صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ماحولیات اور انسان
ڈاکٹر جاوید احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جنگلات اور ماحولیات
نظام شمسی میں ہمارے سیارے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ صرف اسی پر زندگی اپنی گو نا گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خلا سے کرۂ ارض کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا بڑی حسین نظر آتی ہے کروڑوں سال پہلے جب زندگی نے اس سر زمین پر پہلی انگڑائی لی تھی تو یہ ایسی نہ تھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ انواع و اقسام کے جانور اور پودے جنم لیتے گئے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتے گئے اس وقت فطرت کی گود میں پلنے والا انسان بڑا معصوم اور قطعی بے ضرر تھا۔ فطرت سے اس کا گہرا اور قریبی رشتہ تھا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو وہ بیش بہا عطیہ جان کر استعمال ضرور کرتا تھا مگر اس کے استحصال اور اس نظام میں مداخلت کا خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ ماحول کا ایک لازمی عنصر بن کر زندگی گذارتا تھا۔ گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ، گنگناتے ہوئے جھرنے، شور مچاتے ہوئے آبشار قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت، رنگ برنگے پھول اس کے دن بھر کے جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔
ہندوستان اس معاملے میں خاصا خوش نصیب رہا ہے کہ اس وسیع و عریض ملک کو قدرت نے ان نعائم کے بخشنے میں ذرا زیادہ ہی فیاضی سے کام لیا ہے۔ ابتدا میں انسان نے قدرت کے خزانے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ مادی بھی اور روحانی بھی جنگلات سیر و تفریح اور روحانی تر و تازگی اور تسکین کا سامان ہیں ۔ گہرے گھنے اور خاموش جنگلوں میں انسانوں کو روحانی روشنی اور من کی شانتی ملی، رشیوں منیوں اور گیانیوں نے آبادی سے دور، خاموش فضاؤں میں پناہ لے کر عرفان الہٰی حاصل کیا اور عبادت د ریاضت میں اپنی عمریں گذار دیں ۔ ہمارے قدیم فکر و خیال ، فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے ارتقا و عروج میں جنگل کی پُر سکون فضا کا بڑا ہاتھ ہے غالباً اسی لیے درختوں کا اگانا ، سینچنا اور ان کی پرورش و پرستش کرنا متبرک مانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ جس نے مذہب کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح یہ ہندوستانی تہذیب کا حصّہ بن گئے۔
زمانۂ قدیم کے لوگوں نے قدرتی ماحول سے خوشگوار رابطہ قائم رکھا تھا وہ قدرتی توازن کو بگاڑے بغیر پوری طرح اس سے مستفیض ہوتے تھے مگر وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نقطۂ نظر میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ وہ خود کو دھیرے دھیرے ان نعمتوں کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے لگا اور اس دولت کو بے دریغ خرچ کرنا بلکہ زیادہ صحیح یہ کہنا چاہیے برباد کرنا شروع کیا۔ تہذیب و تمدن کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی رخنہ اندازی میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر جدید سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اسے ایک دوسرے تباہ کن موڑ پر لے گئی۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو شکار کی بہتات دیکھ کر گویا پاگل سے ہو گئے چنانچہ اپنے اس شوق کو خوب پورا کیا۔ ادھر عالمی جنگوں کے چھڑ جانے سے انسانوں کو جنگلات اور جنگلی جانوروں سے زیادہ سابقہ پڑا اور ان کی ہوس ، جھوٹے وقار شکار کے شوق اور معاشی خوشحالی کی لگن نے ان کا جانی دشمن بنا دیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائش گاہیں اور غذا مہیا کرنے اور مختلف اشیائے زندگی کی تیاری کے لیے انسانوں نے جنگلوں کو صاف کرنا شروع کیا۔ یہ جنگل جو بارش برسانے ، زمین کی تخریب کاری کو روکنے ، آکسیجن کی مقدار کو متعین کرنے، فضا کو صاف رکھنے اور فضائی توازن کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار تھے دھیرے دھیرے غائب ہونا شروع ہوئے۔ جنگلی جانوروں کے مسکن تباہ ہوئے اور یہ جانور فرار ہونے پر مجبور ہوئے اس طرح دھیرے دھیرے ان کی نسلیں معدوم ہونے لگیں آج ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا سے چند ایسے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کے قریب ہیں ، ماضی میں جن کے ریوڑ کے ریوڑ فطری ماحول میں قلانچیں بھرتے نظر آتے ہیں ۔ ختم ہو جانے کے خطرے سے دوچار جانوروں میں شیر ، شیر ببر ، چیتا، گینڈا، بارہ سنگھا، تغدار، پہاڑی کوئل ، لالہ تیتر اور جانوروں (بشمول پرندوں کے) اور بے شمار قسموں کے نام لیے جا سکتے ہیں علاوہ ازیں بعض آرائشی اور ادویاتی اہمیت کے حامل پودے بھی اس دنیا سے مٹ جانے کے قریب ہیں اور اگر یہی حال رہا تو ہماری آنے والی نسلوں کو ان کے بارے میں جاننے کے لیے کتابوں کا سہارا لینا پڑے گا جس طرح آج میمتھ، ڈائنا سور وغیرہ کی معلومات کے لیے ہمیں عجائب گھروں اور کتابوں کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے۔
جنگلات کے خاتمہ سے ایک طرف قدرتی توازن برقرار نہ رہ سکا جس سے موسم متاثر ہوئے جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر پڑا۔فضا جو کہ بڑی حد تک پاک صاف ہوا کرتی تھی وہ آلودہ ہوئی ۔ گنجان بستیوں سے گندے پانی اور انسانی فضلہ کے نکاس ،گھڑگھڑاتی مشینوں ، دھواں اگلتی چمنیوں اور حمل و نقل کے ذرائع نے روز افزوں ترقی نے ہوا اور پانی کو آلودہ کیا ۔ انسانی اور صنعتی فاضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسان کو دریا اور سمندر کے علاوہ دوسرا ٹھکانہ نظر نہیں آیا۔ پانی کی آلودگی نے مچھلیوں سمیت بہت سے آبی جانوروں کی نسل کو خطرہ سے قریب کیا ہوا اور پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا۔ اور اس طرح قدرت میں موجود قدرتی غذائی زنجیر متاثر ہوئی۔
برسوں تک جنگلاتی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے بعد انسانوں کو اس کا احساس اس وقت ہوا جب کہ خوداس کی زندگی اس کی معیشت متاثر ہوئی ۔ موسموں کی باقاعدگی متاثر ہوئی ۔ خشک سالی، قحط سالی اور سیلاب عالمی مسئلے بن گئے اور ساری دنیا میں ہاہا کار مچ گئی ۔ اقوام عالم ، ان کی انجمن ، (UNO) اس کے مختلف اداروں ، ایجنسیوں اور مختلف ممالک کی تنظیموں نے جنگل ، جنگلی جانوروں اور ماحول کی بحالی کی طرف توجہ دی ۔ خود ہندوستان بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔
جنگلات کی اہمیت اب ماہرین ماحولیات پر ہی نہیں عام انسانوں پر بھی آشکار ہو چکی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف نبی نوع آدم ہی نہیں خدا کی ساری مخلوقات کا اور جنگلی جانوروں سے راست تعلق ہے بلکہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ سارے جانوروں کی بقا کا انحصار پودوں پر ہے۔ جانوروں میں قوت مطابق پائی جاتی ہے جس کی بدولت یہ موسم اور ماحول کے خلاف اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں تاکہ اپنی نسل کا تحفظ کر سکیں یہ مطابقت ہزاروں برسوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے مگر ان کے برعکس انسان اپنے نمو یافتہ دماغ اور ذہنی صلاحیتوں کی مدد سے ماحول کے خلاف موثر جنگ لڑ سکتا ہے اور اپنے لیے مصنوعی ماحول ترتیب دے سکتا ہے ۔ یہ سہولت جانوروں کو حاصل نہیں لہٰذا انسان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یوں بھی بہ حیثیت اشرف المخلوقات اور اس کائنات میں اعلی و ارفع مقام پر متمکن ہونے کے باعث اس پر اپنے سے کمزور اور کم درجہ کی مخلوقات کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مختلف مذاہب میں بھی پودوں اور جانوروں سے پیار پر زور دیا گیا ہے خصوصاً اسلام میں جانوروں کے ساتھ صلہ رحمی پر بڑے وعدے اور وعیدیں ہیں ۔ ہرے بھرے درخت کی جڑوں اور جانوروں کی بلوں وغیرہ میں پیشاب کرنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح محض شوق کی خاطر جانوروں کی جان لینے کو برا بتلا یا گیا ہے۔
یہ بات خوب ذہن نشین رہے کہ ہر جانور اور پودا اپنے ماحول کا ایک اہم جز ہے اور اس کے ختم ہونے سے دوسروں کا متاثر ہونا بھی ضروری ہے اس میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تخصیص نہیں اس کی مثال سانپ کی دی جا سکتی ہے۔ سانپوں کو بلا سوچے سمجھے مارے جانے سے چوہوں کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یہ چوہے غذائی ذخیرہ اور اس طرح انسانی معیشت کو کھوکھلا کر ڈالتے ہیں اس لیے ہر جانور اور پودے کی اس کے اپنے ماحول میں اہمیت ہے اسی لیے اقبال نے کہا تھا۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
بُرا نہیں کوئی قدرت کے کارخانے میں
جنگلات صرف اپنے قدرتی وسائل اور حسن کی بنا پر ہی نہیں بلکہ زندگی
کی ان مختلف شکلوں اور پہلوؤں کے باعث بھی جو وہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے
ہیں تہذیب اور معیشت کا بیش قیمت سرمایہ ہیں انواع و اقسام کے چرند، پرند
و درند اس کی وسیع اور مشفق گود میں آسودگی اور زندگی پاتے ہیں اور ماحول
کو حسین و خوشگوار بناتے ہیں جنگلی جانوروں کو ان کے اپنے ماحول میں
دیکھنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ یہاں کا سکون خامشی، پاکیزگی اور بے تصنع
ماحول ڈھونڈھنے والے کور وحانیت اور گیان کی دنیا میں لے جاتے ہیں جنگلو ں
کی معاشی اہمیت سے کسے انکار ہے۔ عمارتی لکڑی، ایندھن ، چارہ، جڑی بوٹیاں
، شہد، نیل، گوند، ریزن ، سمور،لاکھ، ربڑ، کوکو، چمڑا وغیرہ جنگلات ہی کے
حاصلات ہیں ۔ فرنیچر ، کاغذ ، دباغت وغیرہ کی صنعتیں خام مال کے لیے ان ہی
پر انحصار کرتی ہیں ۔ اگر جنگل نہ ہوں تو ملک معاشی اعتبار سے کم زور ہو
جائے۔ قسم قسم کے جانوروں کو قدرتی ماحول میں گھومتے پھرتے دیکھنے کا شوق
سیاحوں کو ہمارے ملک میں کھینچ لاتا ہے اس طرح یہ سیاحت کو فروغ دینے اور
بیرونی زر مبادلہ کمانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں پر جنگلات
کیا اثر ڈالتے ہیں یہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے۔ پودوں میں مسلسل چلنے
والے عمل شعاعی ترکیب Photosynthesis کی مدد سے یہ کلوروفل کی
موجودگی میں زمین سے حاصل شدہ پانی اور نمکیات سے سورج کی روشنی میں غذا
تیار کرتے ہیں جس کا بڑا حصّہ جانوروں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔
پودوں کی تیار کردہ غذا کی مقدار سالانہ کروڑوں ٹن تک پہونچ جاتی ہے اگر
درختوں کے کٹنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہمیں ایک خطرناک صورت حال کے
لیے تیار رہنا چاہیے قدرت میں پائی جانے والی دولت جیسے درخت، نمکیات،
معدنیات، کوئلہ، میٹھے پانی کے ذخائر وغیرہ کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا
سکتا ہے۔
(۱) تجدیدی وسائل
(۲) غیر تجدیدی وسائل
قدرتی دولت کی وہ قسم جس کے تصرف کے بعد دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے اس کا شمار تجدیدی قسم میں ہوتا ہے جیسے درخت ، جانور وغیرہ مگر غیر تجدیدی کے ذخائر ختم ہو جائیں تو ان کی تجدید کاری ممکن نہیں لہٰذا ہمیں ہر دو قسم کے وسائل کو بڑی ہوشیاری ، کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا بے دریغ استعمال آنے والی نسلوں کو کہیں ان سے محروم نہ کر دے۔
جنگلی جانور اور پرندوں کی حفاظت کی خاطر ۱۸۸۷ء میں سب سے پہلے قانون وضع کیا گیا۔ پھر مرکزی اور صوبائی سطحوں پر مختلف ترمیمات کی مدد سے انھیں مزید کارگر اور قابل عمل بنانے کی کوششیں کی گئیں ۔ ہمارا صوبہ(مہاراشٹر) بھی اس جانب سے لاتعلق نہیں رہا ثبوت کے طور پر وائلڈ لائف، ایڈوائزری بورڈ، مختلف نیشنل پارک، مامن(جانوروں کی پناہ گاہیں ) برڈ سنکوچری، بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی وغیرہ کے قیام کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر کو ڈاکٹر سالم علی، ڈاکٹر پنڈت جیسے ماہرین کا تعاون حاصل رہا ہے۔ اس طرح مہاراشٹر ماحولیات کے میدان میں دیگر ریاستوں سے پیچھے نہیں ہے۔
آج علم ماحول پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اسے نئی تعلیمی پالیسی کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے تاکہ نئی نسل کو ابتدا ہی سے اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے ۔ عوام کو بھی مختلف ذرائع ابلاغ و ترسیل جیسے کتابوں ، اشتہاروں نمائشوں ، فلموں ، میلوں وغیرہ کے انعقاد سے ماحول کی اہمیت سے واقف کروایا جا سکتا ہے۔ عوام کی معمولی سی ہلچل بھی ’’چپکو تحریک‘‘ کی سی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ عوام کو سماجی شجر کاری کی طرف مختلف طریقوں سے راغب کیا جا سکتا ہے لوگوں کو جنگلاتی دولت کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے کی تعلیم دی جا سکتی ہے تاکہ وہ کاٹے گئے ہر درخت کے بدلے دو درخت اُگائیں ۔ مقامی حالات اور تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اس مہم کو جاری رکھا جا سکتا ہے عام لوگ اگر ایک بار جنگلات اور جانور وں کی اہمیت کو سمجھ لیں تو پھر یہ کام کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا۔ انسانی عقل و دانش کا تقاضہ ہے کہ انسان خود بھی اس ماحول کا ایک حصّہ بن جائے اور اپنی فہم اور فراست کو استعمال کرتے ہوئے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنائے۔ جنگلی جانوروں اور جنگلوں کی بربادی خود انسان کی بربادی بلکہ اس کی بقا کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے اس لیے اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ اب بھی اس سلسلے میں ٹھوس قدم اٹھائے تاکہ صورتِ حال مزید خراب ہونے سے بچ جائے۔
٭٭٭