صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ملبے میں دبے خواب
محمد شفیع بلوچ
جمع و ترتیب:ارشد خالد، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ٹھہرو!( اقتباس)
’’___اور
مجھے یوں لگا جیسے صورِ اسرافیل پھونکا جا چکا ہو۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی
طرح اُڑ رہے تھے۔ وہ دھرتی جس پر مجھے بہت مان تھا اور جس پر میں سینہ
پھیلا کے یوں اکڑ کر چلتا تھا جیسے میں ہی اس زمین کا مالک ہوں ، اب مجھے
سات ربڑی گیند کی طرح اُچھال رہی تھی۔ ہر طرف ہیبت ناک چیخ پکار تھی۔ اسی
اثنا میں فرشتوں کا ایک گروہ مجھے گھسیٹتا ہوا اُس میدان کی طرف لے آیا
جہاں ایک بہت بڑی عدالت لگی ہوئی تھی۔
’’اپنا دفترِ عمل پیش کرو___!’‘
ایک رُعب دار آواز آئی۔
’’مم___میں ___میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ___!’‘
کوئی شئے جیسے میرے گلے میں اٹک گئی ہو۔
’’___خالی ہاتھ گیا تھا اور خالی ہاتھ ہی لَوٹا ہوں۔ ‘‘
’’جھوٹ بولتے ہو تم، بہت گل کھلائے ہیں تم نے وہاں !’‘
’’حضور ! میں جھوٹ تو نہیں بول رہا، میں تہی داماں ہوں ، وہاں تو میں نے محبت کا درد سمیٹا اور بس___یہی میری نیک کمائی ہے۔ ‘‘
’’ہم تمھیں صفائی کا پورا پورا موقع دیں گے، جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہوکھل کر بیان کرو۔ ‘‘
’’میری حیات کے مالک! میں کیا اور میری حقیقت کیا!!’‘
اب میں کچھ کچھ بولنے کے قابل ہو چلا تھا۔
’’___اُس وقت بھی تو تمھارا دور دورہ تھا جب میں نے تمھیں جاننے بلکہ پہچاننے کی کو شش کی۔ تم تک پہنچنے کے لیے کتنی صلیبوں ، کتنی چتاؤں ، آگ کے کتنے دریاؤں کو عبور کیا مگر تم ہر مرتبہ دوسرا کنا رہ ہی دکھائی دیے۔ ‘‘
میں نے خشک زبان ہونٹوں پر پھیری اور ماتھے پر سے پسینے کے سیلاب کو پونچھتے ہوئے دو بارہ گویا ہوا
’’___تمھارے میرے بیچ نور کے دھارے تھے کہ حقیقت کے سراب، اس کا ادراک مجھے آج تک نہ ہوسکا اور ہوتا بھی کیسے ؟تمھارے لیے میرے جذبے جو ابتدا میں آگ تھے اب راکھ ہو چکے ہیں۔ اب تو میں بگولوں کی صورت اُڑتا پھرتا ہوں ___زمین سے تا بہ فلک مٹی کا گردش کرتا ہوا غبار___! اور اپنے ساتھ جانے کتنے خوابوں ، کتنے سرابوں کے کچرے اُڑائے پھرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو کہاں سے شروع کروں اور کہاں پہ ختم؟میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا___!محبت کے کیسے کیسے حسیں درد میرے مقدر ہوئے!!’‘
میں نے ایک طویل ٹھنڈا سانس کھینچا۔
’’بولو، بولو، بلا تامل بولتے جاؤ___!’‘
اُدھر سے آواز آئی اور میں پھر گویا ہوا:
’’___وہ دور بھی کیا دور تھا___کن فیکونی دور___تمھارے میرے بیچ فاصلہ ہی کتنا تھا، ایک سانس کا___پلک جھپکنے کا___یا اس سے بھی کم۔ پھر مجھے میرے ہونے کی خواہش نے اوج ثریا سے زمین پر دے مارا۔ مجھے تم سے بچھڑنے کا بے حد دکھ ہوا۔ میں تمھاری تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا، پھرتا رہا، نوری سالوں جتنا عرصہ بیت گیا کہ میں نے تمھاری پرچھائیں اپنی ماں کے چہرے پر دیکھ لیں ، بس پھر کیا تھا، اُسی کا ہو کے رہ گیا، اُس کا چہرہ ہوتا اور میری آنکھیں۔
ایک روز پتہ ہے کیا ہوا؟ماں سخت بیمار ہو گئی!یہاں تک کہ اس کی صر ف نبض ہی تو چل رہی تھی اور___بس!!مجھے اس خوف نے آ لیا کہ ماں مری کہ مری، پھر تمہیں کہاں دیکھوں گا، کس
کے چہرے پہ؟میں باہر نکل گیا، جنگل کی طرف اور اتنا رویا جتنا کوئی غمِ ہجراں میں رو سکتا ہے۔ جب میری آنکھوں میں کچھ نہ بچا تو سر جھکائے واپس آگیا۔ مجھے یوں لگا جیسے اماں کی چارپائی دشتِ ماریہ میں پڑی ہو۔ میں نے چارپائی کے گرد دیوانہ وار دوڑنا شروع کر دیا، پتہ نہیں کتنے چکر کاٹے کہ اماں نے ایک دم آنکھیں کھول دیں۔ میری خشک آنکھوں میں پھر سے ہریالی عود کر آئی اور___مجھے یوں لگا جیسےکن فیکونی دور پھر سے لوٹ آیا ہو!!’‘
’’پھر___؟’‘
’’پھر یوں ہوا کہ میرے پاؤں زمین پر جمنے لگے، پھیلنے لگے تو ماں میرے لیے دوسرا کنا رہ بنتی گئی۔ اب میرے اور اس کے درمیان خواہشوں کا عفریت آگیا جس نے چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشوں کو نگل لیا۔ ماں دوسرے کنارے پر بیٹھی میری واپسی کا انتظار کرتی رہی۔ اس کی آنکھیں میرا بچپنا دیکھنے کے انتظار میں روہی بن گئیں۔ میں ماں تک نہ پہنچ سکا۔ تم تک نہ پہنچ سکا۔ ‘‘
٭٭٭ ’’اپنا دفترِ عمل پیش کرو___!’‘
ایک رُعب دار آواز آئی۔
’’مم___میں ___میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ___!’‘
کوئی شئے جیسے میرے گلے میں اٹک گئی ہو۔
’’___خالی ہاتھ گیا تھا اور خالی ہاتھ ہی لَوٹا ہوں۔ ‘‘
’’جھوٹ بولتے ہو تم، بہت گل کھلائے ہیں تم نے وہاں !’‘
’’حضور ! میں جھوٹ تو نہیں بول رہا، میں تہی داماں ہوں ، وہاں تو میں نے محبت کا درد سمیٹا اور بس___یہی میری نیک کمائی ہے۔ ‘‘
’’ہم تمھیں صفائی کا پورا پورا موقع دیں گے، جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہوکھل کر بیان کرو۔ ‘‘
’’میری حیات کے مالک! میں کیا اور میری حقیقت کیا!!’‘
اب میں کچھ کچھ بولنے کے قابل ہو چلا تھا۔
’’___اُس وقت بھی تو تمھارا دور دورہ تھا جب میں نے تمھیں جاننے بلکہ پہچاننے کی کو شش کی۔ تم تک پہنچنے کے لیے کتنی صلیبوں ، کتنی چتاؤں ، آگ کے کتنے دریاؤں کو عبور کیا مگر تم ہر مرتبہ دوسرا کنا رہ ہی دکھائی دیے۔ ‘‘
میں نے خشک زبان ہونٹوں پر پھیری اور ماتھے پر سے پسینے کے سیلاب کو پونچھتے ہوئے دو بارہ گویا ہوا
’’___تمھارے میرے بیچ نور کے دھارے تھے کہ حقیقت کے سراب، اس کا ادراک مجھے آج تک نہ ہوسکا اور ہوتا بھی کیسے ؟تمھارے لیے میرے جذبے جو ابتدا میں آگ تھے اب راکھ ہو چکے ہیں۔ اب تو میں بگولوں کی صورت اُڑتا پھرتا ہوں ___زمین سے تا بہ فلک مٹی کا گردش کرتا ہوا غبار___! اور اپنے ساتھ جانے کتنے خوابوں ، کتنے سرابوں کے کچرے اُڑائے پھرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو کہاں سے شروع کروں اور کہاں پہ ختم؟میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا___!محبت کے کیسے کیسے حسیں درد میرے مقدر ہوئے!!’‘
میں نے ایک طویل ٹھنڈا سانس کھینچا۔
’’بولو، بولو، بلا تامل بولتے جاؤ___!’‘
اُدھر سے آواز آئی اور میں پھر گویا ہوا:
’’___وہ دور بھی کیا دور تھا___کن فیکونی دور___تمھارے میرے بیچ فاصلہ ہی کتنا تھا، ایک سانس کا___پلک جھپکنے کا___یا اس سے بھی کم۔ پھر مجھے میرے ہونے کی خواہش نے اوج ثریا سے زمین پر دے مارا۔ مجھے تم سے بچھڑنے کا بے حد دکھ ہوا۔ میں تمھاری تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا، پھرتا رہا، نوری سالوں جتنا عرصہ بیت گیا کہ میں نے تمھاری پرچھائیں اپنی ماں کے چہرے پر دیکھ لیں ، بس پھر کیا تھا، اُسی کا ہو کے رہ گیا، اُس کا چہرہ ہوتا اور میری آنکھیں۔
ایک روز پتہ ہے کیا ہوا؟ماں سخت بیمار ہو گئی!یہاں تک کہ اس کی صر ف نبض ہی تو چل رہی تھی اور___بس!!مجھے اس خوف نے آ لیا کہ ماں مری کہ مری، پھر تمہیں کہاں دیکھوں گا، کس
کے چہرے پہ؟میں باہر نکل گیا، جنگل کی طرف اور اتنا رویا جتنا کوئی غمِ ہجراں میں رو سکتا ہے۔ جب میری آنکھوں میں کچھ نہ بچا تو سر جھکائے واپس آگیا۔ مجھے یوں لگا جیسے اماں کی چارپائی دشتِ ماریہ میں پڑی ہو۔ میں نے چارپائی کے گرد دیوانہ وار دوڑنا شروع کر دیا، پتہ نہیں کتنے چکر کاٹے کہ اماں نے ایک دم آنکھیں کھول دیں۔ میری خشک آنکھوں میں پھر سے ہریالی عود کر آئی اور___مجھے یوں لگا جیسےکن فیکونی دور پھر سے لوٹ آیا ہو!!’‘
’’پھر___؟’‘
’’پھر یوں ہوا کہ میرے پاؤں زمین پر جمنے لگے، پھیلنے لگے تو ماں میرے لیے دوسرا کنا رہ بنتی گئی۔ اب میرے اور اس کے درمیان خواہشوں کا عفریت آگیا جس نے چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشوں کو نگل لیا۔ ماں دوسرے کنارے پر بیٹھی میری واپسی کا انتظار کرتی رہی۔ اس کی آنکھیں میرا بچپنا دیکھنے کے انتظار میں روہی بن گئیں۔ میں ماں تک نہ پہنچ سکا۔ تم تک نہ پہنچ سکا۔ ‘‘