صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سعادت حسن منٹو۔ٹریجڈی کی جمالیات
ڈاکٹر شکیل الرحمن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
ٹریجیڈی کی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ’ادبھت رس‘ اور ’شانت رس‘ کی ہم آہنگی کی ایک عمدہ مثال منٹو کی کہانی ’ہتک‘ میں ملتی ہے۔
’ہتک‘ کو اُردو فکشن میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے، اس کہانی میں مرکزی کردار سوگندھی کے باطن کا درد و کرب ٹریجیڈی اور اس کے جمال کو نمایاں کرتا ہے، منٹو نے اپنی پیاس اپنے باطنی کرب کے ساتھ ہمیں اس طرح دی ہے کہ ہم اپنی پیاس اور اپنے درد کے تئیں زیادہ بیدار اور آگاہ ہو جاتے ہیں۔
’ہتک‘ کی سوگندھی طوائف ہے کہ جس نے زندگی کا رقص دیکھا ہی نہیں، زندگی اس کے لیے کبھی جشن بنی ہوئی ہیں، گاہک آتے ہیں اس کی ہڈیاں اور پسلیاں جھنجھوڑ کر چلے جاتے ہیں، پانچ برسوں سے یہی ہو رہا ہے، دس روپے اس کا عام نرخ ہے جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلالی کے کاٹ لیتا ہے، اسے ساڑھے سات روپے روز مل جاتے ہیں جنھیں سوگندھی اپنی اکیلی جان کے لیے کافی سمجھتی ہے ایک نام نہاد عاشق مادھو پونے سے آ جاتا ہے اور اس پر دھاوا بول کر دس پندرہ روپے وصول کر لیتا ہے۔ سوگندھی کی کھولی میں چار تصویریں فریم میں لگی ہوئی ہیں ان میں ایک مادھو کی بھی ہے۔ اپنی میکانیکی زندگی میں وہ مادھو کو پسند بھی کرتی ہے اس لیے کہ وہ جب بھی آتا ہے اپنی باتوں سے متاثر کر نے کی کوشش کرتا ہے، سوگندھی جانتی ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی اس کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ سپاٹ اور بار بار خود کو دہراتی ہوئی اس زندگی میں چند لمحوں کا یہ گریز اچھا لگتا ہے۔
ایک رات دو بجے جبکہ وہ تھکی ماندی پڑی ہے رام لال دلال آتا ہے، وہ ایک گاہک لے کر آیا ہے جو نیچے اس کا انتظار کر رہا ہے۔ ساڑھے سات روپے کا سودا ہے، یہ سوچ کر کہ وہ یہ روپے اسی عورت کو دے دے گی کہ جس کا خاوند موٹر کے نیچے آ کر مرگیا ہے اور جو اپنی جوان لڑکی کے ساتھ وطن جانا چاہتی ہے۔ وہ رام لال کے ساتھ نیچے آتی ہے، جب گاہک ٹارچ جلا کر اسے دیکھتا ہے تو سوگندھی اس کے منہ سے صرف یہ سنتی ہے ’ہونہہ‘ گاہک اپنی کار پر اسی طرح بیٹھا چلا جاتا ہے۔
یہ لفظ ’اونہہ‘ اس کے کانوں میں بھنبھنانے لگتا ہے۔
اس نے اسے پسند نہیں کیا، تلملا جاتی ہے، اس کا ردِّ عمل کئی صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ چونکہ اس ’اونہہ‘ سے اس کا پورا وجود اس کی نفسیات اس کے احساسات اور جذبات سب میں ہلچل سی آ جاتی ہے اس لیے ہم کئی سطحوں پر اس کے نفسیاتی ردِّ عمل کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ سیٹھ سے انتقام لینے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے لیکن یہ المیہ کردار مجبور ہے۔ ایک ایک کر کے چاروں تصویروں کو توڑتی ہے اور مادھو کے سامنے اس تصویر کو بھی جو مادھو کی ہے، مادھو کو لتاڑتی ہے، مادھو کے جملوں کو دُہرا کر اسے ذلیل کرتی ہے اور اسے نکال دیتی ہے پھر ایک سنّاٹا سا چھا جاتا ہے ایسا سناٹا اس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا، اس المیہ کردار کو محسوس ہوتا ہے جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافر اُتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے!
یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہو گیا ہے اسے بہت تکلیف اور اذیت دے رہا ہے بہت دیر تک بید کی کرسی پر بیٹھی رہتی ہے پھر اُٹھ کر اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں لیے پلنگ پر آتی ہے اور اسے پہلو میں لٹا کر سوجاتی ہے۔
منٹو نے سوگندھی کی زندگی کی پیاس ہمیں دے دی ہے، قاری کے درد کو اور بڑھا دیا ہے۔ ’ادبھت رس‘ اور ’شانت رس‘ کی ہم آہنگی کی ایک ایسی تصویر اُبھرتی ہے جو ٹریجیڈی کے ارتعاشات (Vibrations) لیے قاری کے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے معلّم جمالیات بھرت نے جن بھوؤں (Bhavas) کا ذکر کیا ہے ان میں ’ویسمیں بھاؤ‘ (Vismay Bhava) کی بڑی اہمیت ہے۔ اس بنیادی احساس میں حیرت اور تحیّر کے ساتھ باطن کی کپکی (trembling) کا ذکر ہے۔ کہانی کے آخر میں خاموشی اور سنّاٹے کا جو احساس پیدا کیا گیا ہے اس سے شانت رس کی پہچان ہوتی ہے، قاری ٹریجیڈی سے بھی متاثر ہوتا ہے ساتھ ہی اسے میلوڈی آف پیتھوس (melody of pathos) کے ارتعاشات بھی ملنے لگتے ہیں۔
’ہتک‘ کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ اس میں ماحول اور فرد کے تجربوں کی وجہ سے بڑے عمدہ آہنگ پیدا ہو گئے ہیں، نفسیات کی مختلف سطحوں نے ان خوبصورت آہنگ کو اور محسوس بنا دیا ہے سوگندھی زندگی کے المیہ کا خود جواب بن گئی ہے اور اس طرح المیہ اور گہرائی میں اُتر نے لگا ہے۔ اس گہرائی میں تشنگی کا اور احساس ہوتا ہے درد اور بڑھا محسوس ہوتا ہے اندر بڑی گہرائیوں میں ٹریجیڈی کی تاریکی میں سوگندھی کا وہ اضطراب ہے جو پیاس اور درد کی شدت کا نتیجہ ہے۔
اس افسانے کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ جہنم میں رہتے ہوئے بھی سوگندھی دل کی گہرائیوں میں محبت اور انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کا چراغ روشن کیے ہوئی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے دکھاوا نہیں ہے۔ اس کے چہرے پر کوئی ماسک نہیں ہے۔ زندگی میں خلا ہے زندگی کھوکھلی ہے، زندگی کا رس نہیں ملا ہے بڑی تشنگی ہے، درد بار بار بڑھتا ہے، زندگی کا سفر اذیت ناک بنتا رہتا ہے لیکن وہ زندہ ہے، جس رنگ میں رنگ گئی ہے اس رنگ کے ساتھ۔۔۔ یہ اس ٹریجیڈی کا حسن ہے جس سے نفسیاتی سکون ملتا ہے۔
ٹریجیڈی کا جواب کبھی اس طرح ملتا ہے کہ فریب کھاتے ہوئے لذت ملتی ہے کبھی اس طرح کہ مردوں کے اندر جذب ہونا چاہتی ہے خود مردوں کو پگھلا کر اپنے اندر جذب کر لینا چاہتی ہے، کبھی حسن کے احساس کو بڑھا کر اور کبھی ان مردوں کی تصویریں توڑ کر کہ جن سے وہ جذباتی طور پر وابستہ رہی ہے، کبھی تیر کھائے زخمی پرندے کی طرح تڑپ کر کبھی انتقام کے جذبۂ آتش کو روشن کر کے، یہ سب پہلو یہ حیثیتیں اس کردار کے جلوے ہیں ان سے افسانے کی تخلیقی سطح بلند ہو جاتی ہے۔
ایک ’ہونہہ‘ سے کہانی کی ٹریجیڈی کی شدت حد درجہ بڑھ جاتی ہے، فنکار مسلسل اپنی اور اپنے المیہ کردار کی تشنگی دیتا جاتا ہے، درد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، المیہ کردار میں انانیت سر اٹھاتی ہے اور لہرانے لگتی ہے، تیز جذباتی، آتشیں اٹھان ہے جو ذات پر پڑی چوٹ کے شدید ردِّ عمل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ’اونہہ‘ کا تیر کلیجے میں پیوست ہے اور یہ اسی کا ردِّ عمل ہے لیکن یہ جذباتی آتشیں اٹھان کمزوری او مجبوری کو چھپا نہیں سکتی، المیہ کردار کا یہ نصیب ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی لہراتی ہوئی انانیت کے ساتھ اٹھے اور پھر ڈھیر ہو جائے۔ تخیل میں مخالف کردار کے پیکر مختلف صورتوں میں تشکیل دے، تصادم اور کشمکش کی ایک فضا بن جائے، تحت الشعور اور لاشعور تک بات پہنچ جائے لیکن شکست اور زوال اس کا نصیب بن جائے۔
منٹو نے سوگندھی کے ذہنی کرب اور ذہنی اور جذباتی تصادم کی عمدہ تصویریں پیش کی ہیں۔ المیہ کردار کی کمزوری اور مجبوری کو بھی نمایاں کیا ہے، لہراتی ہوئی انانیت کا نقش بھی اُبھارا ہے اور زوال اور شکست اور احساس شکست کے نقوش بھی اُجاگر کیے ہیں۔ اس المیہ کردار نے تخیل میں وحشی بِلی بن کر اندھا دھند اپنے پنجوں سے اس شخص کا منہ نوچنا شروع کر دیا ہے کہ جس کے ایک ’ہونہہ‘ سے وہ تلملا گئی تھی لیکن تھک جاتی ہے، مجبور اور کمزور جو ہے، کردار کی شکست جو ہوتی ہے اس لیے کہ سچائی کچھ اور ہے۔
اس کی سائیکی، المناک تجربے کا جواب دیتی ہے۔
اس کا نفسیاتی ردِّ عمل توجہ طلب ہے۔
آخر میں سوگندھی اپنے خارش زدہ کتّے کو گود میں اٹھاتی ہے اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر پہلو میں لٹا کر سوجاتی ہے۔
محسوس ہوتا ہے جیسے یہ المیہ کردار سبز طوطے کی طرح پنجرے میں بند ہو گیا ہے اپنی گردن بالوں میں چھپائے ہوئے۔۔۔ اور ہمیں آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اچانک لگتا ہے جیسے سوگندھی کی جو آواز گونج رہی تھی اس کی بازگشت تو موجود ہے لیکن آواز نہیں ہے Soundess sound کا عجیب پُر اسرار معنی خیز تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جس کی وضاحت آسان نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭