صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


منٹو شناسی اور  شکیل الرحمٰن 

شکیل الرّحمن

ترتیب: کوثر مظہری

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پروفیسر افتخار اجمل شاہین

سعادت حسن منٹو جو ادبی دنیا میں  منٹو کے  نام سے  زیادہ مشہور ہیں  ان کا شمار اردو کے  اہم  اور  منفرد افسانہ نگاروں میں  ہوتا ہے۔ ابتدا میں  ان کی وابستگی ترقی پسند تحریک سے  رہی پھر وہ افسانہ نگاروں  کے  اس گروہ میں  شامل ہو گئے  جو عورت  اور  جنس کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنانا چاہتے  تھے۔ اس میدان میں  منٹو کو امتیازی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ایک عرصے  تک ان کو صرف فحش افسانہ نگار سمجھا جاتا رہا بلکہ فحش نگاری کے  الزام میں  ان پر مقدمہ بھی چلا مگر بعد میں  لوگوں  نے  ان کے  فن پر توجہ دی  اور  منٹو کی حقیقت پسندی کا اعتراف کیا گیا۔ اس طرح منٹو کو پسندیدگی کی نظروں  سے  دیکھا جانے  لگا  اور  آج ان کا شمار  اردو کے  ممتاز  اور  عظیم افسانہ نگاروں  میں  ہوتا ہے۔

فحش نگاری کے  سلسلے  میں  ان کے  افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘ ’ کی اشاعت پر ان پر مقدمہ چلا۔ منٹو کو تین ماہ قیدِ  اور  تین سو روپے  جرمانے  کی سزا سنائی گئی۔ مولانا اختر علی نے  اس سلسلے  میں  کہا ’’نہیں  نہیں  اب ایسا ادب پاکستان میں  نہیں  چلے  گا‘ ‘  مگر منٹو ایک فنکار تھا  اور  سچا فنکار۔ وہ اپنے  طور پر وضاحتیں  پیش کرتا رہا۔ اس نے  کہا:

 ’’میں  آرٹسٹ ہوں۔ اوچھے  زخم  اور  بھدّے  گھاؤ مجھے  پسند ہیں۔

.... .... ..

 ’’میں  تحریر و تصنیف کے  جملہ آداب سے  واقف ہوں، میرے  قلم سے      بے  ادبی شاذ و نادر ہی ہو سکتی ہے، میں  فحش نگار نہیں  افسانہ نگار ہوں۔

.... .... ..

 ’’میں  تختۂ سیاہ پر کالی چاک سے  نہیں  لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں  کہ تختۂ سیاہ کی سیاہی  اور  زیادہ نمایاں  ہو جائے۔‘‘  

.... .... ..

 ’’ہر شہر میں  بدرئیں اور موریاں  موجود ہیں  جو شہر کی گندگی باہر لے  جاتی ہیں۔ ہم  اگر  اپنے  مرمریں  غسل خانوں  کی بات کر سکتے  ہیں۔  اگر  ہم صابن  اور  لیونڈر کا ذکر کر سکتے  ہیں  تو ان موریوں اور بدرؤں  کا ذکر کیونکر نہیں  کر سکتے  جو ہمارے  بدن کا میل پیتی ہیں۔‘ ‘  

 ’’تحریر و تقریر میں  شعر و شاعری میں، سبک سازی و صنم تراشی میں  فحاشی تلاش کر نے  کے  لیے  سب سے  پہلے  اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیے۔  اگر  یہ ترغیب موجود ہے۔  اگر  اس کی نیت کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے  تو وہ تحریر و تقریر وہ شعر وہ بت قطعی طور پر فحش ہے۔‘ ‘  

اس سلسلے  میں  ممتاز شیریں  کا کہنا ہے  کہ:

 ’’ٹھنڈا گوشت ایک ایسا افسانہ ہے  جسے  ہم منٹو کے  فن کے  مکمل نمونے  کے  طور پر لے  سکتے  ہیں۔ منٹو کے  اسلوب میں  غضب کی چستی ہے۔ ٹھنڈا گوشت اتنا گٹھا ہوا، چست  اور  مکمل افسانہ ہے  کہ اس میں  ایک لفظ بھی گھٹایا بڑھایا نہیں  جا سکتا۔‘ ‘  

میں  اس تمہید کے  بعد ڈاکٹر شکیل الرحمن کی تصنیف منٹو شناسی کے  حوالے  سے  بات کرنا چاہتا ہوں۔ شکیل الرحمن نے  بہت ماہرانہ انداز میں  منٹو کے  فن پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے  پندرہ مشہور افسانوں  کے  تجزئیے  کے  بعد منٹو کو ایک بڑا آرٹسٹ  اور  افسانہ نگار قرار دیا ہے اور منٹو پر جو فحش نگاری کا الزام ہے  اس سے  اسے  باہر نکالنے  کی کوشش کی ہے۔ مناسب ہو گا جس خاص افسانے  کی وجہ سے  منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگا  اور  منٹو پر مقدمہ چلا اس سے  متعلق      ڈاکٹر شکیل الرحمن کی رائے  بھی دیکھتے  چلیں۔ شکیل الرحمن ’’ٹھنڈا گوشت‘ ‘  کا تجزیہ کرتے  ہوئے      کہتے  ہیں:

 ’’سعادت حسن منٹو اردو فکشن کے  سب سے  بڑے  المیہ نگار  اور  المیہ کرداروں  کے  خالق ہیں، ان کی تمام اہم نمائندہ کہانیوں  میں  زندگی کا المیہ ہی کسی نہ کسی طرح پیش ہوا ہے۔ ان کے  موضوعات  اور  کردار المیات کے  اندر سے  ابھرتے  ہیں، ٹھنڈا گوشت بھی ایک المیہ افسانہ ہے  کہ جو تقسیم ہند  اور  فرقہ وارانہ فسادات کے  پس منظر میں  سامنے  آیا ہے۔ اس کے  دونوں  کردار ایشر سنگھ  اور  کلونت کور آخری لمس تک المیہ کردار بن جاتے  ہیں۔ کردار خود سے  آگاہ ہوں  یا ہم ان کرداروں  سے  آگاہ ہوں  کہ جو خود آگاہ نہیں  ہیں  متحرک ہونے  کے  باوجود کسی قسم کی خود آگاہی (Self Awareness) پیدا ہی نہیں  ہوئی ہے۔ دونوں  صورتوں  میں  المیہ کے  تئیں  بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ المیہ کا اپنا جادو ہوتا ہے  جو سعادت حسن منٹو کے  فکشن میں  موجود ہے۔‘ ‘  

ڈاکٹر شکیل الرحمن نے  ’منٹو شناسی‘  میں  بیشتر ان افسانوں  کا تجزیہ کیا ہے  جن کا شمار منٹو کے  جنسی افسانوں میں  ہوتا ہے۔ ورنہ منٹو نے  کئی سو افسانے  لکھے  ہیں  مگر دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے  کہ ان کا ہر افسانہ شاہکار نہیں  ہے۔ منٹو کے  افسانوں میں  بہت سے  سیاسی  اور  سماجی افسانے  بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے  میں  ان کا افسانہ ’نیا قانون‘  خصوصی اہمیت کا  حامل ہے  جو جدوجہد آزادی کے  پس منظر میں  لکھا گیا ہے اور اس میں  اس کے  مرکزی کردار ’مٹکو‘  کے  ذریعے  انگریزوں  کے  خلاف جو جملے  کہلوائے  گئے  ہیں اور انگریزوں  کے  خلاف جس حقارت کا اظہار کیا گیا ہے  اس پر بھی منٹو پر مقدمہ چل سکتا تھا  اور  اس پر تو منٹو کو  اور  بھی بڑی  اور  کڑی سزا مل سکتی تھی۔ مجھے  تو حیرت ہے  کہ انگریز سرکار کی اس طرف کیوں  نظر نہیں  گئی یا قصداً اس بات سے  چشم پوشی کی گئی۔ اس افسانے  میں  جو مواد ہے  وہ انگریزوں کے  خلاف ایک طرح سے  زہریلا مواد ہے۔  اگر چہ آزادی کی طلب برصغیر کے  لوگوں  کا حق تھا مگر جدوجہد آزادی کو  انگریز بزور طاقت دبا رہے  تھے اور اپنے  خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہیں  کرتے  تھے  مگر مقدمہ چلا تو منٹو پر فحاشی کا مقدمہ۔  اگر چہ منٹو فحش نگار نہیں  تھا بلکہ حقیقت نگار تھا۔ ’’منٹو شناسی‘ ‘  میں  ڈاکٹر شکیل الرحمن نے  منٹو کے  ۱۵ افسانوں  کا تجزیہ کیا ہے  جن میں  ٹوبہ ٹیک سنگھ ’بابو گوپی ناتھ‘ ، ’بو‘ ، ’ہتک‘ ، ’ممّی‘ ، ’سرکنڈوں  کے  پیچھے ‘ ، ’موذیل‘ ، ’خوشیا‘ ، ’سہائے ‘ ، کھول دو‘ ، ’شاردا‘ ،             ’شاہ دولے  کا چوہا‘ ، ٹھنڈا گوشت‘ ، ’سرمہ‘   اور  ’’ممد بھائی‘  شامل ہیں۔

 ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ‘  

’منٹو شناسی ‘  میں  پہلا تجزیہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘  کا ملتا ہے۔ اس افسانے  کا مزاج دیگر افسانوں  سے  بالکل مختلف ہے  گرچہ یہ بھی تقسیم ہند کے  سلسلے  میں  وجود میں  آیا ہے اور اس افسانے  کا شمار منٹو کے  شاہکار افسانوں  میں  ہوتا ہے۔ یہاں  اس بات کی وضاحت کرنا  ضروری سمجھتا ہوں  کہ شکیل الرحمن کسی افسانے  کا تجزیہ کر نے  سے  پہلے  اس سلسلے  کی کوئی تمثیل، حکایت، روایت یا Parable پیش کرتے  ہیں  جس سے  نہ صرف یہ کہ ان کا تجزیہ عمدہ ہو جاتا بلکہ پر اثر بھی ہو جاتا ہے۔ اس سے  ان کے  تجزیوں  میں  جان پڑ جاتی ہے۔ وہ اس تمثیل کے  ذریعے  اپنی بات آگے  بڑھاتے  ہیں۔ مثلاً ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘  کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

 ’’وہ گڈریا یاد ہو گا جس کی کہانی حضرت عیسیٰ نے  سنائی تھی۔ کہانی یہ تھی کہ ایک گڈریا اپنی بہت سی بھیڑوں  کو لے  کر جنگل میں  گیا ہوا تھا۔ شام کو جب واپس آیا تو دیکھا وہ کمزور بھیڑ کہ جس کے  جسم پر بال بہت کم رہ گئے  تھے  جسے  گھر والے  پسند نہیں  کرتے  تھے اور جسے  وہ بہت عزیز رکھتا تھا موجود نہیں  ہے۔ وہ واپس جنگل کو گیا  اور  رات بھر اپنی بھیڑ تلاش کرتا رہا۔ صبح ہو گئی بھیڑ نہیں  ملی۔۔۔  دوسرے  دن اس کی نظر اپنی گمشدہ بھیڑ پر پڑی، وہ بھیڑ نڈھال سی تھی اسے  اٹھایا  اور  اپنے  کاندھوں  پر رکھ لیا  اور  گھر کی جانب دوڑا۔۔۔  راستے  میں  حضرت عیسیٰ ملے، پوچھا بات کیا ہے  تم اس طرح بھیڑ کو کندھوں  پر اٹھائے  تیز تیز جا رہے  ہو؟‘ ‘  گڈریئے  نے  ماجرا سنا دیا کیا یہ بھیڑ بیمار ہے  گھر والے  اسے  پسند نہیں  کرتے  لیکن اپنے  گھر والوں  کو آج اس کی حالت دکھا کر رہوں  گا۔ گڈریا دوڑتا ہوا چلا گیا۔ حضرت عیسیٰ نے  اپنے  ساتھی کی جانب دیکھا۔ کہا غور کیا تم نے۔ اس گڈرئیے  کی آنکھوں  میں  کیسی چمک تھی۔ کیسی روشنی تھی۔۔۔  یہ کیسی دھن ہے  میں  نے  اسے  غور سے  دیکھا تو لگا اس کا سر آسمان تک پہنچنے  والا ہے۔‘ ‘  اس کے  بعد شکیل الرحمن اس حوالے   سے  اپنی بات کرتے  ہیں۔ ’’سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کو پڑھتے  ہوئے  کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے  جیسے  منٹو وہی گڈریا ہوں۔ بہت سی بھیڑوں  کو جنگل میں  چھوڑ کر کسی کمزور، بہت کم بال والی، بیمار نا پسندیدہ، اندر باہر سے  بے  چین بھیڑ کو اپنے  کندھوں  پر اٹھائے  دوڑے  چلے  آ رہے  ہیں۔۔۔  وہ روشنی  اور  چمک جسے  حضرت عیسیٰ نے  اس گڈریا کی آنکھوں  میں  دیکھا تھا ہم بھی منٹو کی آنکھوں  میں  دیکھتے  ہیں۔‘ ‘  دیکھئے  کتنے  حسین  اور  پر اثر انداز میں  شکیل الرحمن اپنی بات کہہ گئے۔ منٹو کا ایک فنکار  اور  ادیب کی حیثیت سے  اتنا خوبصورت تعارف بہت کم لوگ پیش کر سکے  ہیں۔ یہ ہنر تو صرف شکیل الرحمن کو آتا ہے اور اس طرح کا تعارف  اور  تقابل وہ ہر افسانے  کے  آغاز  میں  کسی تمثیل کے  ذریعے  کرتے  ہیں۔ گڈرئیے  کی مثال پیش کر کے  نے  نہ صرف اس کہانی کی بات کی ہے  بلکہ دوسری کہانیوں  کا ذکر بھی اسی حوالے  سے  کرتے  ہیں۔ وہ کہتے  ہیں  کہ سعادت حسن منٹو کے  کندھے  پر کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہوتا ہے اور کبھی ایشر سنگھ، کبھی منگلو کو چوان، کبھی بابو گوپی ناتھ کبھی سلطانہ، کبھی خوشیا، کبھی رندھیر، کبھی ہیبت خاں، اس طرح شکیل الرحمن نے  منٹو کا تعارف نہایت فنکارانہ موثر  اور  دلنشیں  انداز میں  کرا دیا ہے۔ ایسا فن  اور  یہ انداز انھیں  کو آتا ہے۔

کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی کے  شاہکار کے  شاہکار افسانوں  کا ذکر کر کے  شکیل الرحمن کہتے  ہیں  کہ ان کے  افسانے  کبھی کچھ گہرائیوں  میں  لے  جاتے  ہیں اور کبھی سطح پر رکھتے  ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے  افسانے اور کردار عموماً ندی کی بہت گہرائیوں  میں  ہوتے  ہیں  کہ جہاں  اندھیرا ہے۔ اندھیرے  یا گہرائی سے  یہ کہانیاں  باہر آتی ہیں۔ منٹو کی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘  کے  بارے  میں  کہتے  ہیں  کہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘  بھی تقسیم ہند کے  طوفان کے  پس منظر میں  ابھری ہوئی ایک کہانی ہے  جو اردو ادب کی بہترین کہانیوں  میں  ممتاز درجہ رکھتی ہے اور بقول ان کے  ’’یہ قصہ تمثیل کا حسن لیے  ہوئے  ہے۔ تمثیل کے  جوہر نے  اس کہانی کو ڈرامہ بنا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے  نا کہ بڑا فن ڈرامہ ہی ہوتا ہے۔ یہ کہانی بھی ڈرامہ بن گئی ہے۔‘ ‘  اس کہانی کا جس قدر عمدہ تجزیہ شکیل الرحمن نے  کیا ہے  اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ایک ایک کردار کے  حوالے  سے  حقیقت  اور  صورتِ حال کو واضح کر نے  کی عمدہ کوشش ملتی ہے۔ آخر میں  وہ اس افسانے  سے  متعلق یہ فیصلہ صادر کرتے  ہیں  کہ ’’یہ ایک تخلیقی فن کار کا ایک بڑا تخلیقی کارنامہ ہے‘ ‘  


نا مکمل

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول