صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مرد بھی بِکتے ہیں۔۔۔ جہیز کے لیے

علیم خان فلکی

Dowry ۔۔۔ A form of Male prostitution

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

    محض ایک سماجی برائی یا حلال و حرام کا مسئلہ؟

اگر دوسری قومیں جہیز کے لین دین کو ایک سماجی برائی Social evil کہتی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے یہ محض ایک سماجی برائی نہیں بلکہ اس سے آگے بہت کچھ ہے۔یہ ایک حلال و حرام کا سنگین مسئلہ ہے۔ اسے سگریٹ یا سینما بینی کے برابر کی ایک برائی قرار دینا ایک نادانی ہے۔ یہ نادانی نا دانستہ نہیں بلکہ دانستہ ہے۔ چونکہ پورا نظام عورتوں کے ہاتھوں چل رہا ہے جس پر مرد کنٹرول نہیں رکھتا جس کی وجہ سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے مرد مجبوریوں، مصلحتوں اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ گھر کے باہر مسجدوں میں غیر اہم فروعی مسائل پر بھی ایک دوسرے کی تکفیر ہی نہیں بلکہ قتال تک کے لئے آمادہ ہو جانے والی قوم کے افراد گھر کے اندر حلال و حرام کے اتنے بڑے مسئلے پر جانتے بوجھتے خاموشی برتتے ہیں؟
اور جہاں عورتیں قصوروار نہیں وہاں مردوں کی انانیت، حرص، سوسائٹی میں جو دوسرے کر رہے ہیں ویسا یا اس سے زیادہ کرنے کی خواہش، تفاخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت کے احکام کو جانتے بوجھتے اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر کے مطمئن ہو جانے کی خود فریبی یہ تمام اسباب اس بڑھتی ہوئی لعنت کے ذمہ دار ہیں۔
کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں
آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ
’’ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی‘‘۔
جتنے ملے سب شرفاء ملے۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ
’’الحمد لله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھاجاتا ہے‘‘۔
جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟
قاضی صاحب اور پنڈت جی میں فرق کیا ہے؟
اب آپ ذرا تحقیق کریں کہ جب سوسائٹی میں ہر شخص جہیز اور بے جا رسومات کا مخالف ہے تو ایک مسلمان کی شادی اور ایک غیر مسلم کی شادی میں فرق کیوں کر ختم ہو گیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ اُن کے ہاں پنڈت آ کر کسی کی سمجھ میں نہ آنے والے کچھ اشلوک پڑھتا ہے اور یہاں قاضی صاحب کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی کچھ عربی آیتیں پڑھ جاتے ہیں۔ وہاں آگ کے پھیرے ہوتے ہیں اور یہاں کچھ دیر کے لیے سروں پر ٹوپیاں یا دستیاں ڈال کر کچھ افراد دلہا دلہن سے ایجاب و قبول کی رسم پوری کروا کر بغیر وضو کے دعاء و فاتحہ پڑھ کر مصری بادام کے لوٹنے لٹانے کی چھینا جھپٹی پر ’’النکاح من سنتی‘‘ والے ڈرامے کا The End کرتے ہیں۔
پنڈت جی وہاں اپنی دکھشنا لے کر ہاتھ جوڑتے نمسکار کرتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں اور اِدھر قاضی صاحب اپنی فیس اور Tip وصول کر کے خوشی خوشی آداب بجا لاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ باقی سب کچھ تو وہی ہوتا ہے یعنی جہیز ، رسمیں ، لڑکی کے سرپرست کے خرچے پر اپنے سارے مہمان باراتیوں کی ضیافت وغیرہ۔ نوٹوں کی گڈیاں تو دونوں طرف شادی سے پہلے ہی وصول کر لی جاتی ہیں۔ جو لوگ ذرا غیرت مند اور خود دار ہوتے ہیں وہ بجائے نقد وصول کرنے کے کچھ اور معاملہ deal طئے کر لیتے ہیں۔
یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود
آئیے ! پھر اسی سوال کی طرف کہ جب نوشہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :
’’ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے۔۔۔وہ بھی خوشی سے‘‘۔
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خود داری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں۔
میاں بیوی کا رشتہ صرف دو افراد کا میل نہیں بلکہ ایک خاندان اور پورے معاشرے کی بنیاد ہے۔ اگر بنیاد میں غلطی رہ جائے ، چاہے دانستہ ہو یا نا دانستہ، نہ کوئی دیوار سلامت رہتی ہے نہ چھت ، نہ کھڑکی نہ دروازہ۔ تو پھر ایسی عمارت کے انجام کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کا رشتہ غلط بنیادوں پر کھڑا ہو تو خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کے غلط اثرات پڑتے ہیں۔ جس بنیاد کو ڈالنے کے لیے لڑکی کے سرپرست کو خوشی سے یا مجبوری و مصلحت کی وجہ سے لڑکے پر خرچ کرنا پڑا ہو۔ اس کے لیے لڑکی کے باپ اور بھائی کو ہو سکتا ہے گھر بیچنا پڑا ہو ، چندہ ، خیرات یا زکوٰۃ مانگنی پڑی ہو۔ ہو سکتا ہے جھوٹ ، رشوت ، چوری اور بے ایمانی کرنی پڑی ہو۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ ایسی غلط کاریوں کے ساتھ قائم ہونے والی بنیاد کیا معاشرے میں ایک پاک خاندان کی مضبوط عمارت کھڑی کر پائے گی ؟ جس طرح جام کے پیڑ سے آم نہیں اُگتے اسی طرح اسلام کو پامال کرنے والے طریقے کی بنیاد پر شروع ہونے والے رشتے نیک اور دیندار نسلیں نہیں پیدا کر سکتے۔ یہ منطق Logic کے خلاف ہے۔
عورت بغاوت پر کیوں اتر آئی ہے؟
کسی بھی دین یا مذہب کے حق ہونے یا نہ ہونے کی دو کسوٹیاں Criteria ہیں ایک تو یہ کہ عقائد ، عبادات یا رسومات کے علاوہ وہ دین انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ System of Life کیا دیتا ہے ؟
دوسرے یہ کہ اس کے ماننے والے اُسے کس طرح پیش کرتے ہیں ؟
یہاں ہماری ناکامی کی اصل وجہ کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ کہ ہر شخص یہ اعتراف کرتا ہے حتیٰ کہ مخالفینِ اسلام خود تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے اسلام کے کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جو اتنا مکمل اور شاندار نظام حیات System of Life دیتا ہو۔ لیکن اس کے پیش کرنے والوں نے اِسے دنیا کی نظروں میں نہ صرف مشکوک کر دیا بلکہ دور کر دیا۔اسلام کی صحیح تعلیمات جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ زمین بھی جنّت نما بن جاتی ہے وہ تعلیمات خود مسلمانوں کی زندگی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ہر شخص نماز ، روزے ، داڑھی ، ٹوپی وغیرہ کے بارے میں پوچھئے تو وہ ہر ضروری اور غیر ضروری تفصیل کے ساتھ خوب بحث کر سکتا ہے لیکن اسلام کے معاشی ، سیاسی ، سماجی ، عدل ، یا تعلیمی نظام اور بنکنگ، انشورنس یا ٹریڈنگ کے بارے میں پوچھئے تو وہ سوائے چند مبہم فتوؤں کے کچھ نہیں بتا پائے گا۔
اسی طرح عورتوں کے حقوق کے بارے میں پوچھئے ، سوائے اس کے کہ طلاق کس طرح دی جائے ، کب دی جائے ، عورت کی کون سی غلطی پر اُسے کیا سزا دی جائے ؟ اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں معلوم۔ دوسرے الفاظ میں اگر عورت غلطی کرے تو اسلام مرد کو کیا اختیار دیتا ہے وہ یہ تو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن اگر مرد کمینہ پن کرے تو اسلام عورت کو کیا حق دیتا ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عورتیں بغاوت کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ٹامل ناڈو میں عورتوں نے اپنی مسجد علٰہدہ بنانے کا اعلان کر دیا اس کے علاوہ بھی کئی مقامات سے خبریں پڑھنے میں آئیں کہ عورتوں نے خود نماز کی امامت، جمعہ کا خطبہ اور قاضی کے فرائض ادا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی عورتیں غیر مسلموں سے شادیاں بھی کر رہی ہیں۔ اس کی مزید تفصیل آگے باب ’’نقصانات‘‘ میں ملاحظہ ہو۔
اور اسی طرح کی بغاوت اور سرکشی کی کئی خبریں دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی ملتی رہتی ہیں۔ اس کے اسباب تو کئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورتیں اس نظام کے خلاف اب کھڑی ہو چکی ہیں جو نظام قاضیوں، دارالقضاۃ، مفتیوں اور علماء نے قائم کیا جس میں مرد کی جانب سے طلاق دئیے جانے پر تو فوری سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے لیکن اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے تو اسے مہینوں اور برسوں لٹکا کر رکھا جاتا ہے۔
عہد نبوی میں حضرت ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ) کی دو بیویوں حبیبہ بنت سہیل (رضی اللہ عنہا) اور جمیلہ (رضی اللہ عنہا) نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے خلع کی درخواست کی اور وجوہات بتائیں تو آپ نے انہیں فوری طلاق حاصل کر لینے کی اجازت دے دی۔
لیکن ہمارے عہد میں بے چاریاں دفترقضاء ت یا پھر کورٹ کے چکر لگاتی رہتی ہیں۔مرد نہ مہر ادا کرنے راضی ہوتا ہے اور نہ لیا ہوا جہیز اور جوڑے کی رقم وغیرہ واپس کرنے تیار ہوتا ہے۔ برسوں نہیں صدیوں عورت نے مرد کے ہاتھوں یہ ظلم سہا ہے شائد یہ انہی کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں Anti Dowry Act Section 498A نافذ ہوا۔ اس قانون کا جائز استعمال کم اور ناجائز زیادہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مرد عورت کے آگے ڈرنے لگا۔
اُدھر پاکستان میں بھی ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود مرد سے دوسری شادی کی آزادی چھین لی گئی۔مرد شریعت کی آڑ لینا بھول گیا۔ ایسا ہونا بھی چاہئیے تھا کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو فریق منگنی، نکاح کے دن کی دعوت ، جہیز وغیرہ پر خرچ کرے اُسی کی مرضی اور اسی کا فیصلہ چلنا بھی چاہئے۔
پہلا ذمہ دار طبقہ … دین و شریعت کے علمبردار
اس پورے فساد میں اصل قصور دینی امور کے ذمہ داروں اور شریعت کے نام نہاد علمبرداروں کا ہے۔ ہمارے واعظ اور مقرر جس شدت کے ساتھ عقائد ، ایمانیات ، بدعات و شرکیات پر اپنا پورا زورِ بیان صرف کرتے ہیں اس شدت کے ساتھ کبھی جوڑے جہیز کے بارے میں بیان نہیں کرتے۔ مسلکی اختلافات پر فریقین جس طرح ایک دوسرے کے خلاف دندناتے ہوئے جلوسوں اور جلسوں میں مظاہرے کرتے ہیں ، گرجدار شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر ، شرک اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگاتے ہیں وہی جوہرِ شعلہ بیانی کبھی جہیز کی لعنتوں کے خلاف نہیں صرف کرتے۔ جن فروعی مسائل پر یہ لوگ زور دیتے ہیں ان موضوعات کا تعلق نہ ایک غریب گھر کی روٹی سے ہے نہ اس کے معاشی مسائل سے، نہ ان موضوعات میں کوئی دعوت، تقویٰ و تزکیہ کا پہلو ہے اور نہ غیر مسلموں کے لیے ان میں کوئی کشش۔ جب کہ جوڑا جہیز کا موضوع ایک ایسا سماجی موضوع ہے جس کا تعلق نہ صرف ہر مسلمان کے معاش ، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ کروڑوں غیر مسلمین کے لیے اس میں اسلام کی دعوت پوشیدہ ہے۔جس میں مسلمان اور غیر مسلمین دونوں کی معاشی راحت کا سامان ہے ہمارے مقرر اور واعظ اس موضوع کو چھوتے بھی نہیں۔ اگر کچھ کہتے بھی ہیں تو نہ وہ گرج ہوتی ہے نہ مخالفین پر فائرنگ کا انداز ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابا جان شریر بچے کو چمکار تے ہوئے کہہ رہے ہوں :
’’بیٹا بُری بات ہے اچھے بچے اس طرح شرارت نہیں کرتے‘‘۔
اور نہ قاضی صاحبان خطبے میں ان چیزوں کی ممانعت کرتے ہیں۔
ہوس بالائے ممبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اور ان کے اہل خاندان اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ بھی جن کے چندوں سے مدرسے اور مسجدوں کی انتظامی کمیٹیاں چلتی ہیں اس جرم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں۔ ظاہر ہے جب کہنے والے کے ہاتھ خود خون میں رنگے ہوں وہ دوسروں پر انگلی کیسے اٹھا سکتا ہے۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جوڑا جہیز ہی دراصل آج مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے۔اس کی ذمہ داری سب سے پہلے دین کی نمائندگی کرنے والے طبقے پر ہے، اس کے بعد تعلیم یافتہ خوشحال مسلمانوں پر۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول