صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مثنوی "قادر نامہ"

مرزا غالب

پیشکش: محمد وارث

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

مثنوی قادر نامہ کا تعارف

غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لا ولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو ان کی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگی پر غالب کی ایک رثائی غزل ان کے دیوان میں موجود ہے۔

 

ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور

 

اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کے لیے غالب نے 'مثنوی قادر نامہ' لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنے والوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالب

 

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا

اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

 

اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کس طرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔

 

یہ مثنوی مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ 'دیوانِ غالب' میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کی ہے، لیکن دیوانِ غالب کی مشہور و معروف شرح 'نوائے سروش' میں اسے شامل نہیں کیا، نہ جانے کیوں۔ میں یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سے لکھ رہا ہوں۔ پہلی بار یہ مثنوی 1856ء میں شائع ہوئی تھی۔

 

گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کے لیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیئے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول