صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


آخری منصوبہ

محمد عادل منہاج

جاسوسی ناول

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

(۱)


چھوٹے قد کا وہ آدمی ایک لمبی سی کار سے اترا ۔ سامنے ایک عظیم الشان بلڈنگ تھی جس کی سب سے اونچی منزل کو دیکھنے کے لیے اگر سر اوپر اٹھایا جائے تو شاید آدمی پیچھے گر پڑے مگر ا س شخص کو بلڈنگ کی اونچائی سے کوئی سروکار نہ تھا ۔ وہ تو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آٹومیٹک دروازے سے اندر داخل ہو گیا ۔ لفٹ میں داخل ہو کر اس نے ۸۵ ویں منزل کا بٹن دبایا اور سبک رفتار لفٹ تیزی سے اوپر چڑھنے لگی۔۸۵ ویں منزل پر اتر کر وہ راہداری میں آگے بڑھتا گیا اور کمرہ نمبر ۴۲۰ کے دروازے پر رکا ۔ ا سنے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر کارڈ مشین میں لگایا تو دروازہ کھل گیا ۔ اندر ایک لمبی چوڑی میز کے پیچھے بیٹھا ہوا  چالاک قسم کا ادھیڑ عمر آدمی اسے دیکھ کر چونک اٹھا۔
’تم اس وقت۔۔۔!‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’جی سر ۔ میں نے ایک ایسا منصوبہ ترتیب دیا کہ پھر خود پر قابو نہ رکھ سکا اور فورا آپ کے پاس دوڑا آیا۔‘ پستہ قد والا بولا۔
’ایسی بھی کیا خاص بات ہے اس میں ۔‘ چالاک شخص عام سے لہجے میں بولا۔
’سر آپ خود پڑھ کر دیکھ لیں ۔یہ برسوں پر محیط ایک ایسا منصوبہ ہے کہ اگر اس پر پوری طرح عمل ہو گیا تو پھر اس کے بعد ہمیں دنیا پر قبضہ کرنے کے لیے پھر کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا۔‘پستہ قد والے نے کہا۔
’تم تو بہت بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہو۔ لاؤ دکھاؤ ذرا اپنا منصوبہ۔‘
پستہ قد والے نے اپنے ہینڈ بیگ سے کاغذوں کا موٹا سا پلندہ نکالا اور اس کے حوالے کیا۔ چالاک شخص نے سرسری انداز میں اسے پڑھنا شروع کیا مگر چند صفحات پڑھنے کے بعد وہ چونکا اور پھر غور سے پڑھنے لگا۔ پستہ قد والا اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اب چالاک شخص کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہو چکے تھے ۔وہ منصوبہ پڑھنے میں یوں مگن تھا کہ اسے اب کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ۔ پھر کئی گھنٹوں بعد اس نے وہ مسودہ میز پر رکھا ۔اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے ۔
’یو۔۔۔۔۔ یو آر جینیئس۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا منصوبہ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔‘ چالاک شخص بولا۔
’تھینک یو سر۔ مجھے امید ہے کہ اس بار مجھے میری امیدوں سے بڑھ کر معاوضہ ملے گا۔‘
’ہاں ہاں یقینا~۔۔۔۔۔یوں بھی ا س منصوبے کے بعد ہمیں مزید کوئی پروگرام بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔مگر۔۔۔۔تم جانتے ہو کے اس منصوبے میں سب سے بڑی شرط راز داری ہے ۔ہمیں ساری دنیا کو بے وقوف بنانا ہو گا۔ اگر کسی کو ذرا بھی بھنک پڑ گئی کہ یہ ہمارا بنایا ہوا منصوبہ ہے تو ساری دنیا ہمارے خلاف ہو جائے گی۔‘
’یہ تو ہے سر۔ ہمیں اس سارے معاملے کو راز میں رکھنا ہو گا۔ آخر کئی حکومتیں اس منصوبے کی لپیٹ میں آ جائیں گی۔اور۔۔۔۔اور یہ عظیم بلڈنگ بھی تو اس منصوبے میں استعمال ہو جائے گی۔‘ وہ مسکرایا۔
’ہاں ۔ اور اس معاملے کو راز میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کم سے کم لوگ اس سے واقف ہوں ۔اس لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس منصوبے کی خاطر تمہیں بھی قربانی دینا ہو گی۔‘ اچانک چالاک شخص کا لہجہ بدل گیا۔
’قربانی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب !؟‘ پستہ قد والا چونک اٹھا۔
’اپنی قربانی۔۔۔۔ تم اس منصوبے کی خاطر قربان ہو جاؤ یوں بھی اس منصوبے کی تکمیل تک ہمیں بہت کچھ قربان کرنا ہو گا۔‘ اچانک چالاک شخص کا ہاتھ میز کے نیچے سے نکلا تو اس میں پستول تھا۔
’یہ۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر؟‘پستہ قد والا خوفزدہ لہجے میں بولا اور اچھل کر کرسی سے کھڑا ہو گیا مگر ساتھ ہی پستول نے شعلہ اگلا اور پستہ قد والا اپنا سینہ پکڑے ہوئے گرتا چلا گیا۔مرتے وقت اس کی آنکھوں میں خوف سے زیادہ حیرت تھی ۔شدید حیرت۔شاید آج تک اپنے کسی منصوبے کا اسے اس انداز میں معاوضہ نہیں ملا ہو گا۔
’اب اس منصوبے سے پوری دنیا میں صرف میں واقف ہوں ۔اور میرے سوا کوئی نہیں جان پائے گا کہ اب دنیا میں کیا کھیل شروع ہونے والا ہے ۔ ایک ایسا کھیل جس میں استعمال ہونے والے مہرے خود بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ ‘ چالاک شخص کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ تھی۔ پھر اس نے فون کا ریسیور اٹھایا اور بولا۔ ’صدر سے بات کراؤ۔‘

***

اس چھوٹے سے مگر خوبصورت گھر میں اس وقت بہت سے لوگ جمع تھے ۔ایک لمبی سی داڑھی والا نوجوان ان سب کی نگاہوں کا مرکز تھا۔پھر اس کے لب ہلے ۔
’دوستو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے دوست ملک افغان پور پر دشمن نے عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے ۔افغان پور کے باشندے انتہائی تنگ دستی کے عالم میں بھی دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر رہا۔ ہم سب مسلمان عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ذرا سوچیں کل یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔‘
’آپ ٹھیک کہتے ہیں عامر بن ہشام۔‘ ایک نوجوان بولا۔
’ اس لیے ساتھیو میں نے سوچا ہے کہ ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیے ۔آپ جانتے ہیں کہ میں ایک بہت بڑے کاروبار کا مالک ہوں ۔ اﷲ نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے تو اب اس کا وقت آ چکا ہے کہ اسے اﷲ ہی کی راہ میں خرچ دیا جائے ۔‘ عامر بن ہشام نے کہا۔
’کیا آپ افغان پور والوں کی اسلحے سے مدد کرنا چاہتے ہیں ۔؟‘دوسرے نوجوان نے پوچھا۔
’صرف اسلحے سے نہیں ۔ میں خود بھی وہاں جا کر ان کے شانہ بشانہ دین کے دشمنوں کے خلاف لڑنا چاہتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ اس طرح شاید میری حکومت میرے خلاف ہو جائے مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ۔ آپ میں سے جو بھی میرا ساتھ دینا چاہیں مجھے خوشی ہو گی مگر میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں ہمیں صرف شہادت ہی ملے ۔‘عامر بن ہشام بولے ۔
’ہم سب بھی شہادت کی آرزو رکھتے ہیں اور دل و جان سے آپ کے ساتھ ہیں ۔‘ملی جلی آوازیں ابھریں ۔
’تو پھر ٹھیک ہے ۔میں پہلے اس سلسلے میں سارا بندوبست کرتا ہوں پھر آپ لوگوں کو آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاؤ ں گا۔‘عامر بن ہشام نے کہا۔
****

یہودیوں کے ناجائز ملک گبرائیل کا صدر الجھن کے علم میں چالاک شخص کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’میں آپ کی بات سمجھا نہیں مسٹر پولس۔‘صدر نے کہا۔
’آپ کو بات سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ۔بس جو میں کہ رہا ہوں وہ کرتے جائیں ۔‘چالاک شخص پولس نے کہا۔
’لیکن اشریکہ کا صدر مجھ سے پوچھے گا کہ ہم عامر بن ہشام کی مدد کیوں کریں ۔ایک مسلمان کی مدد کر کے ہمیں کیا ملے گا؟‘صدر نے سوالیہ لہجے میں کہا۔
’یہ باتیں آپ نہیں سمجھ سکتے ۔یہ سب ایک بہت عظیم منصوبے کا حصہ ہے ۔اس کے اثرات کئی سالوں بعد پتہ چلیں گے جب مسلمان ہمارے جال میں پھنس چکے ہوں گے اور اشریکہ کے صدر کی آپ فکر نہ کریں ۔ وہ تو ہماری مٹھی میں ہے ۔ اس کے ملک پر اس کا نہیں بلکہ ہمارا حکم چلتا ہے ۔ہم ایک اشارے پر اشریکہ کی حکومت بدل سکتے ہیں ۔‘پولس مغرور لہجے میں بولا۔
’ ایک تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ آپ منصوبے کے بارے میں کچھ بتاتے نہیں ۔اس طرح میں الجھن میں ہوں ۔‘صدر نے کہا۔
’اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو اس کا پتہ نہ ہو۔اسی لیے تو میں نے اس کے خالق ایلن کو بھی ہلاک کر دیا حالانکہ وہ میرا بڑا پرانا ساتھی تھا۔دیکھیں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ صدر آتے جاتے رہتے ہیں ۔ مگر ہماری خفیہ سروس کبھی نہیں بدلے گی۔ اس لیے منصوبہ جاننے کی ضد نہ کریں ۔اور یہ راز میرے سینے میں ہی دفن رہنے دیں ۔‘ پولس نے کہا۔
’اور اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ منصوبہ تو پھر ادھورا رہ جائے گا۔کیونکہ کوئی اور اس سے واقف نہیں ۔‘صدر نے کہا۔
’ایسا نہیں ہو گا ۔میں اس کا بندوبست کر چکا ہوں ۔آپ ا س سلسلے میں پریشان نہ ہوں اور جیسا میں کہ رہا ہوں ویسے کریں ۔فورا اشریکہ کے صدر کو فون کریں اور اس سے کہیں کہ وہ عامر بن ہشام کی ہر طرح مدد کرے تاکہ وہ افغان پور سے قابض فوج کو بھگا سکے ۔‘ پولس نے کہا اور صدر نے سر ہلاتے ہوئے فون کا ریسیور اٹھایا اور اشریکا کے صدر کے نمبر گھمانے لگا۔
’ہیلو۔ میں گبرائیل کا صدر ہوں ۔‘ وہ بولا۔
’ اوہ آپ ۔۔۔۔۔ کہیے کیسے یاد کیا؟‘ اشریکا کے صدر نے پوچھا۔
’سنیے ۔‘ گبرائیل کا صدر اسے تفصیل بتانے لگا۔
’مگر یہ سب کرنے کا فائدہ۔۔۔؟‘ اشریکا کے صدر نے حیرت سے پوچھا۔
’فائدے نقصان کا صرف مسٹر پولس کو پتہ ہے ۔‘گبرائیل کے صدر نے جواب دیا۔
’اوہ۔۔۔ پولس!‘ اشریکا کے صدر کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور اس کے ہونٹ نفرت زدہ انداز میں سکڑ گئے ۔
’ٹھیک ہے میں بندوبست کرتا ہوں ۔‘وہ بولا اور ریسیور رکھ دیا۔
’ نہ جانے ہمیں اس منحوس سے کب نجات ملے گی۔ اب اگر میں نے یہ سب نہ کیا تو یہ یقینا میرا تختہ الٹ دے گا۔ہر محکمے میں یہودی موجود ہیں جو صرف پولس کی بات مانتے ہیں ۔مجھے یہ سب کرنا ہی ہو گا ورنہ کوئی اور آ کر کر دے گا۔‘ اشریکا کا صدر بڑبڑایا۔
***

***

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول