صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


منٹو کا فن

سید وقار عظیم

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

اقتباس

منٹو کو اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور بین و دور رس نگاہ، اس کی جرا_¿ت آمیز اور بے باکانہ حق گوئی، سیاست، معاشرت اور مذہب کے اجارہ داروں   پر اس کی تلخ لیکن مصلحانہ طنز اور اس کی مزے دار فقرہ باز یوں   کی وجہ سے سراہا گیا ہے۔ اور سیاسی، مذہبی معاشرتی اور ان سب سے بڑھ کر جنسی زندگی پر اس نے مخصوص اور منفرد انداز سے نظر ڈالی ہے اس پر اسے مطعون کیا گیا ہے۔ اور اس داد تحسین اور ہجو و تضحیک میں   لوگوں   کا جو رویہ رہا ہے اس میں   حق پسندی اور توازن بھی ہے۔ لیکن اس سے کہیں   زیادہ افراط و تفریط کا جذبہ غالب آتا ہے۔ تنقید و تبصرہ کے اس سارے کھیل میں  جو برسوں   سے منٹو کی زندگی اور اس کے افسانوں   کے محور پر کھیلا جا رہا ہے، منٹو ایک مثالی ہیرو بھی نظر آتا ہے اور مثالی ولن بھی۔ کچھ نظریں   اس بات کی عادی ہو گئی ہیں   کہ اسے بس حسن کا مجسمہ سمجھ کر دیکھیں   اور کچھ نگاہوں   کو اس میں  برائیوں   کے سوا کچھ دکھائی نہیں   دیتا۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں   طرح کے دیکھنے والوں   کی جذباتی شدت پسندی نے اصل حقیقت تک پہنچنے اور اس کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے کا موقع نہیں   دیا۔

دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ ’’ محض‘‘ اچھا ہے اور نہ ’’ محض‘‘ برا۔ اس کے افسانے نہ خالصتاً حسن و جمال کے مظاہر ہیں   اور نہ محض برائیوں   کے حامل۔ اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور درس اور دور بین نظر، اس کی جرات آمیز حق گوئی، اس کی تلخ مصلحانہ طنز اور اس کی شگفتہ فقرہ بازی کے اچھے اور برے دونوں   پہلو ہیں  : کبھی بہت برے، کبھی بہت اچھے۔

ان اچھے برے اور کبھی کبھی بہت اچھے اور بہت برے پہلوؤں   کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلے انسان کی نظر ان بے شمار موضوعات پر پڑتی ہے جس تک منٹو کی نظر پہنچی ہے: کلرک، مزدور، طوائف، رند خرابات اور زاہد پاکباز، کشمیریا بمبئی، دہلی، لاہور، فلم اسٹو ڈیو، کالج بازار، گھر ، ہوٹل، چائے خانے، بچے بوڑھے،جوان، عورتیں  ، مرد اور ان سب کی ذہنی الجھنیں   اور ان ساری چیزوں   سے بڑھ کر جنس اور اس کے گو ناگوں   مظاہر منٹو کے موضوعات ہیں ۔

ان موضوعات میں   سے بعض منٹو کو زیادہ عزیز ہیں ۔ بعض کوچوں   میں   پہنچ کر اس پر جو سرشاری طاری ہوتی ہے وہ دوسری جگہ پر نظر نہیں   آتی اور بعض افراد کا ذکر وہ جس ادائے خاص سے کرتا ہے وہ ادا ہر موقع پر نمایا نہیں   ہوتی اور بعض باتیں   کہنے اور بعض رموز آشکارا کرنے میں   اسے جو مزا آتا ہے وہ دوسری باتیں   کہتے اور کرتے وقت شاید محسوس نہیں   ہو تا لیکن ذکر کسی کوچے کا ہو اور کسی بات کا ہو یہ کہیں   نہیں   معلوم ہوتا کہ منٹو اس کوچے کے سارے پیچ و خم، اس شخص کے دل کے سارے بھید اور اس بات کی ساری نزاکتوں   اور لطافتوں   سے واقف نہیں ۔ جہاں   تک ان گو نا گوں   موضوعات کو اپنے افسانوں   میں   جگہ دے کر منٹو نے بہت سوں   کی دل آزاری کی ہے، بہت سوں   کی برائی مول لی ہے اور بہت سوں   کی گالیاں   سنی ہیں  ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے پڑھنے والوں   نے ان ہی گالیوں   کو معیار بنا کر منٹو کے فنی مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے اور یہ بات بہت کم کہی گئی ہے اور اکثر دبی زبان سے کہی گئی ہے کہ افسانہ نگار کی حیثیت سے منٹو کو پہچاننے کے لئے اس کے فن پر سب سے پہلے نظر ڈالنی ضروری ہے اس لئے کہ منٹو کی افسانہ نگاری میں   ان موضوعات کی بھی اہمیت ہے۔ جن کا منٹو نے پوری فنی ذمہ داری سے انتخاب کیا ہے اور اس نقطہ نظر کی بھی اہمیت ہے جو ان موضوعات کے انتخاب کا ذمہ دار ہے۔ لیکن حقیقت میں   جس چیز نے منٹو کو منٹو بنایا، جس چیز نے اسے وہ بڑائی دی جس میں   کوئی دو سرا فسانہ نگار اس کا ہم سر نہیں  ، وہ اس کا فن ہے اور منٹو کی شخصیت اور اس کی افسانہ نگاری کے خواہ کسی پہلو پر کچھ لکھا جائے اس کے فن کا ذکر ناگزیر ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں  : فن کا ذکر نا گزیر ہے تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ منٹو نے جو بے شمار باتیں  اپنے افسانوں   کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں   تک پہنچائی ہیں  ، ان کے اظہار کا اسلوب کیا ہے! اس اسلوب کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں!

لیکن اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے کہ منٹو کی افسانہ نگاری کا فن کیا ہے اور منٹو کے اسلوب فن کی کیا حدیں   ہیں  ، شاید اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جب منٹو کے موضوعات اور اس کے نقطہ نظر سے الگ ہم اس کے فن کا ذکر کرتے ہیں   تو ہمارے ذہن میں   فن کا مفہوم کیا ہوتا ہے! اس ضمن میں   سب سے پہلی چیز جو منطقی طور پر بحث کرنے والے کے سامنے آتی ہے: تکنیک کے مبادیات اور مطالبات ہیں   جو ادب کی ایک صنف اور دوسری صنف میں  مابہ الامتیاز سمجھے جاتے ہیں ۔

داستان، ناول، ڈراما اور افسانہ بنیاد طور پر کہانی ہونے کے باوجود تکنیک کے اصول و قواعد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ اچھا داستان گو، ناول نگار، ڈرامیٹسٹ اور افسانہ نگار.... داستان، ناول، ڈراما یا افسانہ لکھتے وقت ان اصول و قواعد کی پابندی کو اپنا فرض اولین جانتا ہے۔

ایک خاص صنف ادب کے ساتھ اس نے جو رشتہ قائم کیا ہے اس کے خلوص اور صداقت کا تقاضا ہے کہ وہ صنف ادب کے ان امتیازی اصول و قوانین کو پوری طرح برتے۔ ان اصول و قواعد کو جن کا دوسرا نام اس صنف کی تکنیک اس کی روایات یا اس کا فن ہے جاننا، سمجھنا اور ان کا صدق دل سے احترام کرنا اس رشتہ کا پہلا مطالبہ ہے جس کی طرف میں   نے ابھی اشارہ کیا۔ اس لئے کسی فنکار کے فن کا جائزہ لینے کی پہلی منزل ہی یہ دیکھنا ہے کہ اس فنکار نے فن کے ابتدائی مطالبات کو، ان اصول و قوانین کو اس کی روایات کو کس حد تک جانا، سمجھا، محترم جانا اور اپنے فن میں   برتا ہے۔

فنی جائزے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فنکار نے فن کی روایات کی پابندی کرنے کا حق ادا کر کے اپنے خیال اور احساس کو دوسروں   تک پہنچا نے کے کیا کیا وسیلے استعمال کئے ہیں ۔ ان مختلف وسائل کے استعمال میں   فنکار کے تخیل، فکر اور ذہنی کاوش اور انہماک و توجہ کو خاصا دخل ہوتا ہے، اس لئے جو فنکار اپنے فن کو جس حد تک زیادہ عزیز رکھتا ہے اور جس حد تک اسے اس فن سے اپنے رشتہ اور تعلق کا احساس زیادہ گہرا اور شدید ہوتا ہے، اسی حد تک اس کی توجہ، انہماک اور ذہنی کاوشوں   کی بدولت اظہار اور ابلاغ کے اچھے سے اچھے اور نئے سے نئے وسیلے اس کے ہاتھ آتے ہیں ۔

اظہار اور ابلاغ کی یہی منزل ہے جہاں   مصنف کا تخیل اور فکر جو حقیقت میں  اس کی شخصیت کے مختلف اجزاء اور عناصر ہیں  ، اظہار اور ابلاغ کے وسائل میں   نئے نئے رنگ بھرتا ہے۔ یہی رنگ مصنف کے انداز اور اسلوب کی خصوصیت کا مظہر ہے اور اسے اس فنی جائزے کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے جس میں   فنی روایات اور اظہار ابلاغ کے دوسرے وسائل شامل ہیں ۔

فنی جائزہ لیتے وقت اور اس جائزے کی بنا پر فنکار کے فنی مرتبہ کا اندازہ لگاتے وقت چند اور باتیں   بھی ایسی ہیں   جو پیش نظر نہ رکھی جائیں   تو یہ فنی جائزہ ادھورا رہتا ہے:

ان میں   سے ایک بات تو یہ ہے کہ فن کار اپنے انہماک، توجہ اور کاوش سے اظہار کے وسائل میں   جو نئے نئے پہلو پیدا کرتا ہے اور اپنی شخصیت کی قوت اور انفرادیت سے جو رنگ بھرتا ہے، ان پہلوؤں   کا تیکھا پن اور اس رنگ کی شوخی ہمیشہ قائم نہیں   رہتی۔ فن کار کے اعصاب ایک خاص منزل پر پہنچ کراس کی شخصیت کے مختلف عناصر میں   انتشار کا غلبہ ہوتا ہے تو فن کا رنگ بھی پھیکا ہونے لگتا ہے۔یہ باتیں   فنی جائزہ لینے والا نظر انداز نہیں   کر سکتا اس لئے کہ ان حقائق کو پیش نظر رکھے بغیر فنکار کے فن کے ارتقا کا سراغ لگانا ممکن نہیں ۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول