صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
من و تو کے افسانے
مشرف عالم ذوقی
افسانے
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
وہ ایک لمحہ۔۔۔
وہ کھیلتے کھیلتے ٹھہر گئے تھے —
جبکہ
ان کے گھر والوں کی آنکھیں بھیانک انداز سے ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی
تھیں — سانسیں تیز — بریکنگ نیوز میں
ممبئی بم دھماکے کی خبریں اب جسم میں خوف پیدا کر رہی تھیں۔
’جنگ ہی واحد حل ہے۔۔۔‘
نینی
نے گھوم کر دیکھا۔ یہ اس کے ڈیڈی تھے۔ غصے میں بھرے ہوئے
— ’ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ اب اپنی حدیں پار کر رہے ہیں۔‘
’چھوٹا سا تو ملک ہے پاکستان‘ ہمارا ملک کچھ کرتا کیوں نہیں؟‘ ولوم نے گھوم کر دیکھا — یہ ماں تھی۔
ولوم
اور نینی کی آنکھیں بھی ٹی وی اسکرین کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ لیکن اب وہ
آہستہ آہستہ دوسرے مسائل پر بھی تبادلۂ خیال کرنے لگے تھے۔ جیسے گرمی بہت
بری ہے۔ ٹونا میڈم ولوم کو بالکل بھی پسند نہیں۔ جے سر ہمیشہ غصے میں رہتے
ہیں اور اسکول شاید پھر بند ہو جائے۔ اس لیے کہ ممّی اور ڈیڈی بھی جنگ کے
حق میں ہیں۔ جنگ ہو گی تو اسکول اپنے آپ بند ہو جائے گا۔
ممّی نے ہاتھوں کی کنگھی سے بال سنوارے۔ ’اب پاکستان کو مزہ چکھا دینا چاہئے۔ آخر ایٹم بم ہیں ہمارے پاس۔۔۔‘
ڈیڈی کی آنکھوں میں ممّی کو نیچا دکھنے کی جھلک — اور پاکستان؟ ایٹم بم تو اس کے پاس بھی ہیں۔‘
’پھر جنگ نہیں۔۔۔،‘ ممّی کے جسم میں تھرتھراہٹ سی پھیل گئی تھی۔
’لیکن
کچھ تو کرنا ہو گا نا۔۔۔ آزادی کے ۶۱ سالوں میں وہ بار بار ہمارا سکون،
ہمارا امن و چین درہم برہم کرتے رہے ہیں۔ ہم ان سے محبت کی امید کرتے ہیں
اور وہ فدائین کی شکل میں اپنا یم دوت بھیج دیتے ہیں۔ برداشت کی بھی حد
ہوتی ہے۔ اب ایک ہی حل ہے نفرت۔ ہم ان کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کر دیں۔
نفرت کریں ان سے۔ پاکستانی ہونے کے ہر احساس سے نفرت کریں۔ ان کے گانے
نہیں سنیں، ان کے فنکاروں کو یہاں آنے نہیں دیں۔ ہندستان کو پاکستان کی
حمایت کرنے والے ہر جذباتی شخص سے خالی کر دیں۔‘
نینی اور ولوم نے
پھر مڑ کر ممّی اور ڈیڈی کی طرف دیکھا۔ نینی کی عمر دس سال تھی۔ ولوم ۱۲
سال کا۔ اب دونوں کی آنکھوں میں ایک کشمکش سی چل رہی تھی۔ ٹی وی اسکرین پر
اب اس فدائین چہرے کو دکھایا جا رہا تھا، جس کی شکل میں ہندستان کو ایک
اہم ثبوت مل گیا تھا۔
’ارے اس کی آنکھیں تو دیکھو،‘ نینی چیخی — ’کتنی پیاری ہیں۔‘
’پاگل ہو‘ — ولوم غصہ میں تھا — ’یہ دہشت گرد ہے۔‘
’کیوں؟ آتنک وادیوں کی آنکھیں پیاری نہیں ہو سکتیں؟‘
’نہیں؟‘
’نہیں کیوں؟ اسے بھی تو بھگوان نے بنایا ہے۔ چہرہ تو دیکھو۔۔۔ کتنا پیارا ہے۔ بھولا بھالا سا۔‘
ولوم
دانت بھینچ کر بولا — ’پاگل ہو تم۔ آتنک وادی بھولے
بھالے نہیں ہوتے۔ ڈیڈی کہتے ہیں، یہ لاشوں کے سوداگر ہیں۔‘
’پھر لاشوں کے سوداگر کے چہرے بھگوان اتنے بھولے بھالے کیوں بناتا ہے؟‘
’یہ تو بھگوان جانے۔‘
’اچھا۔ یہ اس کے ہاتھ کی پٹّی میں کیا ہے؟ کالی پٹّی۔۔۔؟‘
’ارے
ہاں۔۔۔‘ ولوم چونکا۔ ’ممکن ہے، اس کی ماں نے باندھی ہو۔ اس کی لمبی عمر کے
لیے۔۔۔ وہ۔۔۔ میرا دوست ریحان ہے نا۔۔۔ وہ بھی اپنے بازو پر باندھتا ہے۔
اس نے مجھے دکھایا تھا۔۔۔‘
’تم پاگل ہو، ۲۶ جنوری کے دن ایسی
پٹّیاں ہم نے بھی تو میڈم سے خریدی تھی۔ میڈم نے کہا تھا، اس کے پیسے
کینسر مریض کو جائیں گے۔‘
نینی کو کچھ یاد آ گیا — ’تمہارا دوست فرحان بھی تو مسلمان ہے۔‘
’ہاں، ہے تو۔‘
’تو وہ بھی پاکستانی ہوا؟‘
ولوم سوچ میں ڈوب گیا تھا — ’ارے ہاں۔ اور اس کے بازو میں بھی پٹّی بندھی ہے۔۔۔ یہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا؟‘
ولوم کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔۔۔ ’تو کیا فرحان بھی۔۔۔؟‘
’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘ نینی کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔۔۔ ’وہ اتنا کیوٹ ہے۔۔۔‘
’پیارا
تو یہ بھی ہے۔۔۔ جیسا کہ تم کہتی ہو۔ اس کی آنکھیں۔ اس کا چہرہ۔۔۔‘ ولوم
نگاہ اٹھا کر ٹی وی اسکرین پر اس چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا، جسے ممبئی
حملوں کا اہم مجرم مانا جا رہا تھا۔
فرحان کے نام پر اچانک پورا منظر بدل گیا تھا۔ کمرے میں اینکر کے چنگھاڑتے لفظوں کے باوجود جیسے ایک گہرا سنّاٹا چھا گیا تھا۔
ولوم نے بات بدلی — ’وہ تم ڈائناسور کے بارے میں بتا رہی تھیں۔۔۔؟‘
’ہاں۔۔۔
ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے یہ بڑے بڑے جسم والے ڈائناسور اچانک غائب ہو گئے۔
گلوبل وارمنگ کے سبب یا پھر درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے
زمین سے ان کا خاتمہ ہو گیا۔۔۔‘
’پھر۔۔۔؟‘
’کیونکہ ڈائناسور ٹھنڈ میں ہی جیتے تھے۔ لیکن وہ پھر سے گلوبل وارمنگ کے بدلتے درجۂ حرارت میں دوبارہ جی سکتے ہیں۔‘
‘ کیا یہ ممکن ہے؟‘
’کیوں نہیں؟‘ نینی کی آنکھوں میں ابھی بھی اس دہشت گرد کی تصویر گھوم رہی تھی۔
’سب کچھ ممکن ہے لیکن ان کا ختم ہو جانا ہی اچھا ہے۔‘
لیکن
شاید اس وقت دونوں کو ہی ڈائناسور کی اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
آنکھیں جیسے اسکرین پر مرکوز تھیں۔ سنسنی خیز مناظر کے درمیان اب شاید
دونوں کی آنکھوں میں صرف فرحان کا چہرہ تھا۔
’وہ تمہارے ساتھ پڑھتا ہے نا۔۔۔؟‘ نینی کی آنکھوں میں امید تھی۔
’ہاں۔‘
’تمہیں اس سے ڈر تو نہیں لگتا۔۔۔؟‘
’پاگل! ڈر کیوں لگے گا۔۔۔؟‘
’نہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے، تم نے کہا کہ۔۔۔ وہ بیحد کیوٹ دکھتا ہے۔۔۔؟‘
’ہاں۔۔۔‘
’اور وہ پٹّی بھی باندھتا ہے۔۔۔؟‘
’ہاں۔۔۔‘
یہ وہی وقت تھا جب آسمان سے ایک ہوائی جہاز کے گزرنے کی آواز آئی تھی —
نینی زور سے بولی — ہوائی جہاز۔۔۔
ولوم نے کہا — چلو باہر چلتے ہیں۔
دونوں
بھاگ کر گارڈن میں آ گئے۔ گارڈن کے پاس والی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ نیلے
آسمان کو دیکھتے ہوئے۔ پھولوں کی خوشبو کے احساس سے دور۔۔۔ جیسے وہ ایک
دوسرے سے کچھ کہنا چاہ رہے ہوں۔۔۔ مگر شاید لفظ زبان تک آ کر۔۔۔ راستہ بدل
رہے ہوں۔۔۔
ہوائی جہاز۔۔۔ جیوں۔۔۔ کی آواز کے ساتھ چکر کاٹتا ہوا دوبارہ وہاں سے گزرا۔۔۔
’تم نے کچھ کہا کیا۔۔۔؟‘ نینی نے پوچھا۔
’نہیں تو۔۔۔‘ ولوم نے کہا۔۔۔ ’اور تم نے۔۔۔‘
’نہیں تو۔۔۔‘
دونوں چپ تھے —
ہوائی
جہاز چکر کاٹتا ہوا گم ہو گیا تھا — نینی کی آنکھوں میں
اب بھی دہشت گرد کے ساتھ فرحان کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے ولوم کی طرف
دیکھا —
’ایک بات پوچھوں۔۔۔؟‘
’پوچھو۔۔۔‘
’تم نے اس دہشت گرد میں فرحان کا چہرہ دیکھا کیا؟‘
’نہیں تو۔۔۔‘ کہتے کہتے ولوم ٹھہرا — اور تم نے۔۔۔؟‘
’میں نے بھی نہیں۔‘
ہوائی جہاز کی آواز بھی کھو گئی تھی — دونوں خوشی سے بھاگتے ہوئے تیز تیز اندر کی جانب بڑھ گئے۔
٭٭٭