صفحہ اول

کتاب کا نمونہ پڑھیں



منظر پس منظر

حیدر قریشی

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

تصویر کا ایک اوررُخ آئندہ امکانات


نومبر۲۰۰۳ء

عالمی صورتحال اتنی گنجلک ہوتی چلی جا رہی ہے کہ پیش آمدہ صورتحال کی روشنی میں مستقبل کی کوئی حتمی بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔تاہم اپنی سمجھ کے مطابق مجھے جو نقشہ دکھائی دے رہا ہے اور اس میں امکانات کے جتنے مختلف پہلو ہیں،انہیں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے قائم عالمِ عرب کا موجودہ نقشہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے نتیجہ میں امریکہ اور یورپ کا بنایا ہوا نقشہ ہے۔بعد میں چند ممالک سوویت یونین کے حلقہ میں چلے گئے لیکن بیشتر عالمِ عرب امریکہ اور مغرب کے حلقۂ اثر میں رہا۔بہت کم لوگوں کو یاد رہ گیاہوگا کہ ارضِ حجاز کے بادشاہ شریف حسین کو ہٹا کر اور ارضِ حجاز کو سعودی عرب میں بدل کر جب سعودی حکمرانوں کو مکہ،مدینہ کا اقتدارسونپا گیا تھا تب سعودی عرب کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک انگریز کو بنایا گیا تھا۔ اس لئے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان سارے عرب بادشاہوں کی بادشاہتوں کے قیام و استحکام میں مغرب کا عمومی طور پر اور امریکہ اور انگلینڈ کا خصوصی طور پر بنیادی کردار رہا ہے۔ موجودہ سعودی عرب کے دو اہم خطوں ارضِ نجد اور ارضِ حجازمیں اسلامی فکر کی تعبیر و تشریح میں بہت زیادہ فکری بُعد تھا۔نجد کا علاقہ امام محمد بن عبد الوہاب کے افکار کے زیرِ اثر تھا جبکہ ارضِ حجاز میں سوادِ اعظم کا رجحان نمایاں تھا۔ جب عرب ممالک میں نئی مملکتیں بنائی گئیں ،اور نئی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی تب سوادِ اعظم سے تعلق رکھنے والے شریف حسین کو مکہ ،مدینہ سے نکال کر سعودی خاندان بر سرِ اقتدار آگیا۔اس خاندان کی بادشاہت کو سب سے پہلے امریکہ اور انگلینڈ نے تسلیم کیا ۔اس ایک بڑی مثال سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس وقت پھر جو نئے سرے سے اکھاڑ پچھاڑ ہونے لگی ہے تو اس کی محرک بھی وہی ’’بادشاہ گر‘‘ قوتیں ہیں جو گزشتہ ایک صدی سے یہ کام کرتی آرہی ہیں۔

سعودی خاندان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ’’شرک کا خاتمہ‘‘ کرنے کے دعووں کے ساتھ وہاں بہت سے ایسے اقدامات کئے گئے جو سوادِ اعظم اور اہلِ تشیع دونوں کی دلآزاری کا باعث تھے۔جیسے جنت البقیع اور جنت المعلیٰ میں قبروں کے تعویز ہٹا کر انہیں بے نام و نشان کردینے کے اقدامات۔۔۔پھر وہاں اپنے مسلک کے پرچار کے ساتھ دوسرے اسلامی مسالک کے لئے راہیں بند کر دی گئیں۔یہ ویسا ہی اقدام تھا جیسا عقیدہ کے طور پر افغانستان میں طالبان نے اختیار کیا تھا۔ اور جو طالبان کی فاش غلطیوں میں سے ایک غلطی تھا۔اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ اب امریکہ کو شمالی اتحاد کے لوگ آسانی سے مل گئے ہیں۔ یہ الگ بات کہ وہ امریکہ کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں یا نہیں۔۔۔اس بات کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہوئے ذرا ان مسائل کو ایک اور زاویی سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر تھوڑا سا پلٹ کر دیکھیں توبیسویں صدی کے آغاز پردنیا بھر میں عالمِ اسلام کے پاس صرف دو تین آزاد ریاستیں تھیں ۔بیسویں کے نصف تک آتے آتے دنیا میں آزاد مسلم ممالک کی تعداد ۵۰ تک پہنچ گئی۔ذرائع وسائل کے لحاظ سے عرب ممالک تو تیل کی دولت سے اتنے مالا مال تھے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی کفالت ہی نہیں کر سکتے تھے بلکہ انہیں اقتصادی طور پر خود کفیل بنا سکتے تھے۔ لیکن کسی نے منظم منصوبہ بندی کے تحت ایسا کچھ نہیں کیا۔بس خیرات کے طور پر ہر آنے والے اور مانگنے والے کو بھر دیا اور لینے والے نے بھی اپنی ذات سے آگے کچھ نہیں دیکھا۔ان کے برعکس امریکہ اور انگلینڈ کی ذہانت دیکھیں کہ انہوں نے نہ صرف ان عرب ممالک کی سیاسی سرپرستی کی بلکہ ان کے سارے تعمیراتی منصوبے بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے،انہیں ہر قسم کی اہم ٹیکنالوجی سے محروم رکھ کر محض اپنا صارف بنائے رکھا۔ ان کی ساری دولت اپنے ملکوں کے بنکوں میں ریزرو کرتے گئے اور اب یہ حالت ہے کہ سردی سے بچنے والے بدو کے اونٹ کی طرح امریکہ اور انگلینڈ پورے عربی خیمے میں گھس گئے ہیں اور عربی بدو اب باہر پڑا ٹھٹھررہا ہے۔

عالمِ اسلام کی مجموعی حالت کا اندازہ کرنے کے لئے اگر سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں(عرب و عجم) کومثالی نمونے مان لیا جائے تو اس سے صورتحال کافی حد تک واضح ہو سکتی ہے۔ان دونوں ملکوں کے معاملات میں زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں صرف سامنے کے دو محکموں کی کار کردگی سے ہی بہت کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔دونوں ملکوں کا ٹریفک کا نظام اور دونوں ملکوں کی پولیس کا نظام۔۔دونوں نظام مل کر نظامِ حکومت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی ٹریفک کا نظام افراتفری اور نفسانفسی کا مظہر ہے جبکہ پولیس کے دو کام ہیں ایک حکمرانوں کے ذاتی اقتدار کا مکمل تحفظ اور دوسرا اپنے ہی عوام کی تذلیل۔۔۔قانون کی حکمرانی کے لمبے چوڑ ے دعوے تو موجود ہیں لیکن عملاًایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

ان کے بر عکس امریکہ اوردوسرے مغربی ممالک میں بھی پولیس اور ٹریفک کے دو محکموں کی کار کردگی سے ہی ان سارے ممالک کی مجموعی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قانون کی خلاف ورزی کوئی بڑے سے بڑا اعلیٰ عہدیدار کرے اسے اسی طرح قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کسی بھی عام شہری کو کرنا پڑتا ہے۔ان ملکوں کی پولیس کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں لیکن ان کی پولیس کا عمومی رویہ قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنا ہی ہے۔اسی لئے کسی بھی عام شہری کو کسی پولیس مین یا ان کے اعلیٰ افسر سے بات کرتے ہوئے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

امریکہ نے تیسری دنیا یا اسلامی دنیا کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے،وہ سب اپنی جگہ لیکن خود اپنے شہریوں کے ساتھ اس کا رویہ ان کی عزت نفس کا احترام کرنے کا ہی نہیں بلکہ ان کی عزت نفس کی حفاظت کرنے کا بھی ہے۔اس ایک بنیادی فرق سے ہی اسلامی ملکوں کے حکمرانوں اور اور مغربی دنیا کے حکمرانوں کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اب صورتحال یوںدکھائی دیتی ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے نقشے کو تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔اس نقشے کی تبدیلی میں اگرچہ ایک بڑا ٹارگٹ تو مکہ ،مدینہ جیسے مقدس ترین مقامات پر قبضہ کرنا ہی ہے لیکن امریکہ کو بخوبی علم ہے کہ ابھی اس کے لئے ایسا کرنا مشکل ،بہت ہی مشکل ہے۔افغانستان اورعراق کی مزاحمتی قوتوں نے امریکہ کو زک پہنچانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے بھی امریکی توجہ اصل اہداف سے دور رہے گی۔تاہم اگر اس مزاحمت کو کمزور کر دیا گیا تو پھر امریکہ اپنے پروگرام کی طرف بڑھنا شروع کر سکتا ہے۔سعودی حکمران چونکہ امام محمد بن عبدالوہاب کی فکر کے ترجمان ہیں ، اس لئے ان کا پتہ کاٹنے کے لئے امریکہ اب لازماََ وہاں سوادِ اعظم سے تعلق رکھنے والوں کو آگے لانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن سوادِ اعظم میں بھی دو بڑے طبقے ہیں۔یوں تو بہت سارے فرقے خود کو حنفی العقیدہ کہتے ہیں اور ان کا کسی نہ کسی رنگ میں امام ابوحنیفہ کے مسلک سے تعلق بھی بنتا ہے تاہم دو بڑے طبقے بریلوی اور دیوبندی مانے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے دیوبندی مسلک کے لوگ حنفی ہوتے ہوئے بد رسومات سے بیزاری کے رویی کے باعث وہابی مسلک سے کافی قریب ہوجاتے ہیں۔ مذہبی طور پر جماعت اسلامی اور اسی انداز کی دوسری اسلامی جماعتیں بھی وہابی مسلک سے فکری طور پر نسبتاََ قریب ہیں۔ ان سارے گروپوں کے گزشتہ تیس چالیس برسوں سے سعودی حکومتوں سے نیازمندانہ مراسم ہیں اور سعودی حکومت کے لئے یہ لوگ ایک حد تک قابلِ قبول رہے ہیں۔ اہلِ تشیع کا معاملہ ایک تیسرے فریق کے طور پر سامنے آتا ہے جو سعودی عرب کے مشرقی منطقہ میں آج بھی عددی اکثریت کے حامل ہیں۔دمام،انخرج ،خطیف اورنجران کے علاقے شیعہ آبادی پر مشتمل ہیں۔عراق اور شام میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہے ۔

اب امریکہ کا ہاتھ پڑتا ہے تو اس کی کوشش یہ رہے گی کہ سوادِ اعظم میں جو طبقے وہابی مسلک سے نسبتاً قریب ہیں انہیں درمیان میں لا کر اپنی مرضی کے ناگوار فیصلے منظور کرائے جائیں ۔اس میں تیل کے پسندیدہ ذخائر تک رسائی سب سے بڑا مقصد رہے گا۔ اسی لئے اب امریکہ ایک طرف پاکستان میں ’’ایم ایم اے‘‘ میں طالبان کے دوست اورسابق سرپرست گروپوں سے لے کر طالبان کے بعض اہم رہنماؤں تک سے اندر خانے بات کر رہا ہے اور اس کے لئے وقتاََ فوقتاََ مختلف دباؤ بھی ڈالتا رہتا ہے تاکہ بات چیت نتیجہ خیز ہو سکے۔تودوسری طرف ایسا کچھ نہ ہونے کی صورت میں سعودی عرب کا نقشہ تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔عرب دنیا کا نقشہ بدلنے کا عمومی تہیہ کر لیا گیا ہے جس میں عراق کے حصے بخرے کرنے کے ساتھ بعض خلیجی ریاستوں کی توڑ پھوڑ بھی شامل ہے۔تاہم ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک اقدام اس سرزمین کی توڑ پھوڑ ہو گا جو مکہ ،مدینہ جیسے مقدس ترین مقامات کی سر زمین سعودی عرب ہے۔کیونکہ مکہ،مدینہ کے بارے میں اسرائیلی عزائم اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔

امریکہ نے تھوڑا سا بتا کر اور تھوڑا سا چھپا کر اپنے ان عزائم کو ظاہر کر دیا ہے۔بلکہ ’’چھپانے اور بتانے ‘‘کے ایسے عمل کے دوران سعودی عرب کے تین چار حصوں میں ایسی تقسیم کی بات کی جا چکی ہے۔ایک حصہ مکہ اور مدینہ کے لگ بھگ پانچ سو کلو میٹر رقبہ پر مشتمل کرکے سوادِ اعظم کے سپرد کر دیا جائے ،ایک حصہ جو شیعہ اکثریتی علاقہ ہے وہاں شیعہ عوام کو ’آزادی‘ دلا دی جائے۔ جبکہ نجد کا پرانا علاقہ یا تو موجودہ سعودی خاندان کے بعض شہزادوں کو دے دیا جائے یا وہاں بھی اپنی مرضی کے لوگ لا ئے جائیں ۔اس تقسیم میں ابھی مزید ردو بدل ہو سکتا ہے۔ اس سارے کھیل میں سب سے حساس معاملہ مکہ،مدینہ کے مقدس مقامات کی عزت اور سلامتی کا ہے۔ان کو چھیڑنے سے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر سوادِ اعظم کے ’’وہابی مخالف‘‘طبقات کو یہاں آگے لایا گیا تو اس طرح ممکن ہے کہ عالمی سطح پر مسلمان کوئی بڑا احتجاج نہ کر پائیں۔کیونکہ ایسی صورت میں پہلے منظم طور پر سعودی حکمرانوں کی ’’شرک ‘‘کے خلاف ان کاروائیوں کو مشتہر کیا جائے گا جو گزشتہ پون صدی سے وہاں جاری و ساری ہیں(اور جن میں سے بعض بلاشبہ بہت تکلیف دہ بھی ہیں)ایسی صورت میں سعودی خاندان کو ہٹانے کا امریکی کھیل عراق کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔یہ جو اَب مکہ، ریاض،جدہ اوردوسری سعودی شہروں میں بم دھماکوں کی کاروائیاں شروع ہوئی ہیں،انہیں لاکھ القاعدہ یا دہشت گردوں کے کسی گروہ سے جوڑا جائے،بے شک اس میں مقامی لوگ ہی شامل ہوں لیکن ان کے پسِ پشت لازمی طور پر امریکہ موجودہے۔وہی یہ کاروائیاں کروا رہا ہے۔یہ سعودی عرب کے نقشہ میں تبدیلیوں کے لئے کی جانے والی سازشوں کی ابتدائی کاروائی ہے۔۔۔مستقبل قریب میں مزید اور مختلف قسم کے اقدامات سامنے آسکتے ہیں ۔منصوبہ بندی میں بعض تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔

گزشتہ نصف صدی سائنسی ایجادات و انکشافات کا حیرت انگیز دورانیہ تھا۔معلوم انسانی تاریخ میں اتنی برق رفتار اور حیران کن ترقیات ہوئیں ۔ اسی عرصہ میں ۵۰ سے زائد مسلمان ملک آزاد ہو چکے تھے۔لیکن ہمارے حکمرانوں نے گزشتہ نصف صدی سے اپنی قوم ا ور اپنے ملک کی ترقی کے لئے عمومی طور پر بھی کچھ نہیں کیا چہ جائیکہ جدید علوم کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت کی ہوتی۔ مسلم ممالک میں کوئی ٹھوس اور موثر ربط باہم نہیں رہا۔ تمام مسلم ممالک میں کوئی اتحاد اور دوستی تو کیا ہو پاتی،الٹا انتشار و افتراق کے کئی مناظر دیکھنے میں آتے رہے۔اور اب شاید ان سارے نصف صدی کے گناہوں کی قیمت ادا کرنے کا وقت قریب آگیا ہے۔امریکہ یا اسرائیل وہی کچھ کر رہے ہیں جو ان کی کتابوں میں ان کے لئے خوشخبریاں درج ہیں اور وہی کچھ کر رہے ہیں جو ان کے قومی مفاد کے مطابق ہے۔۵۰ سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے تو نصف صدی سے زائد عرصہ تک اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں۔انہوں نے تو یہی دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اگر یہودیوں کی کتابوں میں لکھی باتیں ان کے لئے آج پوری ہو رہی ہیں تو ہم اتنا ہی دیکھ لیتے ہیں کہ ہمارے لئے ہماری کتابوں میں کوئی خاص انتباہ تو درج نہیں ہیں،تاکہ ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کر لیں۔ قرآن مجید سے لے کر احادیث مبارکہ تک اور بعد کی بعض کتب میں بھی ایسے انتباہ اور انذاردرج تھے لیکن سب نے ان سے اغماض برتا اور اب تو شاید یومِ حساب قریب آگیا ہے۔ امریکی صدر بُش اگلا الیکشن ہار جائیں تب بھی امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں ۔اس لئے صدر بُش کی شکست کی امید پر خوش ہونے سے زیادہ اپنے آنے والے دنوں کی فکر کرنا زیادہ بہتر ہے۔

عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک پر ابھی بہت کڑے وقت آنے والے ہیں۔اگرچہ اب کافی تاخیر ہو چکی ہے تاہم اپنی اجتماعی غلطیوں اور گناہوں کا احساس کرکے ان کی معافی خدا سے تو مانگی جا سکتی ہے۔

مجھ کو معلوم  ہیں پیرانِ حرم کے انداز

ہو نہ ا خلاص تو دعویٰ نظر لاف و گزاف

اور یہ اہلِ کلیسا  کا  نظامِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

اس کی  تقدیر میں محکومی  و محرومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے ۔انصاف

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

(علامہ اقبال )


***

ڈاؤن لوڈ کریں 

  ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول