صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مانگے کا اجالا
اور دوسرے ڈرامے

یک بابی ڈراموں کا انتخاب

نورالعین علی

سید معز الدین احمد فاروق، اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 


   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

یہ دن بار بار آئے 

(رابعہ میز کے پاس کھڑی بستے میں کچھ تلاش کر رہی ہے۔ جنید آتا ہے۔ )
جنید    :میرے بستے میں سے کیا  لیا تم نے ؟
رابعہ    :کچھ بھی تو نہیں۔
    (دونوں ہاتھ کھول کر دکھاتی ہے۔ )
جنید    :پھر ہاتھ کیوں لگایا میرے بستے کو؟
رابعہ    :میرا رنگین پنسلوں کا ڈبہ نظر نہیں آ رہا ہے۔
جنید    :مجھے دیا تھا کیا جو میرے بستے میں تلاش کر رہی ہو؟
رابعہ    :آخر گیا کہاں میرا ڈبہ!
جنید    :گیا ہو گا کہیں۔ (زور سے چلا کر) ہٹو یہاں سے !
    (رابعہ کو دھکّا دیتا ہے۔ رابعہ چیختی ہے۔ )
رابعہ    :امی!دیکھئے بھیا کو۔
    (امی آتی ہے۔ )
امی    :ارے کیا ہو رہا ہے یہ، کیوں شور مچا رہے ہو تم لوگ؟
    (امی کو آتا دیکھ کر رابعہ رونے لگتی ہے۔ )
رابعہ    :امی، بھیا نے مجھے مارا۔
امی    :دیکھو تمہارے ابا بہت ضروری کام کر رہے ہیں۔ تم لوگ اس طرح شور مچا کران کے کام کا حرج کر رہے ہو۔
جنید    :امی، یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں نے نہیں مارا، بس ذرا سا دھکا دیا تھا۔
ابا    : (دوسرے کمرے سے آتے ہیں) یہ بچے اسی طرح لڑتے جھگڑتے  اور   شور مچاتے رہے تو میرا کام ہو چکا۔
امی    :آپ اپنے کمرے میں جائیے۔ ان کو میں چپ کراتی ہوں۔
ابا    :مگر یہ دونوں ہر وقت لڑتے کیوں رہتے ہیں۔ انسانوں کی طرح نہیں رہتے۔
امی    :بس ذرا ذرا سی بات پر چھینا جھپٹی، مار پٹائی، توتو، میں میں۔ میں عاجز آ گئی ان کے لڑائی جھگڑوں سے۔
ابا    :ٹھیک ہے لڑو جی بھرکے۔ میں ہی آفس چلا جاتا ہوں۔ بیٹھ کے کام کروں گا۔
    (ابا اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ )
    (خالدہ آتی ہیں۔ )
خالدہ    :السلام علیکم!
امی    :وعلیکم والسلام!آؤ خالدہ بیٹھو۔
خالدہ    :نہیں بھابی!بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ میں تو یہ پوچھنے آئی تھی کہ سب خیریت ہے نا؟
امی    :ہاں ہاں !اللہ کا شکر ہے سب خیریت ہے۔ مگر تم ایسے کیوں پوچھ رہی ہو؟
خالدہ    :کل آپ کے گھر تار آیا تھا نا؟
امی    :نہیں، ہمارے گھر تو کسی کا تار نہیں آیا۔
خالدہ    :کل رات کے دس بجے کے قریب آیا تھا۔ آپ کے گھر میں شاید کوئی نہیں تھا۔ وہ اطلاع کا کاغذ دروازے میں سے ڈال کر چلا گیا ہو گا۔
امی    :نہیں نہیں، کریمن بی گھر ہی  پر تھیں۔ ہم لوگ تو ایک جگہ دعوت میں گئے تھے۔ (کریمن بی کو آواز دیتی ہے) کریمن بی!
کریمن بی    :جی، بیگم صاحب!
امی    :کل ہمارے جانے کے بعد کیا تم بھی کہیں چلی گئی تھیں ؟
کریمن بی    :بس دو منٹ کو نکڑ تک پان لانے گئی تھی۔
خالدہ    :بس، اسی وقت تار والا آیا ہو گا۔
امی    :مگر ہمیں تو کوئی اطلاع کا کاغذ نہیں ملا۔ جنید جاؤ، اپنے ابا سے پوچھ کر آؤ۔ خالدہ تم بھی اب بتا رہی ہو!
خالدہ    :اے لو!مجھے کیا پتہ کہ آپ لوگوں کو اس کی اطلاع ہی نہیں۔
امی    :کریمن بی، تم پان لے کر آئیں تو تم نے یہاں دروازے کے پاس کوئی کاغذ پڑا دیکھا؟
کریمن بی    :نہیں بیگم صاحب!
    (ابا آتے ہیں۔ )
ابا    :یہ تار کا کیا قصہ ہے بھئی؟
خالدہ    :السلام علیکم بھائی صاحب!کل رات آپ کے گھر تار آیا تھا۔ دروازے میں تالا تھا۔ میں نے تار والے کو خود اپنی آنکھوں سے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
امی    :ہم لوگ دعوت سے لوٹے تب آپ نے کوئی کاغذ واغذ دیکھا تھا کیا؟
ابا    :اب کاغذ کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ ٹیلی گراف آفس جا کر پتہ چلایا جائے۔
جنید    :میں چلا جاؤں ابا؟سائیکل پر ابھی گیا  اور  ابھی آیا۔
امی    :نہیں، تم نہیں جاؤ گے۔ وہاں چوک پر بے حد بھیڑ رہتی ہے۔ موٹر گاڑیاں، ٹرک  اور  نہ جانے کیاک یا۔ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
ابا    :اسے جانے دو!بارہ سال کا ہو گیا ہے۔ کب تک بچہ بنا کے گھر میں بٹھائے رکھو گی۔
امی    :آپ خود کیوں نہیں چلے جاتے۔
ابا    :یہ رپورٹ پوری کر کے آج میٹنگ میں پیش کرنی ہے ورنہ تار کی خبر سن کر کیا میں اتنی دیر رکتا؟
امی    :میں چلی جاؤں رکشا میں ؟
ابا    :نہیں نہیں، تم کہاں پھرو گی ماری ماری۔ جنید ہی چلا جائے گا۔
جنید    : (بے حد خوش ہو کر) جی ہاں ابا میں چلا جاتا ہوں۔
امی    :دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے جنید کو تو میں سائیکل پراس طرف جانے نہیں دوں گی۔
ابا    :تم صرف بات کاٹتی رہو گی یا یہ بھی بتاؤ گی کہ پھر تار لانے کون جائے ؟۔ ۔ ۔ شاید کلکتے سے کلیم صاحب کا تار آیا ہو۔ ان کے ایک فیصلے پر میرے کاروبار میں ہزاروں کا نفع  یا نقصان ہو سکتا ہے۔
خالدہ    :آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ میں گھر جا کر ریاض کو بھیجتی ہوں۔ آج اس کی چھٹی ہے، جا کر تار لے آئے گا۔
امی    :ہاں بی بی ذرا جلدی بھیج دو۔ کہیں زینت آپا کا نہ ہو۔ ان کے شوہر کئی دن سے اسپتال میں ہیں۔ خدا خیر کرے۔ نہ جانے کیا خبر ہو گی۔ اللہ سب کی خیریت کی خبر سنوائے۔
    (آواز بھرا جاتی ہے۔ )
خالدہ    :جی بس، ابھی بھیجتی ہوں۔
    (جاتی ہے۔ )
    (ابا ہاتھ پیچھے باندھے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں۔ )
امی    :مجھے تو لگتا ہے میرے ہی لیے آیا ہے یہ تار۔ میری قسمت ہی ایسی ہے۔ ذرا چند دن سکون کے گزرتے ہیں کہ پھر کوئی نہ کوئی آفت سر پر آ پڑتی ہے۔
    (رونے لگتی ہے۔ رابعہ دوڑ کر آتی ہے۔ ماں سے لپٹ جاتی ہے۔ )
رابعہ    :امی!میری امی، روئیے مت۔
ابا    : (زور سے) خاموش رہو تم دونوں۔ بیوقوفوں کی طرح آنے والی مصیبتوں پر پہلے سے ہی رونے بیٹھ گئیں۔ یہ تار یقیناً کلیم صاحب کا ہے۔ اگر انھوں نے اب انکار کر دیا تو میرا لاکھوں کا نقصان ہو جائے گا۔
امی    :میرا دل کہہ رہا ہے کسی کی سناونی آئی ہے۔ آپ کو تو ہر وقت بس اپنے نفع نقصان کی پڑی رہتی ہے۔
ابا    :میرے نفع نقصان میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ؟کیا میرے نقصان سے تمہاری زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؟جب کہتی ہو ایسی ہی بے تکی بات کہتی ہو۔
    (غصے میں بھرے اندر کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ )
امی    :کریمن بی!ایک گلاس پانی لاؤ۔ ارے میرے کلیجے میں آگ سی لگ رہی ہے۔
کریمن بی    : (پانی کا گلاس لاتی ہیں) لو بیگم صاحب!
امی    : (پانی پی کر گلاس میز پر رکھ دیتی ہیں۔ کریمن بی کھڑی ہیں) جاؤ جا کر بچوں کا ناشتہ تیار کرو۔ ا سکول کا وقت ہو رہا ہے۔
    (کریمن بی اسی طرح کھڑی ہیں۔ )

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول