صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شہید اور دوسرے افسانے
علی حسن سمند طور
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پیٹر
پریس کانفرینس ہنگامی طور پہ بلائی گئی تھی۔ اس پریس کانفرینس میں موجود تمام صحافیوں کو علم تھا کہ امریکی سفارت خانے کی اہلکار ٹریسا سدر لینڈ اپنے اغوا کنندگان کے چنگل سے آزاد ہو کر واپس سفارت خانے کے محفوظ ماحول میں پہنچ چکی تھی۔ مگر یہ خبر رکھنے کے باوجود سب ہی یہ جاننے کی جستجو رکھتے تھے کہ ٹریسا نے یہ کمال کیسے کر دکھایا تھا۔ پریس کانفرینس سفارت خانے کے اندر ایک کمرے میں ہو رہی تھی۔
مقررہ وقت پہ ٹریسا سدرلینڈ ایک اور آدمی کے ساتھ پریس کانفرینس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس آدمی کے سر کے بال الجھے ہوئے تھے اور اس کی داڑھی بغیر کسی تراش خراش کی تھی۔ اس نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ ٹریسا کی شکل دیکھتے ہی کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ ٹریسا کی صورت جانی پہچانی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی اس کے اغوا ہونے کی خبر مع اس کی تصویر کے دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی کی زینت بنی تھی۔ ٹریسا چلتی ہوئی کمرے کے آگے پہنچی اور وہاں پڑی میز کے پیچھے موجود کرسی پہ بیٹھ گئی۔ کمرے میں ٹریسا کے ساتھ داخل ہونے والا آدمی بھی ٹریسا کے برابر میں بیٹھ گیا۔
ٹریسا نے اطمینان سے میز پہ پڑی پانی کی ایک چھوٹی بوتل سے گلاس میں پانی انڈیلا، اور پانی کا ایک گھونٹ پینے کے بعد بولنا شروع کیا۔
"آپ سب لوگوں کی آمد کا بہت شکریہ۔ میں ٹریسا سدرلینڈ ہوں۔ وہی ٹریسا جسے طالبان نے تقریباً تین روز پہلے اغوا کیا تھا۔ میں آج آپ کے سامنے اس آدمی کی وجہ سے موجود ہوں۔" ٹریسا نے برابر بیٹھے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،"آپ شاید اس کو پہچاننے میں کچھ دشواری محسوس کر رہے ہوں۔ یہ پیٹر ہے۔"
کمرے میں بیٹھے صحافیوں میں سے ایک آدھ نے پہلو بدلا۔ انہیں آدمی کا نام اور چہرہ کچھ مانوس لگا تھا۔
ٹریسا بولتی رہی۔
"اور دراصل میری رہائی کی کہانی پیٹر کی بہت لمبی کہانی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس لیے میں چاہوں گی کہ پیٹر آپ کو یہ پوری کہانی سنائے۔ پیٹر۔"
ٹریسا کی دعوت پہ پیٹر نے اپنی کرسی تھوڑی سی آگے بڑھائی۔ وہ بولنا شروع ہوا۔
"میں پیٹر ہوں۔ پیٹر اسٹینزیک۔ پولینڈ کا وہ انجینئیر جو دو سال پہلے اغوا ہوا تھا۔"
داڑھی والے آدمی کا یہ آخری جملہ سن کر کمرے میں بیٹھے بیشتر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔
"ہاں مجھے پتہ ہے کہ تم لوگوں کا میرے بارے میں یہ خیال ہے کہ طالبان نے دو سال پہلے میرا سر قلم کر دیا تھا۔ لیکن تم دیکھ سکتے ہو کہ میں اب تک زندہ ہوں اور تمھارے سامنے موجود ہوں۔"
اتنی بات کر کے پیٹر کی آواز رندھ گئی۔ اس نے بھی اپنے سامنے پڑی بوتل سے پانی پیا۔ کمرے میں موجود تمام لوگ دم بخود پیٹر کو پانی پیتا دیکھ رہے تھے۔ وہ پیٹر کی داستان سننے کے لیے بے چین تھے۔
"میں تم لوگوں کو بتانا چاہوں گا کہ میں کس طرح موت کے چنگل سے بچ کر نکلا ہوں۔ لیکن یہ کہانی سنانے سے پہلے میں کچھ اپنے بارے میں بتا دوں تاکہ تم لوگوں کو میرے پس منظر کا اندازہ رہے۔
میں پولینڈ کے شہر کراکاؤ کا رہنے والا ہوں۔ میں نے وارشاوا سے ارضیات میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر کراکاؤ کی ایک کمپنی میں کام کرنے لگا۔ مجھے ہمیشہ سے دنیا دیکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ جب ہماری کمپنی کو پاکستان میں کام کرنے کا ٹھیکہ ملا تو میں نے افسران بالا کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ مجھے معلوم تھا کہ کام کرنے کے لیے پاکستان ایک خطرناک ملک ہے مگر پاکستانی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ہماری حفاظت کا موثر انتظام کیا جائے گا۔ میں ترقی پذیر دنیا کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں پاکستان پہنچا تھا۔ اور یہاں پہنچ کر مجھے واقعی بہت خوشی ہوئی تھی۔ میرے ٹھہرنے کا بہت اعلی انتظام تھا اور میری خدمت کے لیے ملازمین کی ایک فوج ظفر موج حاضر رہتی تھی۔ پولینڈ میں رہتے ہوئے میں نے کبھی ایسی شاہانہ زندگی کا خیال بھی نہیں کیا تھا۔ دراصل پاکستان آنے سے پہلے میں کسی ایسے ملک نہیں گیا تھا جو کبھی یورپی نو آبادی رہا ہو اور جہاں گورے آدمی کو محض اس کے رنگ کی وجہ سے عزت دی جاتی ہو۔ غرض کہ میں پاکستان آنے پہ بہت خوش تھا۔
میرا کام تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کرنا تھا۔ میں اس سلسلے میں اپنے عملے کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ ہم شہر سے باہر نکلتے تو میرے ساتھ چار لوگ ہوتے، میرا ماتحت ، وین کا ڈرائیور،اور دو بندوق بردار محافظ۔۔ پاکستان پہنچنے کے بعد شروع میں تو شہر سے باہر نکلتے ہوئے مجھے بہت ڈر لگا مگر جب ایسا بارہا ہوا کہ ہم پانچوں پورا دن چٹیل پہاڑوں میں گزارنے کے بعد بحفاظت واپس آ گئے تو میری خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ پھر میں نے مقامی کپڑے پہننا شروع کر دیے اور اردو اور پشتو کے چند الفاظ بھی سیکھ لیے۔ اور یوں پاکستان پہ میرا اعتماد بڑھتا گیا۔ دیکھتے دیکھتے دو ماہ گزر گئے۔ پاکستان میں خیریت سے دو ماہ گزارنے پہ مجھے خیال ہوا کہ پاکستان کے امن عامہ کی خراب شہرت دراصل غیر ملکی خبر رساں اداروں کا ایک جھوٹ تھی۔ میں اپنے آپ کو سمجھانے لگا کہ تیل اور گیس کی تلاش میں پولینڈ سے آئے ہوئے ایک انجینئیر کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں یقیناً غیر ملکی افراد مارے جاتے ہیں یا اغوا ہوتے ہیں، مگر شاذ و نادر، اور شاید قتل اور اغوا ہونے والے افراد کا کوئی نہ کوئی تعلق طالبان سے ہونے والی جنگ سے ہوتا ہے۔ میرا جنگ سے کیا لینا دینا، اس لیے مجھے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس میں نے اسی قسم کی خود کلامی سے اپنے آپ کو بہلا لیا۔
وقت گزرتا گیا اور پھر میری تقدیر کا سب سے برا دن آگیا۔ یہ ستمبر کے آخر کی بات ہے۔ ہم اٹک کے قریب جس جگہ کام کر رہے تھے اس کا اسلام آباد سے اتنا فاصلہ تھا کہ اسلام آباد سے روز وہاں جانے کے بجائے ہم نے اس مقام پہ ایک کیمپ لگانا زیادہ بہتر خیال کیا۔ کیمپ کی حفاظت کا اچھا انتظام تھا۔ میرے ساتھ چلنے والے چار لوگوں کے علاوہ کیمپ کی روز و شب حفاظت کے لیے چھ لوگ معمور تھے۔
وہ ستمبر اٹھائیس کا دن تھا اور اتوار کا روز تھا۔گویا ہم سب چھٹی پہ تھے۔ پاکستان میں کام کرتے ہوئے میرے لیے ہر روز ہی چھٹی کا دن تھا کیونکہ کام میں کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور میں جس شخص کو رپورٹ کرتا تھا وہ پولینڈ میں تھا۔ اتوار کی اس صبح کیمپ میں ناشتہ کرنے کے بعد میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ میں سامنے والے پہاڑوں کا معائنہ کرنا چاہتا تھا۔ میرے ساتھ چلنے والے چاروں لوگ ذرا سی دیر میں تیار ہو گئے۔ بندوق بردار پیچھے بیٹھے تھے۔ ڈرائیور اور میرا ماتحت آگے والی سیٹوں پہ تھے اور میں بیچ کی سیٹ پہ آرام سے بیٹھا تھا۔ ہم کیمپ کے سامنے موجود پہاڑوں کی طرف چلے جا رہے تھے۔ ایک دن پہلے بھی ہم ان پہاڑوں پہ جا چکے تھے مگر آج میں ایک دوسری جگہ کا معائنہ کرنا چاہتا تھا۔ ہمیں چلتے ہوئے آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ راستے میں ایک ندی پڑی۔ میں نے گاڑی کو وہاں روکنے کی فرمائش کی۔ گاڑی رک گئی۔ ہم سب گاڑی سے اتر گئے۔ میں ندی تک پہنچا اور وہاں موجود ایک بڑے پتھر پہ بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے ماتحت سے کہا وہ باقی تین افراد کو بتا دے کہ مجھے آگے جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی اور میں وہاں ندی پہ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ وہ ایک گرم دن تھا اور میرا دل تھا کہ میں کپڑے اتار کر پانی میں چھلانگ لگا دوں۔ مگر ایسی صورت میں آپ نہانے کا کیا مزا لوٹ سکتے ہیں جب چار لوگ آپ کی حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہے ہوں۔ میرا عملہ کچھ دیر میری طرف غور سے دیکھتا رہا مگر جب انہیں احساس ہوا کہ مجھے وہاں سے روانہ ہونے کی کوئی جلدی نہیں تھی اور میں محض اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو وہ لوگ بھی اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ میرا ماتحت تھوڑا آگے جا کر ندی کے کنارے پڑے ایک اور پتھر پہ بیٹھ گیا۔ جب کہ ڈرائیور اور دونوں محافظ گاڑی میں بیٹھ کر گانے سننے لگے اور نسوار کھانے لگے۔
میں آرام سے پانی میں پاؤں ڈالا بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ پہاڑ، یہ ندی، ایسا جغرافیہ اس دنیا میں جا بجا بکھرا ہوا ہے پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کہیں تو لوگ اس جغرافیے کو جنت بنا لیتے ہیں اور کہیں لوگ اسی جغرافیے کے ساتھ بہت پرآلام زندگی گزارتے ہیں۔
میری سوچ بس یہیں تک پہنچی تھی کہ مجھے کسی گاڑی کی آواز آئی اور اس سے پہلے کہ میں پلٹ کر دیکھوں کہ وہ گاڑی کہاں سے آ رہی تھی، زوردار فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں نے جلدی سے چھلانگ لگا کر اس بڑے پتھر کی آڑ لے لی جس کے اوپر میں اب تک بیٹھا تھا۔ فائرنگ کافی دیر تک جاری رہی۔ میری ہمت نہ تھی کہ میں پتھر سے باہر سر نکال کر دیکھتا کہ کون کس پہ فائرنگ کر رہا تھا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ میں وہیں دبکا بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد آواز سے مجھے اندازہ ہوا کہ ایک گاڑی میرے چھپنے کے مقام کے بالکل قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر قدموں کی چاپ میری طرف بڑھتی معلوم دی۔
'کھڑے ہو جاؤ۔' کسی نے مجھ سے انگریزی میں کہا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک داڑھی والے کلاشنکوف بردار آدمی کو بالکل اپنے سر پہ پایا۔ میں کھڑا ہو گیا۔ جس آدمی نے مجھے کھڑے ہونے کو کہا تھا اس سے دو قدم پیچھے ایک اور شخص میری طرف پستول تانے کھڑا تھا۔
'ہاتھ اوپر کرو۔'
مجھے پھر حکم دیا گیا۔ میں نے جلدی سے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے۔ پستول بردار شخص اپنی جگہ کھڑا رہا جب کہ کلاشنکوف تھامنے والے آدمی نے آگے بڑھ کر میری تلاشی لی۔ میرے بٹوے میں پاکستانی روپوں کے علاوہ چند غیر اہم کاغذات تھے۔ جب کہ میرا پاسپورٹ میرے ہوٹل کے کمرے میں تھا۔ میرا بٹوہ اپنے قابو میں کرنے کے بعد کلاشنکوف بردار شخص نے پشتو میں پستول والے آدمی سے کچھ کہا۔ پستول تانے شخص نے اپنی جیب سے ایک کالی پٹی نکال کر کلاشنکوف والے آدمی کو تھما دی۔ پھر میری آنکھوں پہ وہ پٹی باندھ دی گئی۔ مگر میں اس درمیان میں یہ دیکھ چکا تھا کہ ندی کے کنارے میرا ماتحت ساکت، خون آلود حالت میں پڑا تھا۔ ہماری گاڑی کے شیشے فائرنگ سے ٹوٹ گئے تھے اور دور سے دیکھنے پہ اندر موجود تینوں افراد بھی مردہ حالت میں نظر آتے تھے۔
میری آنکھوں پہ پٹی باندھنے کے بعد مجھے بازو سے پکڑ کر ایک گاڑی میں بٹھایا گیا۔ پھر میری گردن کو پیچھے سے پکڑ کر مجھے زور سے دھکا دیا گیا اور مجھے سر جھکانے کو کہا گیا۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے سر نیچا کیا تو میرے اوپر ایک چادر ڈال دی گئی۔ گاڑی چلنا شروع ہوئی۔ شروع میں تو راستہ ہموار تھا مگر پھر لگا کہ جیسے گاڑی کسے اونچے نیچے راستے پہ آ گئی ہو۔ میں بہت خوفزدہ تھا۔ مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ میرے اغوا کنندگان کون تھے اور مجھ سے کیا چاہتے تھے۔ قریباً آدھ گھنٹہ چلنے کے بعد گاڑی رک گئی۔ مجھے گاڑی سے نکالا گیا اور ایک گھر میں لے جایا گیا۔ مجھے ایک کمرے میں پہنچانے کے بعد رخصت ہوتی آوازوں سے لگا کہ مجھے اغوا کرنے والے کمرہ بند کر کے وہاں سے روانہ ہو رہے تھے۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتے تھے۔
'انتظار کرو۔' ایک آدمی نے مجھ سے انگریزی میں کہا اور پھر کمرے کو باہر سے تالا جڑ دیا گیا۔ وہ لوگ جا چکے تھے۔ میرے ہاتھ آزاد تھے اور میں اپنی آنکھوں سے پٹی اتار سکتا تھا۔ مگر مجھے خوف تھا کہ اگر میں نے پٹی اتاری تو بعد میں میرے اغوا کنندگان میرے اس عمل پہ ناراض ہو کر کہیں مجھ پہ تشدد نہ کریں۔ میں نے ایک طرف سے پٹی کو اٹھا کر کمرے کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ کمرہ اندھیرا میں ڈوبا ہوا تھا اور اگر میں پٹی اتار بھی دیتا تو شاید مجھے کچھ نظر نہ آتا۔
گھنٹے بھر بعد کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایک آدمی نے آگے بڑھ کر میری آنکھوں سے پٹی اتار دی۔ میرے سامنے چار لوگ کھڑے تھے۔ تین اسلحہ بردار تھے جب کہ چوتھا جو بالکل بیچ میں کھڑا تھا غیر مسلح تھا۔ یہ غیر مسلح شخص کوئی اہم آدمی معلوم دیتا تھا کیونکہ باقی تین افراد تکریم سے اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑے تھے۔ غیر مسلح شخص میرے سامنے بیٹھ گیا۔
'تم پیٹر اسٹینزیک ہو نا؟' اس نے مجھ سے رواں انگریزی میں پوچھا۔
میں نے اثبات میں جواب دیا۔
'پیٹر، ہم طالبان کی تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ بلکہ میں ذاتی طور پہ تم سے اس اغوا کے سلسلے میں معافی مانگنا چاہوں گا۔ ہم نے تمھیں اس لیے اغوا کیا ہے کیونکہ پاکستانی فوج نے ہمارے بہت سے بے گناہ ساتھوں کو پکڑ لیا ہے۔ ہم تمھاری رہائی کے بدلے اپنے وہ ساتھی پاکستانی حکومت کی حراست سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ تم بے فکر رہو۔ ہم تمھیں چھوڑ دیں گے۔ بس حکومت پاکستان ہمارے مطالبات مان کر ہمارے ساتھیوں کو آزاد کر دے۔' اس آدمی نے وضاحت سے سمجھایا۔
'لیکن اگر ان لوگوں نے تمھارے مطالبات نہ مانے تو؟' میں نے برملا پوچھا۔
'نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ تم ایک قیمتی آدمی ہو اور ہم جن لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کوئی جرائم پیشہ لوگ نہیں ہیں بلکہ معصوم ہیں۔ اور حکومت کو بھی ان کی معصومیت کا اندازہ ہے۔
آؤ، میرے ساتھ آؤ۔ اب ہم تمھاری ایک ویڈیو بنائیں گے۔'
یہ کہہ کر اس آدمی نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھنے میں میری مدد کی۔ میں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو گیا۔ ہم کمرے سے باہر نکلے تو مجھے اپنے اطراف کا کچھ اندازہ ہوا۔ وہ کسی دیہات میں واقع ایک بڑا گھر معلوم ہوتا تھا۔ گھر کے اطراف پتھروں کی چہار دیواری تھی۔ ویڈیو بنانے کا انتظام پہلے سے موجود تھا۔ مجھے ایک چارپائی پہ بیٹھنے کو کہا گیا جو دیوار کے ساتھ لگی تھی۔ دیوار پہ ایک بینر تھا جس پہ اردو میں کچھ لکھا تھا۔ میرے چارپائی پہ بیٹھنے پہ دو نقاب پوش آدمی میرے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے۔ ان کے ہاتھوں میں خودکار اسلحہ تھا۔ مجھے جلدی جلدی ہدایات دیں گئیں کہ مجھے ویڈیو میں اپنی حکومت سے التجا کرنی تھی کہ وہ میری رہائی کے لیے اغوا کنندگان کے مطالبات مان لے۔
پھر ویڈیو بنانے کا کام شروع ہوا۔ کیمرے کے ساتھ کھڑے آدمی نے مجھ سے جو سوالات پوچھے میں نے ان کے مختصر جوابات دیے۔ میں نے وہی کچھ کہہ دیا جو کہنے کی ہدایات مجھے دی گئیں تھیں۔ ویڈیو بننے کے بعد مجھے واپس اس اندھیرے کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں سے نکال کر مجھے ویڈیو بنانے کے لیے لایا گیا تھا۔ اب کی بار فورا ہی میرے لیے کھانا آ گیا۔ میں نے وہ کھانا زہر مار کیا۔
بس پھر اسی طرح دن گزرتے گئے۔ مجھے کھانا پینا وقت پہ ملتا تھا۔ پہننے کے لیے اضافی کپڑے بھی دیے گئے۔ مجھے میری ضروریات کے لیے کمرے سے نکالا جاتا اور ہر دوسرے دن مجھے نہانے کا موقع بھی دیا جاتا۔
غالبا چھ روز بعد ایک دن مجھے غیر متوقع وقت پہ کمرے سے نکالا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ انہیں میری جگہ تبدیل کرنا تھی۔ میری آنکھوں پہ پٹی باندھ کر مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا گیا اور دو گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک نئی جگہ پہ پہنچا دیا گیا۔ اس نئی جگہ پہ بھی کئی دن گزر گئے۔ میری حفاظت پہ معمور لوگوں میں سے کوئی بھی انگریزی نہیں بولتا تھا۔ تازہ اور تفصیلی معلومات کے لیے مجھے اس شخص کا انتظار کرنا پڑتا تھا جسے سب لوگ شیخ کہہ کر پکارتے تھے۔ شیخ ہی نے مجھے بتایا کہ میری ویڈیو دنیا بھر کے ٹی وی اسٹیشنوں پہ چل رہی تھی۔ شیخ کے بیان کے مطابق میری رہائی کے لیے حکومت پاکستان اور حکومت پولینڈ سے طالبان کے مذاکرات جاری تھے۔ ساٹھ افراد کی ایک فہرست حکومت پاکستان کو فراہم کر دی گئی تھی کہ جیسے ہی ان افراد کو چھوڑا گیا، مجھے بھی رہا کر دیا جائے گا۔
وقت گزرتا گیا اور اپنے محافظوں سے بات چیت کی کوشش میں میری پشتو بہتر ہوتی گئی۔ ان لوگوں کا مجھ پہ اعتماد بڑھتا گیا اور اب مجھے ہر وقت قید میں نہ رکھا جاتا۔ پھر ایک دن میں نے ایک عجیب کام کیا۔ میرے محافظ نماز پڑھ رہے تھے تو میں بھی ان کے پیچھے نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا۔ ایک آدمی جو میری حفاظت کی نظر سے پیچھے موجود تھا اور نماز نہیں پڑھ رہا تھا میری حرکات کو غور سے دیکھتا رہا۔ نماز ختم ہونے کے بعد وہ دیر تک پشتو میں تیز تیز باتیں کرتے رہے۔ جو کچھے مجھے سمجھ میں آیا اس کے حساب سے وہ لوگ میرے نماز پڑھنے پہ بہت خوش ہوئے تھے۔ پھر میں نے یہ معمول بنا لیا کہ میرے محافظ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہو جاتا اور وہی کچھ کرتا جو وہ کرتے۔ ایک دن ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا بھی کہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے نماز پڑھنے میں بہت مزا آتا ہے۔ وہ میرے جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے اس بات کا تذکرہ دوسرے لوگوں سے بھی کیا۔
پریس کانفرینس کے کمرے میں موجود تمام صحافی دم بخود پیٹر کی داستان سن رہے تھے۔ پیٹر بولتا رہا اور یہ مبہوت سنتے رہے۔ کہ پیٹر کا سورہ فاتحہ یاد کرنا اور ایک دن ایک محافظ کے ہاتھوں مسلمان ہو جانا۔ اور پیٹر کا نیا نام ابوالاسلام رکھا جانا۔ اور پھر شیخ کا اس پیش رفت پہ برہم ہونا۔ اور شیخ کا خیال ہونا کہ پیٹر ڈھونگ رچا رہا تھا۔ مگر پیٹر کا ثابت قدمی سے اپنے عمل پہ ڈٹے رہنا۔ اور پھر ایک دن پیٹر کی ایک عجیب ویڈیو بنائی جانا کہ جس میں پیٹر کے سامنے ایک تیز چھری کا لہرایا جانا۔ اور پیٹر کا خوفزدہ ہونا کہ شاید اس کی گردن کاٹنے کا انتظام ہو رہا تھا۔ مگر یہاں تک کی ویڈیو ریکارڈنگ کے بعد کیمرے کا بند ہو جانا۔ اور پھر پیٹر کی زندگی کا اسی طرح اپنے اغوا کنندگان کے ساتھ ان کے رنگ ڈھنگ میں ڈوبے گزارنا۔ اور پھر طالبان کا ابوالاسلام پہ اس قدر اعتماد کرنا کہ ابوالاسلام کے ہاتھ میں ہتھیار دینا اور اسے اپنی جنگی مہمات میں شامل کرنا۔ اور پھر ایک دن طالبان کا ٹریسا سدرلینڈ کو اغوا کر کے ایک کیمپ میں لایا جانا۔ اور پھر دو دن میں ابوالاسلام کا اپنی حکمت عملی طے کرنا اور پھر ایک رات ابوالاسلام کا اپنے طالبان ساتھیوں کو مارنا اور ٹریسا سدرلینڈ کے ساتھ فرار ہو جانا۔
"اور اس طرح ٹریسا اور میں اس وقت آپ کے سامنے موجود ہیں۔" پیٹر نے اپنی بات ختم کی تو تمام صحافی اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔ تالیوں کی گونج تھی کہ دبنے کا نام نہ لیتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭