صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
مقتل الحسین
پروفیسر حکیم علی عباسی (ترجمہ و تشریح)
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ابن زیادہ اور مسلم و ہانی
پھر
ہانی نے ابن زیادہ کو اس بے وفائی کی شکایت بھیجی کہ بیمار پرسی کو
نہیں آئے۔ اس نے معذرت کہلا بھیجی کہ مجھے آپ کی بیماری کی خبر نہ
تھی۔اب میں رات کو آؤں گا۔ چنانچہ ابن زیاد نے جب عشاء کی نماز پڑھ لی تو
ہانی کی عیادت کو آیا۔ اس کا دربان اس کے ساتھ تھا۔ جب ہانی سے کہا کہ ابن
زیاد دروازے پر ہے اور اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے تو ہانی نے اپنی خادمہ
سے کہا کہ مسلم کو تلوار دے دو۔ اس نے دیدی اور وہ کوٹھری میں
چلے گئے۔ ابن زیاد اندر آیا اور ان کے (یعنی ہانی) قریب بیٹھ گیا۔ دربان
اس کے پیچھے کھڑا رہا۔ وہ (یعنی امیر زیاد) ہانی سے باتیں کرتا رہا اور ان
کے احوال پوچھے۔ ہانی اپنی بیماری کی کیفیت سناتے رہے اور
مسلم کے دیر لگانے کا خیال کر کے اپنا عمامہ سر سے اتار کر زمین پر
رکھ دیا اور پھر سر پر رکھ لیا۔ اسی طرح انھوں نے تین دفعہ کیا مگر مسلم
نہ نکلے۔ اب انھوں نے مسلم کو سنانے کے لئے بلند آواز میں یہ شعر پڑھے۔
(1) یہ انتظار کیسا ہے اور سلمیٰ کو جواب کیوں نہیں دیتا۔ سلمیٰ کو خوش آمدید کہو اور ان سب کو جو اس کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔
(2) کہیں خوشگوار پانی کا گھونٹ ہے جو مجھے پیاس کی حالت میں پلا دیا جائے اگر میں تلف ہو گیا تو میرا دل اس میں اٹکا رہے گا۔
(3) اگر سلمیٰ نے تمھاری جانب سے کسی چالبازی کا احساس کیا تو تمھیں بھی اس کی چالبازی سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔
وہ بار بار یہ شعر پڑھتے تھے۔ ابن زیاد نے ان کا مقصد نہ سمجھ کر پوچھا ان صاحب کی یہ ہذیانی کیفیت کیوں ہے۔ لوگوں نے کہا شدت مرض کے سبب۔ غرض ابن زیاد کچھ دیر بعد اٹھ گیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر چلا گیا۔ اب مسلم نکلے تو ہانی نے کہا۔ اس کے قتل سے آپ کو کس بات نے روکا۔ انھوں نے کہا ایک روایت مجھ تک نبی ﷺ کے حوالے سے پہنچی ہے کہ ایک مسلمان کو جو قتل کرے اس کا ایمان نہیں۔ہانی نے کہا کہ آپ اگر اسے قتل کرتے تو یہ ایک کافر کا قتل ہوتا۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب ابن زیادہ قصر امارت میں داخل ہوا تو اپنے ایک آزاد کردہ غلام کو بلایا جو معقل کہلاتا تھا۔وہ نہایت عقیل و فہیم شخص تھا۔ اس نے اسے تین ہزار درہم دئے اور کہا یہ لو اور مسلم بن عقیل کا پتہ لگا کر اسے دے دو۔ اور کہو کہ اس رقم سے وہ اپنے دشمن کے خلاف تیاری کریں۔ ان پر اپنا اخلاص ظاہر کرنا اور مجھے آ کر بتانا۔ معقل نے وہ درہم لئے اور کوفہ کے گھروں کا چکر لگایا۔یہاں تک کہ لوگوں نے اسے مسلم بن عجوسہ کے پاس پہنچا دیا۔ وہ اس وقت مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔ جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہو ا تو معقل اٹھا اور اسے گلے لگا لیا۔ اخلاص کا اظہار کیا اور کہا اے ابو عبداللہ میں ایک سامی شخص ہوں لیکن اللہ نے میرے دل میں اہل بیت کی محبت ڈال کر احسان کیا ہے۔ میرے پاس تین ہزار درہم ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ یہ رقم اس شخص کو دوں جو لوگوں سے رسول اللہ کے نواسے کی بیعت لے رہا ہے۔ میں تمھارے پاس اسی لئے آیا ہوں کہ مجھ سے یہ درہم لے کر اپنے ان صاحب کو پہنچا دو میں ان معتبر لوگوں میں سے ہوں جنھیں وہ قابل اعتماد سمجھیں گے۔ ان کا معاملہ پوشیدہ رکھنے کی صلاحیت مجھ میں ہے۔
مسلم بن عجوسہ بولا اے بھائی عرب ایسی باتوں سے بے تعلق رہیے۔ ہمیں اہل بیت سے کیا کام ؟ جس شخص نے تمھیں مجھ تک پہنچایا ہے اس نے کوئی صحیح کام نہیں کیا۔ معقل نے کہا اگر تمھیں مجھ پر اطمینان نہیں جیسا چاہو عہد و پیمان لے لو۔ پھر بڑی قسمیں کھائیں اور حلفیہ بیان دیتا رہا تا آنکہ اس نے اسے ابن عقیل کے پاس پہنچا دیا اور اس کے متعلق سب باتیں بتا دیں۔ مسلم نے اس پر اعتماد کر لیا اور بیعت لے لی۔ پھر یہ روپیہ ابو کو دے دیا کیونکہ مال جمع کرنا اور اسلحہ خریدنا اسی کے ذمہ تھا اور وہ ان کے شہسواروں میں گنا جاتا تھا۔47۔
معقل ان لوگوں کے راز معلوم کرتا رہا۔ اور جب سب معلومات بہم پہنچائیں تو ابن زیاد کے پاس جا کر مسلم بن عقیل کا پورا حال سنا دیا۔ ابن زیاد کو جب اطمینان ہو گیا تو اس نے محمد بن اشعث، اسماء بن خارجہ اور عمرو بن الحجاج کو بلا کر کہا کہ آپ لوگ ہانی کے پاس جائیے اور انھیں یہاں لے آئیے۔ عمرو بن حجاج کی بیٹی ہانی کی بیوی تھی۔ اس نے (یعنی امیر ابن زیاد نے ) ان کے ساتھ کچھ لوگ اور بھی کر دئیے تھے اور سب سے کہا تھا کہ ہانی کے پاس جاؤ اور انھیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ لوگ گئے تو انھیں دروازے پر ہی بیٹھا پایا۔ ان لوگوں نے کہا، ہانی تمھیں امیر بلا رہے ہیں۔ وہ کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ چل پڑے۔ قصر امارت کے پاس پہنچے تو وہاں کے منظر سے انھیں کچھ خطرہ محسوس ہوا اس لئے وہ اسماء بن خارجی کی طرف مڑے اور کہا بھائی مجھے اس شخص سے خوف آتا ہے اور میرا دل کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
اس نے کہا بخدا ہمیں تمھارے بارے میں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ تم ہر الزام سے بری ہو۔ لہذا دل میلا مت کرو۔ چنانچہ وہ لوگ آگے چلے یہاں تک کہ ابن زیاد کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے جب ہانی کو دیکھا تو منہ پھیر لیا اور انھیں تعظیم نہیں دی۔ ہانی کو یہ بات ناگوار تو گزری مگر انھوں نے پھر بھی سلام کیا لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔ہانی نے کہا امیر کے مزاج کی برہمی اللہ دور کس طرح کرے گا، اس نے کہا اے ہانی تم نے مسلم بن عقیل کو پناہ دی اور ان کے لئے سپاہی اور اسلحہ فراہم کر رہے ہو، اور تمھارا یہ خیال تھا کہ یہ بات مجھ سے پوشیدہ رہے گی۔ ہانی نے کہا پناہ بخدا میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ابن زیاد نے کہا جو شخص مجھ تک یہ اطلاع لایا ہے وہ میرے نزدیک تم سے زیادہ سچا ہے۔پھر اس نے آواز دی معقل باہر آؤ اور اس شخص کو جھوٹا ثابت کرو۔ معقل نکلا اور اس نے کہا خوش آمدید ہانی آپ مجھے جانتے ہیں ؟ انھوں نے کہا ہاں جانتا ہوں کہ تم ایک فاجر اور کافر ہو۔
اسے دیکھتے ہی ابن ہانی سمجھ گئے تھے کہ ابن زیاد کا جاسوس تھا۔ اب ابن زیاد نے کہا تم میرے پاس سے نہیں جا سکتے جب تک کہ عقیل کو میرے سامنے پیش نہ کر دو۔ ورنہ تمھارا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ یہ سن کر ہانی کو غصہ آ گیا اور انھوں نے کہا بخدا تم میں اتنی سکت نہیں ورنہ مذحج تمھارا خون کر دیں گے۔ ابن زیاد کو بھی غصہ آ گیا اور اس نے ان کے بید مارا۔ ہانی نے اپنی تلوار سونت لی اور ابن زیاد پر چلائی۔ وہ (یعنی ابن زیاد) اس وقت ٹوپی اوڑھے ہوا تھا جس پر مصنوعی ریشم کا رومال ڈال رکھا تھا، تلوار ان دونوں کو کاٹتی ہوئی سر میں اتر گئی اور کاری زخم ڈال دیا۔ اتنے میں معقل بیچ میں آ گیا تو اس کے چہرے کے بھی دو ٹکڑے کر دئے۔ابن زیاد نے کہا کہ لوگو اسے نکلنے مت دینا۔اور ہانی تھے کہ دائیں بائیں تلوار چلا رہے تھے اور کہتے جاتے تھے تمھارا ناس جائے آل رسول کا کوئی بچہ میرے پاؤں تلے ہو تب بھی میں نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ وہ کٹ نہ جائے اس طرح انھوں نے بیس پچیس ملعونوں کو قتل کر دیا۔لیکن لوگوں نے بہرحال ہجوم کر کے انھیں گرفتار کر لیا اور ابن زیاد کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ڈنڈا تھا وہ ان کے (یعنی ہانی کے ) سر پر مارا اور پھر ایک گڑھے میں انھیں ڈال دیا۔
ابو مخنف کہتا ہے کہ ایک آدمی چیختا ہوا قبیلہ مذحج تک گیا اور انھیں اس واقع کی اطلاع دے دی۔ اس پر عمر و بن الحجاج دیناری چار سو سواروں کو لے کر چلے اور قصر امارۃ کو گھیر لیا اور پھر آواز دے کر کہا اے ابن زیاد ہمارے آدمیوں کو کیوں قتل کرتے ہو، انھوں نے اطاعت سے منہ نہیں موڑا اور جماعت سے روگردانی نہیں کی۔ پھر انھوں نے ندا دی۔ ہانی اگر تم زندہ ہو تو ہم سے بات کرو، تمھارے بنو الاعمام اور تمھاری قوم مذحج کے لوگ تمھارے دشمن کو قتل کرنے آ پہنچے ہیں۔
ابن زیاد نے جب یہ بات سنی تو قاضی شریح48 سے کہا کہ آپ ان کے پاس جائیے اور بتائیے کہ ان کا آدمی زندہ ہے اور امیر نے کچھ خاص معاملات ان کے سپرد کئے تھے۔ ان کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ نکلا اور کہا۔ تمھارے آدمی امیر کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ان سے کچھ دریافت کر رہے ہیں۔ ابھی ابھی وہ تمھارے پاس آ جائیں گے۔ وہ لوٹ گئے اور کہا الحمد للہ کہ حالات پر امن ہیں۔ابو مخنف کہتا ہے مسلم بن عقیل نے جب ہانی کے قتل کی بات سنی تو ان کے جس گھر میں تھے وہاں سے جلدی سے چل دئیے۔ اور راستہ ناپتے ہوئے کوفہ سے باہر نکل گئے تا آنکہ حیرہ پہنچ گئے۔ وہاں گھومتے گھومتے ایک مکان پر پہنچے جس کی کرسی اونچی تھی اور ڈیوڑھی بڑی۔ وہاں ڈیوڑھی میں انھوں نے ایک خاتون کو بیٹھے دیکھا۔ اب مسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور اس خاتون کی طرف دیکھتے رہے۔ اس خاتون نے کہا اے شخص دوسروں کے زنان خانے کے سامنے کھڑے ہونے سے تمھارا کیا مقصد ہے ؟ انھوں نے فرمایا بخدا آپ جو کچھ کہہ رہی ہیں اس کا میرے دل میں خطرہ بھی نہیں۔ میں تو ایک مظلوم شخص ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دن دن تک یہاں روپوش رکھیں۔ پھر رات کا اندھیرا ہوا تو میں چلا جاؤں گا۔
اس خاتون نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں، ایک فریب خوردہ شخص جو بے یارو مددگار رہ گیا ہے۔وہ خاتون آپ کو پہچان گئیں اور کہا۔ آپ ایسے گھر آئے ہیں جہاں آپ کی پذیرائی محبت و احترام سے کی جائے گی۔ بخدا میں ان میں ہوں جو آپ کی نجات کا سبب بنیں پھر انھیں گھر میں بلا لیا اور ایک کوٹھری میں لے جا کر کھانا پانی پیش کیا۔ جب رات ہوئی انھوں نے (یعنی مسلم بن عقیل نے ) نکل جانا چاہا، تو اچانک اس خاتون کا بیٹا آ گیا جو ابن زیادہ کی فوج میں افسر تھا۔
اس نے اپنی والدہ کو کوٹھری میں آتے جاتے دیکھا تو کھٹک گیا اور پوچھا اماں جان بتائیے اندر کیا بات ہے ؟ اور اصرار کرتا رہا۔ اس خاتون نے کہا بیٹا میں اول اللہ کے واسطے سے عہد لینا چاہتی ہوں کہ تم راز افشا نہیں کرو گے۔ اس نے کہا بہت اچھا اور اللہ کے نام سے عہد کیا کہ راز فاش نہیں کرے گا۔ تب انھوں نے بتایا کہ بیٹا یہ مسلم بن عقیل ہیں ایک فریب خوردہ شخص جو بے یارو مددگار ہو گئے۔ میں نے انھیں یہاں چھپا لیا ہے تا آنکہ ان کی تلاش کا ہنگامہ فرو ہو جائے۔ خبردار بیٹا امانت میں خیانت مت کرنا۔ وہ ملعون چپ ہو گیا اور رات یونہی گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور مسلم اٹھ بیٹھے تو خاتون پانی کا برتن لئے کھڑی تھیں جسے انھوں نے ان کی طرف بڑھا دیا اور انھوں نے لے لیا۔ خاتون نے کہا کہ میرے آقا کیا بات ہے میں دیکھتی ہوں کہ آپ رات بھر سوئے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ لگ گئی تھی کہ میں نے اپنے چچا امیر المومنین (یعنی حضرت علیؓ) کو دیکھا وہ فرما رہے تھے۔ جلدی کرو جلدی، فوراً آؤ فوراً اب مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ دنیا میں یہ میری زندگی کا آخری وقت ہے۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب صبح ہو گئی تو لڑکا تیزی سے نکلا اور قصر امارۃ پہنچ کر آواز لگائی خیر خواہی خیر خواہی۔ اس کے باپ نے کہا کونسی خیر خواہانہ خبر لائے ہو۔ اس نے کہا میری ماں اب دشمنوں کو پناہ دینے لگی ہے۔ اس نے کہا کس دشمن کو اس نے پناہ دی ہے ؟ کہا مسلم بن عقیل ہمارے گھر میں ہیں۔ یہ بات ابن زیاد نے سن لی اور پوچھا لڑکا کیا کہتا ہے۔ اس کا باپ بولا کہتا ہے کہ مسلم ہمارے گھر میں ہیں۔ ابن زیاد کھڑا ہو گیا ، اسے سونے کا گلو بند پہنایا خالص چاندی کا تاج سر پر رکھا اور اپنے تیز رفتار گھوڑوں میں سے ایک پر سوار کیا۔
(1) یہ انتظار کیسا ہے اور سلمیٰ کو جواب کیوں نہیں دیتا۔ سلمیٰ کو خوش آمدید کہو اور ان سب کو جو اس کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔
(2) کہیں خوشگوار پانی کا گھونٹ ہے جو مجھے پیاس کی حالت میں پلا دیا جائے اگر میں تلف ہو گیا تو میرا دل اس میں اٹکا رہے گا۔
(3) اگر سلمیٰ نے تمھاری جانب سے کسی چالبازی کا احساس کیا تو تمھیں بھی اس کی چالبازی سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔
وہ بار بار یہ شعر پڑھتے تھے۔ ابن زیاد نے ان کا مقصد نہ سمجھ کر پوچھا ان صاحب کی یہ ہذیانی کیفیت کیوں ہے۔ لوگوں نے کہا شدت مرض کے سبب۔ غرض ابن زیاد کچھ دیر بعد اٹھ گیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر چلا گیا۔ اب مسلم نکلے تو ہانی نے کہا۔ اس کے قتل سے آپ کو کس بات نے روکا۔ انھوں نے کہا ایک روایت مجھ تک نبی ﷺ کے حوالے سے پہنچی ہے کہ ایک مسلمان کو جو قتل کرے اس کا ایمان نہیں۔ہانی نے کہا کہ آپ اگر اسے قتل کرتے تو یہ ایک کافر کا قتل ہوتا۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب ابن زیادہ قصر امارت میں داخل ہوا تو اپنے ایک آزاد کردہ غلام کو بلایا جو معقل کہلاتا تھا۔وہ نہایت عقیل و فہیم شخص تھا۔ اس نے اسے تین ہزار درہم دئے اور کہا یہ لو اور مسلم بن عقیل کا پتہ لگا کر اسے دے دو۔ اور کہو کہ اس رقم سے وہ اپنے دشمن کے خلاف تیاری کریں۔ ان پر اپنا اخلاص ظاہر کرنا اور مجھے آ کر بتانا۔ معقل نے وہ درہم لئے اور کوفہ کے گھروں کا چکر لگایا۔یہاں تک کہ لوگوں نے اسے مسلم بن عجوسہ کے پاس پہنچا دیا۔ وہ اس وقت مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔ جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہو ا تو معقل اٹھا اور اسے گلے لگا لیا۔ اخلاص کا اظہار کیا اور کہا اے ابو عبداللہ میں ایک سامی شخص ہوں لیکن اللہ نے میرے دل میں اہل بیت کی محبت ڈال کر احسان کیا ہے۔ میرے پاس تین ہزار درہم ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ یہ رقم اس شخص کو دوں جو لوگوں سے رسول اللہ کے نواسے کی بیعت لے رہا ہے۔ میں تمھارے پاس اسی لئے آیا ہوں کہ مجھ سے یہ درہم لے کر اپنے ان صاحب کو پہنچا دو میں ان معتبر لوگوں میں سے ہوں جنھیں وہ قابل اعتماد سمجھیں گے۔ ان کا معاملہ پوشیدہ رکھنے کی صلاحیت مجھ میں ہے۔
مسلم بن عجوسہ بولا اے بھائی عرب ایسی باتوں سے بے تعلق رہیے۔ ہمیں اہل بیت سے کیا کام ؟ جس شخص نے تمھیں مجھ تک پہنچایا ہے اس نے کوئی صحیح کام نہیں کیا۔ معقل نے کہا اگر تمھیں مجھ پر اطمینان نہیں جیسا چاہو عہد و پیمان لے لو۔ پھر بڑی قسمیں کھائیں اور حلفیہ بیان دیتا رہا تا آنکہ اس نے اسے ابن عقیل کے پاس پہنچا دیا اور اس کے متعلق سب باتیں بتا دیں۔ مسلم نے اس پر اعتماد کر لیا اور بیعت لے لی۔ پھر یہ روپیہ ابو کو دے دیا کیونکہ مال جمع کرنا اور اسلحہ خریدنا اسی کے ذمہ تھا اور وہ ان کے شہسواروں میں گنا جاتا تھا۔47۔
معقل ان لوگوں کے راز معلوم کرتا رہا۔ اور جب سب معلومات بہم پہنچائیں تو ابن زیاد کے پاس جا کر مسلم بن عقیل کا پورا حال سنا دیا۔ ابن زیاد کو جب اطمینان ہو گیا تو اس نے محمد بن اشعث، اسماء بن خارجہ اور عمرو بن الحجاج کو بلا کر کہا کہ آپ لوگ ہانی کے پاس جائیے اور انھیں یہاں لے آئیے۔ عمرو بن حجاج کی بیٹی ہانی کی بیوی تھی۔ اس نے (یعنی امیر ابن زیاد نے ) ان کے ساتھ کچھ لوگ اور بھی کر دئیے تھے اور سب سے کہا تھا کہ ہانی کے پاس جاؤ اور انھیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ لوگ گئے تو انھیں دروازے پر ہی بیٹھا پایا۔ ان لوگوں نے کہا، ہانی تمھیں امیر بلا رہے ہیں۔ وہ کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ چل پڑے۔ قصر امارت کے پاس پہنچے تو وہاں کے منظر سے انھیں کچھ خطرہ محسوس ہوا اس لئے وہ اسماء بن خارجی کی طرف مڑے اور کہا بھائی مجھے اس شخص سے خوف آتا ہے اور میرا دل کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
اس نے کہا بخدا ہمیں تمھارے بارے میں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ تم ہر الزام سے بری ہو۔ لہذا دل میلا مت کرو۔ چنانچہ وہ لوگ آگے چلے یہاں تک کہ ابن زیاد کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے جب ہانی کو دیکھا تو منہ پھیر لیا اور انھیں تعظیم نہیں دی۔ ہانی کو یہ بات ناگوار تو گزری مگر انھوں نے پھر بھی سلام کیا لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔ہانی نے کہا امیر کے مزاج کی برہمی اللہ دور کس طرح کرے گا، اس نے کہا اے ہانی تم نے مسلم بن عقیل کو پناہ دی اور ان کے لئے سپاہی اور اسلحہ فراہم کر رہے ہو، اور تمھارا یہ خیال تھا کہ یہ بات مجھ سے پوشیدہ رہے گی۔ ہانی نے کہا پناہ بخدا میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ابن زیاد نے کہا جو شخص مجھ تک یہ اطلاع لایا ہے وہ میرے نزدیک تم سے زیادہ سچا ہے۔پھر اس نے آواز دی معقل باہر آؤ اور اس شخص کو جھوٹا ثابت کرو۔ معقل نکلا اور اس نے کہا خوش آمدید ہانی آپ مجھے جانتے ہیں ؟ انھوں نے کہا ہاں جانتا ہوں کہ تم ایک فاجر اور کافر ہو۔
اسے دیکھتے ہی ابن ہانی سمجھ گئے تھے کہ ابن زیاد کا جاسوس تھا۔ اب ابن زیاد نے کہا تم میرے پاس سے نہیں جا سکتے جب تک کہ عقیل کو میرے سامنے پیش نہ کر دو۔ ورنہ تمھارا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ یہ سن کر ہانی کو غصہ آ گیا اور انھوں نے کہا بخدا تم میں اتنی سکت نہیں ورنہ مذحج تمھارا خون کر دیں گے۔ ابن زیاد کو بھی غصہ آ گیا اور اس نے ان کے بید مارا۔ ہانی نے اپنی تلوار سونت لی اور ابن زیاد پر چلائی۔ وہ (یعنی ابن زیاد) اس وقت ٹوپی اوڑھے ہوا تھا جس پر مصنوعی ریشم کا رومال ڈال رکھا تھا، تلوار ان دونوں کو کاٹتی ہوئی سر میں اتر گئی اور کاری زخم ڈال دیا۔ اتنے میں معقل بیچ میں آ گیا تو اس کے چہرے کے بھی دو ٹکڑے کر دئے۔ابن زیاد نے کہا کہ لوگو اسے نکلنے مت دینا۔اور ہانی تھے کہ دائیں بائیں تلوار چلا رہے تھے اور کہتے جاتے تھے تمھارا ناس جائے آل رسول کا کوئی بچہ میرے پاؤں تلے ہو تب بھی میں نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ وہ کٹ نہ جائے اس طرح انھوں نے بیس پچیس ملعونوں کو قتل کر دیا۔لیکن لوگوں نے بہرحال ہجوم کر کے انھیں گرفتار کر لیا اور ابن زیاد کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ڈنڈا تھا وہ ان کے (یعنی ہانی کے ) سر پر مارا اور پھر ایک گڑھے میں انھیں ڈال دیا۔
ابو مخنف کہتا ہے کہ ایک آدمی چیختا ہوا قبیلہ مذحج تک گیا اور انھیں اس واقع کی اطلاع دے دی۔ اس پر عمر و بن الحجاج دیناری چار سو سواروں کو لے کر چلے اور قصر امارۃ کو گھیر لیا اور پھر آواز دے کر کہا اے ابن زیاد ہمارے آدمیوں کو کیوں قتل کرتے ہو، انھوں نے اطاعت سے منہ نہیں موڑا اور جماعت سے روگردانی نہیں کی۔ پھر انھوں نے ندا دی۔ ہانی اگر تم زندہ ہو تو ہم سے بات کرو، تمھارے بنو الاعمام اور تمھاری قوم مذحج کے لوگ تمھارے دشمن کو قتل کرنے آ پہنچے ہیں۔
ابن زیاد نے جب یہ بات سنی تو قاضی شریح48 سے کہا کہ آپ ان کے پاس جائیے اور بتائیے کہ ان کا آدمی زندہ ہے اور امیر نے کچھ خاص معاملات ان کے سپرد کئے تھے۔ ان کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ نکلا اور کہا۔ تمھارے آدمی امیر کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ان سے کچھ دریافت کر رہے ہیں۔ ابھی ابھی وہ تمھارے پاس آ جائیں گے۔ وہ لوٹ گئے اور کہا الحمد للہ کہ حالات پر امن ہیں۔ابو مخنف کہتا ہے مسلم بن عقیل نے جب ہانی کے قتل کی بات سنی تو ان کے جس گھر میں تھے وہاں سے جلدی سے چل دئیے۔ اور راستہ ناپتے ہوئے کوفہ سے باہر نکل گئے تا آنکہ حیرہ پہنچ گئے۔ وہاں گھومتے گھومتے ایک مکان پر پہنچے جس کی کرسی اونچی تھی اور ڈیوڑھی بڑی۔ وہاں ڈیوڑھی میں انھوں نے ایک خاتون کو بیٹھے دیکھا۔ اب مسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور اس خاتون کی طرف دیکھتے رہے۔ اس خاتون نے کہا اے شخص دوسروں کے زنان خانے کے سامنے کھڑے ہونے سے تمھارا کیا مقصد ہے ؟ انھوں نے فرمایا بخدا آپ جو کچھ کہہ رہی ہیں اس کا میرے دل میں خطرہ بھی نہیں۔ میں تو ایک مظلوم شخص ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دن دن تک یہاں روپوش رکھیں۔ پھر رات کا اندھیرا ہوا تو میں چلا جاؤں گا۔
اس خاتون نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں، ایک فریب خوردہ شخص جو بے یارو مددگار رہ گیا ہے۔وہ خاتون آپ کو پہچان گئیں اور کہا۔ آپ ایسے گھر آئے ہیں جہاں آپ کی پذیرائی محبت و احترام سے کی جائے گی۔ بخدا میں ان میں ہوں جو آپ کی نجات کا سبب بنیں پھر انھیں گھر میں بلا لیا اور ایک کوٹھری میں لے جا کر کھانا پانی پیش کیا۔ جب رات ہوئی انھوں نے (یعنی مسلم بن عقیل نے ) نکل جانا چاہا، تو اچانک اس خاتون کا بیٹا آ گیا جو ابن زیادہ کی فوج میں افسر تھا۔
اس نے اپنی والدہ کو کوٹھری میں آتے جاتے دیکھا تو کھٹک گیا اور پوچھا اماں جان بتائیے اندر کیا بات ہے ؟ اور اصرار کرتا رہا۔ اس خاتون نے کہا بیٹا میں اول اللہ کے واسطے سے عہد لینا چاہتی ہوں کہ تم راز افشا نہیں کرو گے۔ اس نے کہا بہت اچھا اور اللہ کے نام سے عہد کیا کہ راز فاش نہیں کرے گا۔ تب انھوں نے بتایا کہ بیٹا یہ مسلم بن عقیل ہیں ایک فریب خوردہ شخص جو بے یارو مددگار ہو گئے۔ میں نے انھیں یہاں چھپا لیا ہے تا آنکہ ان کی تلاش کا ہنگامہ فرو ہو جائے۔ خبردار بیٹا امانت میں خیانت مت کرنا۔ وہ ملعون چپ ہو گیا اور رات یونہی گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور مسلم اٹھ بیٹھے تو خاتون پانی کا برتن لئے کھڑی تھیں جسے انھوں نے ان کی طرف بڑھا دیا اور انھوں نے لے لیا۔ خاتون نے کہا کہ میرے آقا کیا بات ہے میں دیکھتی ہوں کہ آپ رات بھر سوئے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ لگ گئی تھی کہ میں نے اپنے چچا امیر المومنین (یعنی حضرت علیؓ) کو دیکھا وہ فرما رہے تھے۔ جلدی کرو جلدی، فوراً آؤ فوراً اب مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ دنیا میں یہ میری زندگی کا آخری وقت ہے۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب صبح ہو گئی تو لڑکا تیزی سے نکلا اور قصر امارۃ پہنچ کر آواز لگائی خیر خواہی خیر خواہی۔ اس کے باپ نے کہا کونسی خیر خواہانہ خبر لائے ہو۔ اس نے کہا میری ماں اب دشمنوں کو پناہ دینے لگی ہے۔ اس نے کہا کس دشمن کو اس نے پناہ دی ہے ؟ کہا مسلم بن عقیل ہمارے گھر میں ہیں۔ یہ بات ابن زیاد نے سن لی اور پوچھا لڑکا کیا کہتا ہے۔ اس کا باپ بولا کہتا ہے کہ مسلم ہمارے گھر میں ہیں۔ ابن زیاد کھڑا ہو گیا ، اسے سونے کا گلو بند پہنایا خالص چاندی کا تاج سر پر رکھا اور اپنے تیز رفتار گھوڑوں میں سے ایک پر سوار کیا۔
***