چوک میں آباد، تماش بین دلشاد، عورتیں جوان، لہنگے زربفت کے، دھوتی کے انداز میں کسے‘ کہیں کہیں اس طرح کہیں ہیں اس طرح کے فقرے مل جاتے ہیں مگر اہمیت طوائف کی ہیں ہے بلکہ عالم یہ ہے کہ اگر ملکہ نسرین عنبریں محفل میں آ گئی تو اجلال جادو اسے بے غیرت کہتا ہے۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                               ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول