صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مناظرات پیامبر اعظمؐ

 استاد محمدی اشتہاردی

مترجم:  اقبال حیدر حیدری

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

ا۔  یہودیوں سے مناظرہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:  کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری باتوں کو بغیر کسی دلیل کے مان لوں؟

یہودی گروہ:   نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:  اس بات پر تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ 'عزیر' خدا کے بیٹے ہیں؟

یہودی گروہ:  کتاب 'توریت "مکمل طور پر نیست و نابود ہو چکی تھی اور کوئی اس کو زندہ نہیں کرسکتا تھا، جناب عزیر نے اس کو زندہ کیا، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   اگر تمہارے پاس جناب عزیر کے خدا کے بیٹے ہونے پر یہی دلیل ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو توریت لانے والے اور جن کے پاس بہت سے معجزات تھے جن کا تم لوگ خود اعتراف کرتے ہو، وہ تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے یا اس سے بھی بالاتر ہوں ! پس تم لوگ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے یہ عقیدہ کیوں نہیں رکھتے جن کا درجہ جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہے؟

اس کے علاوہ اگر خدا کا بیٹا ہونے سے تمہارا مقصود یہ ہے کہ عزیر بھی دوسرے باپ اور اولاد کی طرح شادی اور ہمبستری کے ذریعہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں تو اس صورت میں تم نے خدا کو ایک مادّی، جسمانی اور محدود موجود قرار دیدیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کے لئے کوئی خلق کرنے والا ہو، اور اس کو دوسرے خالق کا محتاج تصور کریں۔

یہودی گروہ: جناب عزیر کا خدا کا بیٹا ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی اس طرح ولادت ہوئی، کیونکہ یہ معنی مراد لینا جیسا کہ آپ نے فرمایا کفر و جہل کے مترادف ہے، بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام ہے،جیسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ایک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے کہتے ہیں: 'اے میرے بیٹے!' یا 'وہ میرا بیٹا ہے'، یہ بات تو معلوم ہے کہ ولادت کے لحاظ سے بیٹا نہیں ہے کیونکہ شاگرد ،استاد کی اولاد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے، اسی طرح خداوند عالم نے جناب عزیر کی شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا کہا ہے، اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو 'خدا کا بیٹا' کہتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   تمہارا جواب وہی ہے جو میں دے چکا ہوں، اگر یہ منطق اور دلیل اس بات کا سبب ہے کہ جناب عزیر خدا کے بیٹے بن جائیں تو پھر جو شخص مثل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہوں اس بات کا زیادہ مستحق ہیں۔

خداوند عالم کبھی بعض لوگوں کو دلائل اور اپنے اقرار کی وجہ سے عذاب کرے گا، تمہاری دلیل اور تمہارا اقرار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تم لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس سے بڑھ کر کہو جو جناب عزیر کے بارے میں کہتے ہو، تم لوگوں نے مثال دی اور کہا: کوئی بزرگ اور استاد اپنے شاگرد سے کوئی رشتہ داری نہیں رکھتا بلکہ اس سے محبت اور احترام کی وجہ سے کہتا ہے:

'اے میرے بیٹے!' یا 'وہ میرا بیٹا ہے'، اس بناء پر تم لوگ یہ بھی جائز سمجھو کہ وہ اپنے دوسرے محبوب شاگرد سے کہے: 'یہ میرا بھائی ہے'، اور کسی دوسرے سے کہے: 'یہ میرا استاد ہے'، یا 'یہ میرا باپ اور میرا آقا ہے'۔

یہ تمام الفاظ شرافت اور احترام کی وجہ سے ہیں، جس کا بھی زیادہ احترام ہواس کو بہتر اور با عظمت الفاظ سے پکارا جائے، اس صورت میں تم اس بات کو بھی جائز مانو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی ہیں، یا خدا کے استاد یا باپ ہیں، کیونکہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ جناب عزیر سے بلند و بالا ہے۔

اب میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس بات کو جائز مانتے ہو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی، یا خدا کے باپ یا خدا کے چچا، یا خدا کے استاد ، آقا اور ان کے سردار ہوں، اور خداوند عالم احترام کی وجہ سے جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے کہے: اے میرے باپ!، اے میرے استاد، اے میرے چچا اور اے میرے سردار۔۔۔؟

یہ سن کر یہودی گروہ لا جواب ہو گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا، اور وہ حیران و پریشان رہ گئے تھے،چنانچہ انھوں نے کہا:  ' آپ ہمیں غور و فکر اور تحقیق کرنے کی اجازت دیں!'

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   بے شک تم لوگ اگر پاک و صاف دل اور انصاف کے ساتھ اس سلسلہ میں غور و فکر کرو تو خداوند عالم تم لوگوں کو حقیقت کی طرف راہنمائی فرما دے گا۔

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول