صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مخدوم

ترتیب : پروفیسر رحمت یوسف زئی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

وہ مر نہیں سکتا ۔ فکر تونسوی

    اچانک میرے ریڈیو سیٹ سے اناؤنسر کی آواز سنائی دی ’’ہندستان کے مشہور انقلابی شاعر اور محبوب عوامی رہنما مخدوم محی الدین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘

    اس سے چند منٹ پہلے ریڈیو سے ایک مسرت انگیز خبر سنائی گئی تھی کہ ہندستان کے مشہور عوام دشمن سنڈیکیٹ اور غیر محبوب رہنماؤں نے اندرا گاندھی کی سوشلسٹ پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

    ایک خبر اتنی اندوہناک دوسری خبر اتنی خوش کن؟ اور دونوں خبروں کے درمیان صرف منٹ کا فاصلہ؟ اور میں سوچنے لگا۔ کیا موت اور زندگی اتنے قریب قریب رہتے ہیں۔ ایک لمحے سوشلزم کا متوالا دنیا سے چل بسا۔ دوسرے لمحے سوشلزم فاتح و کامران ہو کر نکلا۔ یہ کیسی دنیا ہے ؟ جس میں خوب و ناخوب دونوں حقائق بہ یک وقت ٹکراتے رہتے ہیں۔ سچ مانئے مجھے اس بات پر اعتبار تو آ گیا کہ سنڈیکیٹ سوشلزم کے طوفان کی ریلے کی تاب نہ لا کر ضرور پیچھے ہٹ گیا ہو گا لیکن اس خبر پر مجھے پہروں یقین نہ آیا کہ مخدوم محی الدین چل بسا۔ وہ جو عمر بھر سوشلزم کی خاطر لڑتا رہا۔ جوں ہی سوشلزم کے درخت پر بور آنے لگا وہ درخت سے ہی پیٹھ موڑ کر چلا گیا۔

    اور کیا پرائمری کے قاعدے کے اس بوڑھے کا یہ کہنا واقع صحیح ہے۔ جسے پیڑ لگا تے دیکھ کر کسی نے پوچھا تھا ’’بابا تم یہ پیڑ کاہے کو لگا رہے ہو، جب تک اس پر پھل لگیں گے اس وقت تک تم اس دنیا سے کوچ کر چکے ہو گے ؟ اور بوڑھے بابا نے جواب دیا تھا ’’بیٹا‘‘ میں یہ پیڑ اپنے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے لگا رہا ہوں ‘‘ ہاں مخدوم میں شاید اسی بوڑھے بابا کی روح تھی۔ اس نے زندگی بھر سوشلزم کے بوٹے کو سینچا! اسے پانی دیا! اسے حرارت پہنچائی اسے رجعت پسندوں کی زہریلی ہواؤں سے محفوظ رکھا۔ اکسٹھ سال تک وہ اس پیڑ پر پھل لانے کے لیے کڑے سے کڑے مصائب سہتا رہا۔ اس کے لیے قید و بند کے دکھ جھیلے، اس نے غریب محنت کش عوام کے لیے سوشلزم لانے کے لیے اپنی جوانی، اپنی تمناؤں، اپنے علم اور اپنے خلوص کا لہو دیا۔

    اور پھر جب پیڑ کی کونپلیں پھوٹنے لگیں دیش بھر میں سوشلسٹ طاقتوں کے پھریرے لہرانے لگے اور قریب تھا کہ عوام کا صبر اور جدوجہد پھل لاتی۔ نہ جانے مخدوم کے جی میں کیا آئی کہ اس پھل کو سرمایہ داروں کی بجائے عوام کی جھولیوں میں گرتے ہوئے نہ دیکھ سکا اور اس وقت سے پہلے چلا گیا جب اسے جانا نہیں چاہیے تھا، یہ شاید صحیح ہو کہ بہ قول غالب موت کا ایک دن معین ہے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ ایسے لوگوں کے لیے موت کا دن کیوں معین کر دیا جاتا ہے۔ جو روشنی کی مشعل لے کر آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ میں شاید یہ کہہ کر زیادتی نہیں کر رہا ہوں کہ میرے قارئین نے مخدوم محی الدین کا نام کم سنا ہو گا۔ لیکن یہ کہنا بھی مبالغہ ہرگز نہیں ہے کہ آندھراپردیش میں مخدوم کی پوجا کی جاتی تھی۔ گزشتہ سال جب میں حیدرآباد گیا تھا تو حیدرآباد کے رکشا پلر سے لے کر یونی ورسٹی کے اسٹوڈنٹس سے ہوتے ہوئے بڑے بڑے وزیر تک جب مخدوم کا نام لیتے تھے تو احترام و عقیدت سے ان کے سر جھک جاتے تھے۔ کیوں کہ وہ بہ یک وقت مزدور لیڈر بھی تھا، شاعر بھی تھا اور سیاسی لیڈر بھی تھا۔ ہلکے سیاہ رنگ کا، فکر تونسوی کی طرح دبلا پتلا، محبت اور خلوص کا مجسمہ، جس سے بھی بات کرتا تھا اس کا دل بھی موہ لیتا تھا طبیعت میں، لباس میں، بول چال میں نہایت پُر کشش سادگی، حیدرآباد کی کوئی محفل مخدوم کے بغیر نمائندہ محفل نہیں سمجھی جاتی تھی۔

    میں نے بڑے بڑے امیر زادوں کو مخدوم کے سامنے سر عقیدت جھکاتے دیکھا ہے حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی جڑیں ہلانے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود مخدوم کی شخصیت میں ایک طلسم تھا کہ محنت کش طبقہ اس کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا۔ مگر سرمایہ دار طبقہ اس کی سچی اسپرٹ اور عزم صمیم کا احترام کرتا تھا۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظام سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، کیوں کہ اس کے مزاج میں اس کی روح میں وہ تڑپ تھی، جو تیز تر ہو جائے تو سوشلسٹ انقلاب کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔

    اور آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں میرے دماغ میں متواتر کشمکش ہو رہی ہے کہ مخدوم کے انتقال کی خبر جھوٹی ہے یا سچی وہ مر ہی نہیں سکتا تھا، اسے مرنا چاہیے بھی نہیں تھا۔ کیا مرنے کے لیے صرف مخدوم ایسے خادم عشق باقی رہ گئے ہیں ؟ کیا موت نے اسے اٹھانے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ مخدوم ایسے لوگ مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوتے، کیا موت کا انتخاب انتہائی غلط نہیں تھا؟

    میں مخدوم سے کئی بار ملا ہوں اور وہ ہمیشہ مجھے پیارا لگا ہے میں اسے گزشتہ پچیس سال سے جانتا ہوں سب سے پہلے اس سے میرا تعارف ایک شاعر کے طور پر ہوتا تھا۔ جب ہم سب شاعر اور ادیب لوگ انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے مخدوم کا شاعرانہ قلم ہم سب سے پیش پیش تھا۔ اس کی شاعری کا ایک ایک بول عوام کی رگوں میں ہمت اور طاقت کا لہو دوڑا دیتا تھا۔ وہ غلامی کے اندھیرے میں شاعری کی روشن مشعل لے کر آگے بڑھا تھا اور اس وقت کا مجھے اس کی نظم کا ایک مصرعہ جو زبانِ زدِ عام ہو چکا تھا، کبھی نہیں بھولتا کہ:

دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول