صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
ایک اور ہی منظر
رشید ندیم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
میں ایسی جنت کے خواب سے تنگ آ چکا ہوں
میں مستقل اضطراب سے تنگ آ چکا ہوں
بس ایک ہلکا سا واہمہ ہے یقیں کا باقی
وگرنہ میں اس سراب سے تنگ آ چکا ہوں
میں سر اٹھاؤں تو ساری محراب ڈولتی ہے
میں اس جہانِ خراب سے تنگ آ چکا ہوں
یہ مجھ پہ چڑھ دوڑتے ہیں لے کر کتاب تیری
میں تیرے اہلِ کتاب سے تنگ آ چکا ہوں
یہ کف اڑاتے ہوئے مناظر عقیدتوں کے
میں ان کی طرزِ خطاب سے تنگ آ چکا ہوں
عذاب کی دھمکیاں سی ملتی ہیں منبروں سے
میں ذکرِ روزِ حساب سے تنگ آ چکا ہوں
میں منزلِ خیرو شر سے آگے نکل رہا ہوں
میں اس عذاب و ثواب سے تنگ آ چکا ہوں
***
نظارہ تھا اک اور ہی منظر سے نکل کر
دیکھا جو سمندر کو سمندر سے نکل کر
پھرتا تھا کہیں خواب خلاؤں میں اکیلا
میں گردش افلاک کے محور سے نکل کر
اب یاد نہیں رہتی مجھے وقت کی گنتی
نسیاں میں پڑا رہتا ہوں ازبر سے نکل کر
کھو جاؤں گا اک روز کسی خواب ابد میں
لیٹوں گا کف خاک پہ بستر سے نکل کر
لذت کش خمیازہ ہوں اے حسرت نا یافت
نایاب میں رہتا ہوں میسّر سے نکل کر
پھر رقص میں ہے حرف برہنہ سر محفل
پابندیِ آداب کی چادر سے نکل کر
گونجا ہے ندیم اب کے بڑے زور سے سر میں
اک شورتمنّا دل خودسر سے نکل کر
***