صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
مجموعہ نظم شبلی اردو
شبلی نعمانیؒ
ترتیب: سید ظہور الحسن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اظہار و قبول حق
وارثِ عدل پیمبر عمر ابن الخطاب
ہیچ تھی جن کے لئے منزلت تاج و سریر
مجمع عام میں لوگوں سے انہوں نے یہ کہا
مَہر باندھو نہ زیادہ کہ ہے یہ بھی تبذیر
جس قدر تم کو ہو مقدور وہیں تک باندھو
حکم یہ عام ہے سب کو امرا ہوں کہ فقیر
ایک بڑھیا نے وہیں ٹوک کے فورا یہ کہا
تجھ کو کیا حق ہے جو کرتا ہے ایسی تقریر
صاف قرآن میں قنطار کا لفظ آیا ہے
تجھ کو کیا حق ہے کہ اس لفظ کی کر دے تغییر
لاکھ تک بھی ہو تو کہہ سکتے ہیں اس کو قنطار
تھا یہ اک وزن کہ اس وزن کی یہ ہے تعبیر
سرنگوں ہو کے کہا حضرت فاروق نے آہ
میں نہ تھا اس سے جو واقف تو یہ میری تقصیر
٭٭٭
جزر و مد ۔ الہلال کا لب و لہجہ
دیکھ کر حریتِ فکر کا یہ دورِ جدید
سوچتا ہوں کہ یہ آئین خرد ہے کہ نہیں
رہنماؤں کی یہ تحقیر یہ انداز کلام
اس میں کچھ شائبہ رشک و حسد ہے کہ نہیں
اعتراضات کا انبار جو آتا ہے نظر
اس میں کچھ قابل تسلیم و سند ہے کہ نہیں
نکتہ چینی کا یہ انداز یہ آئین سخن
بزم تہذیب میں مستوجب رد ہے کہ نہیں
جس نئی راہ میں ہیں بادیہ پیما یہ لوگ
گو اس جادہ مشکل کا بلد ہے کہ نہیں
شاعروں نے جو نئی بچھائی ہے بساط
اس میں ان پر بھی کہیں سے کوئی زد ہے کہ نہیں
پہلے گر شانِ غلامی تھی تو اب خیرہ سری
اس دوراہے میں کوئی پیچ کی حد ہے کہ نہیں
فیصلہ کرنے سے پہلے میں ذرا دیکھ تو لوں
"جزر" جیسا تھا اسی زور کا "مد" ہے کہ نہیں
٭٭٭