صفحہ اول

کتاب کا نمونہ پڑھیں



چوں مرگ آید

تقی عابدی

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل      

زندگی کے آخری لمحات

    عبد المجید سالکؔ نے ذکرِ اقبالؔ میں ان کی زندگی کے آخری لمحات بیان کئے ہیں جو سید نذیر نیازی کے مضمون آخری علالت سے کچھ مختلف اور تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ ہم اس کا اقتباس یہاں پیش کر رہے ہیں۔

    اگرچہ علّامہ کی علالت کا سلسلہ ۱۹۳۴ء سے جاری تھا۔ لیکن جب ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا اور آل انڈیا پیمانہ پر پہلی بار یومِ اقبالؔ نہایت کامیابی سے منایا جا چکا، تو علّامہ کی علالت نے یک بیک ایک نیا پلٹا کھایا۔ اُس زمانے میں حکیم محمد حسین قریشی ان کا علاج کر رہے تھے۔ علّامہ کو ضیق النفس کے خفیف دورے شروع ہوئے۔ پچھلی رات بے خوابی ہونے لگی۔ دو ایک دن نقرس کی تکلیف بھی رہی۔ ضیق النفس کے لئے حکیم قریشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا جس کے استعمال سے سکون ہو جاتا تھا۔ حکیم صاحب کی تشخیص یہ تھی کہ علّامہ کو دمہ قلبی ہے اور اس کی وجہ سے ضعف قلب ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے بھی اس تشخیص کی تائید کی۔ اُن دنوں ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ علّامہ بستر پر بیٹھ کر تکیہ اپنے آگے رکھوا لیتے اور اس پر اپنا سر ٹیک دیتے۔ ۲۵ فروری کو دمہ کا دورہ ہوا۔ جوشاندہ پیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ پھر ایلوپیتھک علاج شروع ہوا۔ جس میں دورے کو روکنے اور نیند لانے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ چند روز ذرا آرام سے گزر گئے۔ ۳۰  مارچ کی شب کا ذکر ہے علّامہ پر ضعفِ قلب سے غشی طاری ہوئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے گر گئے۔ دوسرے دن حکیم قریشی صاحب نے ان کو دیکھا تو ان کے نیاز مندوں کو بتا دیا کہ علّامہ کا قلب نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے بھی ماؤف ہو چکے ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہو جائے گا۔

    ڈاکٹر محمد یوسف، ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر جمیعت سنگھ سے بھی کبھی کبھی مشورہ کر لیا جاتا اور وہ بھی انتہائی توجہ اور عقیدت سے علاج کرتے۔ لیکن علّامہ ڈاکٹری دواؤں کی تلخی اور ناگواری سے بے حد گھبراتے تھے اور علاج جاری نہ رہ سکتا تھا۔ معالج سب کے سب متفق تھے کہ علّامہ کو عظم و اتساع قلب کا عارضہ ہے۔ چونکہ قلب ضعف کی وجہ سے اپنے وظائف پوری طرح ادا نہیں کر سکتا ، اس لئے دمہ عارض ہے۔ گردوں کی کیفیت دیکھ کر حکیم قریشی صاحب کا خیال تھا کہ استسقاء کا اندیشہ ہے۔

    مرض الموت کی کیفیت یہ تھی کہ آخر میں استسقاء ہوا۔ چہرے پاؤں پر ورم ہو گیا۔ دردِ پشت اور دردِ شانہ کے عوارض شروع ہو گئے۔ ڈاکٹر جمیعت سنگھ نے دیکھا تو مایوسی ظاہر کی۔

    ۱۹ اپریل کی شام سے حضرت علّامہ کو بلغم میں کسی قدر خون آ رہا تھا اور یہ علامت سب کے نزدیک یاس انگیز تھی۔ ڈاکٹر امیر چند آ گئے اور ڈاکٹر عبد القیوم کو چند ہدایات دے کر چلے گئے۔ اس کے بعد علّامہ کو خیال آیا کہ حکیم قریشی شام سے بھوکے بیٹھے ہیں۔ کھانا نہیں کھایا۔ آپ نے علی بخش سے کہا کہ حکیم صاحب کو  بسکٹ کھلاؤ اور چائے پلاؤ۔ چودھری محمد حسین ، حکیم قریشی صاحب، سید سلامت اللہ شاہ اور سید نذیر نیازی خدمت میں حاضر تھے۔ راجہ حسن اختر کے متعلق دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ وہ ایک کام سے گئے ہیں۔ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لے کر آئے ، مگر اس کے پیتے ہی علّامہ کا جی متلانے لگا۔ اس پر حکیم صاحب نے خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی ایک خوراک دی۔ جس سے طبیعت بحال ہو گئی۔

    عبد القیوم نے حسبِ ہدایت فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علّامہ نے فرمایا۔ اتنا بڑا گلاس کیوں کر پیوں گا؟ اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی۔ اُس وقت علی بخش کے سوا کمرے میں کوئی دوسرا نہ تھا۔ علّامہ نے اس سے فرمایا ’’میرے شانوں کو دباؤ۔ ‘‘ پھر بیٹھے بیٹھے اپنے پاؤں پھیلا لئے ، اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا

’’یا اللہ ! یہاں درد ہے ‘‘۔ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے بڑھ کر سہارا دیا ، تو حضرت حکیم الامت نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے دربار میں سرخرو حاضر ہو گئے۔

 انّا للّٰہِ وانّا الیہ راجعون۔ کل من علیھا فان۔ ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل 

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول