صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اردو مرثیہ
ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن
جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
شعر و ادب میں ایسے واقعات زیادہ اہم قرار پاتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ واقعۂ کربلا محض ایک تخئیلی داستان نہیں بلکہ اس واقعے میں معاشرت کرنے کے اعلیٰ اقدار مل جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے تاریخی واقعات کی بہ نسبت واقعۂ کربلا نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حق گوئی، مظلومیت اور تمرّد کے خلاف جہاد کرنا، یہ ایسے اعلیٰ اقدار ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ معاشروں کو متاثر کیا بلکہ اس کے اثرات ادب و شعر پر بھی مرتسم ہوئے۔ (۱) یہی سبب ہے کہ اعلیٰ قدروں کی ترویج کے لئے کربلا کو استعارہ بنایا گیا (۲) اور ان استعاروں اور تلازموں سے نہایت عمدہ اور کارگر شہ پارے تخلیق کئے گئے۔ (۳، ۴)جدید اُردو مرثیہ(اقتباس)
معروف و غیر معروف ناقدین، محققین اور دانشوروں کی جانب سے بالعموم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ واقعۂ کربلا نے مختلف اصنافِ شعر و ادب کو متاثر کیا، بطور ثبوت غزل، داستان، افسانہ، مثنوی، ناول، نظم، ناولٹ، سفر نامہ، رپورتاژ اور دیگر اصناف میں سے چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعۂ کربلا نے محض شعر و ادب ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ اُردو شاعری کو متعدد اصناف سے مالا مال بھی کیا۔ آپ سلام، نوحہ اور مرثیہ کا بغور مطالعہ فرمائیے اور اس سوال کا کھوج لگائیے کہ کیا واقعہ کربلا کے بغیر ان اصناف کا ظہور میں آنا ممکن تھا؟؟ صنفِ مرثیہ وہ ممتاز صنف ہے، جس کا خمیر اسی برصغیر میں تیار ہوا اور یہی وہ صنف ہے کہ جس میں اُردو کے بیشتر اصناف کے محاسن کا جوہر مل جاتا ہے۔ (۵) اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کی صنف کو برصغیر پاک و ہند سے جو خصوصیت ہے وہ کسی دوسری صنف کو حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ سلام و نوحہ بھی صنفِ مرثیہ کی توسیع ہیں۔
مرثیہ، سلام اور نوحے کے اصناف ہر عہد میں اس لئے مقبولِ خاص و عام رہے کہ ان میں زندگی کی اعلیٰ قدریں پیش کی جاتی رہیں اور اسی سبب سے ان کے ذریعے اعلیٰ تر معاشرتی رویّے ظاہر ہوئے۔ آج بھی مذکورہ اصناف میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے زندگی بسر کرنے کے بہترین تصورات مل جائیں گے۔ (۶) واقعۂ کربلا کا یہ فیضان ہے کہ ا س نے ایک سطح پر تو انسان کا تعلق خدا سے اور دوسری سطح پر انسان کا تعلق اعلیٰ تر معاشرتی اقدار سے جوڑ دیا ہے۔ عصرِ حاضر میں ایسے شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، جو ان اصناف کے حوالے سے معاشرے میں مثبت اقدار کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
٭٭٭