صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اردوادب میں مہاراشٹرکی خواتین کاحصہ
۔ ۔ ۔ ۱۹۶۰ء کے بعد۔ ۔ ۔
محقق:مشتاق علی
جمع و ترتیب :عبد الباسط قاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
عصمت چغتائی
عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں بڑے بڑے مرداہل قلم کی آنکھیں ان کے آگے جھک گئیں۔ وہ ۲۱اگست ۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے ایک شہربدایون میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایون کی ایک گرلس کالج میں ملازمت اختیارکی۔ وہ ۱۹۴۲ء میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے بمبئی پہنچیں۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ وہ ہمیشہ فلمی، صحافتی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ ان کا انتقال ۲۴اکتوبر ۱۹۹۱ء کوہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے ایک کری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔
عصمت چغتائی بڑی آزاد خیال اور عجیب و غریب خاتون تھیں۔ ان کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے اور ان کی شخصیت کی تصویر کشی کی ہے یہاں ان کے مضامین سے چند اہم اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی شخصیت و فکر جلوہ گر ہو سکے۔ شمس کنول اپنے ایک مضمون:عصمت، سماج کی محتسب میں لکھتے ہیں :
’’میں اور شہناز۔ ۔ ۔ ان کے مکان پر پہنچے تو فلیٹ کا دروازہ ملازمہ نے کھولا۔ چند لمحے ہم بیٹھے ہی تھے کہ دوسرے کمرے سے عصمت آپا ہنستی، چیختی، پیار بھری گالیاں دیتی ہوئی سامنے آئیں۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ ارے وہ میرا نواسہ۔ بڑا بے ایمانٹا ہے۔ تاش میں مجھے ہرانا چاہتا ہے۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیا۔ اندر کمرے میں پلٹ گئیں۔ دراصل وہ صرف پیٹی کوٹ اور بلاؤز پہنے ہوئے تھیں۔ ۔ ۔ ساڑی لپیٹ کر واپس آئیں۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ تھا دوسرے ہاتھ میں لائٹر۔ ‘‘
اسی مضمون میں شاہد لطیف کی موت پر عصمت کے احساسات کو یوں نمایاں کیا ہے:
’’شاہد لطیف کی میت(۱۹۶۷ء)میں شاہد کے سبھی احباب شریک ہوئے۔ جو مجبوری سے اس دن شریک نہ ہو سکے وہ بعدمیں تعزیت کے لیے عصمت کے گھر پہنچے۔ بعدمیں جانے والوں میں ڈاکٹر صفدرآہ بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے چند تعزیتی جملے کہے اور مرنے والے کو یادکیا۔
’’یہ تو دنیا ہے ڈاکٹر صاحب۔ یہاں آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ جیسے اس ڈرائنگ روم کا فرنیچر، یہ صوفہ ٹوٹ جائے گا۔ ہم اسے باہر نکال دیں گے اور پھر اس خالی جگہ کو کوئی دوسرا صوفہ پر کر دے گا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ یہ عصمت کا جواب تھا۔ ‘‘
مشہور افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک اپنے ایک مضمون:عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں میں ساحر لدھیانوی کے گھر فراق کے اعزاز میں دئے گئے ایک ڈنر کا ذکر کرتے ہوئے عصمت کے کردار کی یہ تصویر کھینچتے ہیں۔ اس مجلس میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف بھی تھے:
’’سبھی مرد عورتیں پی رہے تھے۔ عصمت نے ایک آدھ پیگ پینے کے بعد ہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے یہ آواز بلند کہا۔ ۔ ۔ ’’میر اجی چاہتا ہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں ، لیکن شاہد زہر کھا لے گا‘‘۔ ۔ ۔ مجھے اس ریمارک سے خاصہ دھکا لگا تھا۔ کوئی عورت پی کر بھی ایسا ریمارک نہیں کس سکتی۔ جب تک کہ اپنے شوہر کی بے راہ روی یا کمزوری سے اس کے دماغ میں یہ خیال نہ پیدا ہوا ہو یا پھر شوہر کے علاوہ وہ کسی اور مرد کونہ چاہتی ہو۔ ‘‘
عصمت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والوں میں قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ انھوں نے عصمت کی وفات سے متاثر ہو کر لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں عصمت کی آزاد خیالی کو اس واقعہ کی روشنی میں پیش کیا ہے:
’’ان کی بڑی بیٹی نے بنگلور میں سول میریج کر لی اور اطلاع دی کہ اس کی ساس سسر مذہبی رسوم کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں آپ بھی آ جائیے۔ بنگلور سے واپس آ کے عصمت آپا نے اپنے خاص انداز میں نہایت محظوظ ہوتے ہوئے سنایا کہ صبح صبح میں اٹھ گئی۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ ان کا پنڈت آگیا۔ اب وہ بے چارہ ایک کمرے میں پریشان بیٹھا تھا۔ کہنے لگا مہورت نکلی جا رہی ہے اور یہاں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں پوجا کیسے شروع کروں۔ میں نے کہا اے پنڈت جی آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ میں پوجا شروع کروائے دیتی ہوں۔ بس میں بیٹھ گئی اور میں نے پوجا شروع کروا دی۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا بھلا اپ نے پوجا کس طرح کروائی۔ کہنے لگیں۔ اے اس میں کیا تھا۔ پنڈت نے کہا۔ میں منتر پڑھتا ہوں آگ میں تھوڑے تھوڑے چاول پھینکتے جائیے۔ میں چاول پھینکتی گئی۔ اتنے میں گھر کے اور لوگ بھی آ گئے۔ بس۔ ‘‘
یہ ہے عصمت چغتائی کی سیرت و کردار کا رس اور ان کی فکر کا محور۔ وہ بہت آزاد خیال تھیں۔ وہ تاش دلچسپی سے کھیلتی اور لگاتار سگریٹ پیتی تھیں۔ انھیں مے نوشی کا بھی شوق تھا۔ ان کے سینے میں مردوں یا اپنے حریفوں سے انتقام کی آگ ہمیشہ جلتی رہی۔ جس سے نفرت ہوئی اس کو کبھی معاف نہیں کیا۔ دراصل انھوں نے اپنے بچپن ہی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ اچھی سے اچھی بیٹی نالائق سے نالائق بیٹے سے کم ترہی سمجھی جاتی ہے چنانچہ ان کی کسی بھائی سے کبھی نہیں نبھی۔ ہر بھائی سے لڑائی جھگڑے میں ہی ان کا بچپن گزرا۔ بچپن کا یہ نقش ان کے بڑھاپے تک پتھر کی لکیر بنا رہا اور مردوں سے بیر رکھنا ان کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ وہ انتقام کی اسی آگ میں ہمیشہ جلتی رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد خود جل کر راکھ ہو گئیں۔ عصمت چغتائی کی سوچ کا تانا بانا انھی حادثات و واقعات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں قلم سنبھالا اور اپنے باغی لب و لہجے سے مردوں کی صفوں میں ہل چل مچا دی اور انھیں یہ یقین دلانے کی بے باکانہ کوشش کی کہ عورت اپنی محدودیت کے باوجود لامحدود ہے اور مرد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کی معلومات کا دائرہ گھرکی قید سے بہت آگے ہے۔ اگر اسے موقع ملے تو وہ مدرسے زیادہ اس کا اظہار کر سکتی ہے۔ جب عصمت نے بے خوف و بے باک ہو کر اس فکر کو عام کرنا شروع کیا تو ادبی حلقوں میں زلزلہ آگیا۔ لوگ انھیں جلی کٹی سنانے لگے۔ ان کی کہانیاں پڑھ کر لڑکیاں شرم سے منھ چھپانے لگیں مرد پانی پانی ہونے لگے۔ ان کے فکر و فن کا تجزیہ کرتے ہوئے ظ انصاری نے جو رس نچوڑا ہے وہ حرف آخر ہے۔ دیکھئے:
’’عصمت چغتائی صرف نام کی نہیں مزاج کی بھی تھوڑی بہت چغتائی ہیں۔ بے محابا کہتی ہیں۔ بے دریغ لکھتی ہیں۔ بے تحاشہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ سماجی ریاکاری پر، ظلم اور فریب کی جھلملی پر، جس طرح چغتائی لوگ اب سے دور پار، فصیل بند شہروں کو نرغے میں لے کر اندھا دھند دھاوا بولتے ہوں گے، اسی طرح عصمت چغتائی نے حصار بند آنگنوں ، محفوظ دالانوں ، موٹے لحافوں ، غلافوں میں دبی دبائی زندگی پر ہلہ بول کر افسانے اور ناول کا میدان مارا اور بڑے بڑے مرد اہل قلم کی آنکھیں ان کے سامنے جھک گئیں۔ ‘‘
عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرۂ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ اپنے افسانوں کے مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں شائع کروائے۔ دھانی بانکپن اور شیطان جیسے معروف ڈرامے قلمبند کیے اور تاویل، سودائی اور درزی جیسے بے مثال خاکے لکھے۔ ان کی یہ وہ تخلیقات ہیں جو ناول، افسانہ، ڈرامہ اور خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔
عصمت کی ناول نگاری کا آغاز ضدی سے ہوا جو اپنے مواد اور تلخ لہجے کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس میں ایک ایسے جذباتی نوجوان کی عکاسی کی گئی ہے جو مروجہ طبقاتی نظام میں محبت کی آزادی سے محروم رہ کر ضدی بن جاتا ہے۔ یہ ضدی نوجوان پورن ایک نچلے طبقے کی لڑکی آشا کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن ہمارا معاشرتی نظام اس محبت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے۔ جب پورن اونیچ نیچ کے اس فرق کو دیکھتا ہے تو وہ خود کو بے دست و پا محسوس کرتا ہے۔ اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کو گلے لگا لیتا ہے۔
اس ناول میں پورن دراصل نئے دور کے تعلیم یافتہ اور جذباتی نوجوانوں کا ایک ایسا نمائندہ ہے جو سماج کی فرسودہ روایات سے نفرت تو کرتا ہے لیکن اس قدر مجبور بھی ہے کہ وہ اسے شکست دینے سے قاصر رہتا ہے۔ اگر اس ناول میں پلاٹ کی عمومیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو زبان و بیان کی خوبی اور طنز کے تیز نشتروں کے لحاظ سے یہ بے انتہا کامیاب ہے۔
عصمت کا ناول ٹیڑھی لکیر ان کے فنکارانہ خلوص کا آئینہ دار ہے۔ یہ اپنے طنزیہ اسلوب کی وجہ سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں عصمت نے صرف مشاہدات ہی نہیں پیش کیے ہیں بلکہ اس سچائی کو بھی ظاہر کیا ہے کہ کس طرح ماحول سے فرد کی زندگی میں آہستہ آہستہ انقلاب رونما ہوتا ہے اور اس انقلاب کے نتیجے میں کس طرح شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔
اس ناول میں انھوں نے مسلم متوسط خاندانوں کی پردہ نشیں لڑکیوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے رونما ہونے والے مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان خاندانوں میں کون کون سی معاشرتی برائیاں عام ہیں انھیں واضح اور طنزیہ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس سے ان کا مقصد ان خاندانوں کی تذلیل و تضحیک نہیں ہے بلکہ اصلاح و درستی اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت ہے۔ اس کے پیش لفظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ٹیڑھی لکیر دراصل عصمت کی آپ بیتی ہے:
’’کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ٹیڑھی لکیر دراصل عصمت کی آپ بیتی ہے۔ مجھے خود یہ آپ بیتی لگتی ہے۔ میں نے اس ناول کو لکھتے وقت بہت کچھ محسوس کیا ہے۔ میں نے سخن کے دل میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ آنسو بہائے ہیں اور قہقہے لگائے ہیں۔ اس کی کمزوریوں سے جل بھی اٹھی ہوں۔ اس کی ہمت کی داد بھی دی ہے۔ اس کی نادانیوں پر رحم بھی آیا ہے اور شرارتوں پر پیار بھی آیا ہے۔ اس کے عشق و محبت کے کارناموں پر چٹخارے بھی لیے ہیں اور حسرتوں پر دکھ بھی ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر میں کہوں کہ یہ میری آپ بیتی ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ تو نہیں۔ ‘‘
ناقدین نے ٹیڑھی لکیر کو اردو ادب کا ایک شاہکار ناول قرار دیا ہے۔ اس کی ہیروئن سمن اردو کے قدیم ناولوں کی ہیروئنوں سے قطعی مختلف ہے۔ وہ جدید دور کی عورت ہے جس کے پیش نظر جدید مسائل ہیں۔
عصمت کے دیگر اہم ناولوں میں معصومہ، سودائی، عجیب آدمی، دل کی دنیا اور ایک قطرۂ خون بھی شامل ہے۔ معصومہ بمبئی کے ماحول پر لکھا گیا ہے۔ اس میں فلمی دنیا اور سرمائے داروں کی سچی تصویر کھینچی گئی ہے۔ سودائی کا شمار کمرشیل ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہ ناول وجود میں آنے سے پہلے بزدل کے عنوان سے پردے پر فلمایا جا چکا تھا۔ بعد کو اسے ناول کا لباس دیا گیا۔ عجیب آدمی بھی فلمی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ دل کی دنیا ایک سماجی ناول ہے۔ اس میں خاندان اور معاشرے کے قدیم رسم و رواج میں جکڑی ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو شوہر کی بے التفاتی کا شکار ہو جاتی ہے۔
عصمت نے ایک قطرۂ خون اپنے مخصوص انداز، مزاج اور لب و لہجے سے ذرا ہٹ کر لکھا ہے۔ اس کا موضوع واقعہ کربلا ہے جو تاریخ اسلام کا ایک نمایاں باپ ہے۔ اس کتاب پر ڈاکٹر ظ انصاری نے کتاب شناسی میں تفصیل سے تبصرہ کیا ہے اور اس میں موجود تاریخی غلطیوں اور کمزوریوں کو واضح کیا ہے۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں :
’’ان تمام کوتاہیوں کے باوجود ایک قطرۂ خون ان پڑھنے والوں کو اپنے اندر جذب کر لینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے جو رسالت مآب سے لے کر سید سجاد تک ستر سال کے دوران اہم مذہبی روایات کو ایک تسلسل کے ساتھ کہانی کی طرح پڑھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
ناول نگاری کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عصمت کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔ انھوں نے زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کے مسائل اور ان کی نفسیات پر لکھا جس پر انھیں گہرا عبور تھا۔ ان کے زیادہ تر افسانے ایک ایسے المیے پر ختم ہوتے ہیں جو حقیقت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو افسانے کو سچ بولنا سکھایا اور عورت کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانی کا موضوع بنایا۔ چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں ، سونے کا انڈا، چھوئی موئی، بھول بھلیاں ، ساس، لحاف، بے کار، کلو کی ماں ، اف یہ بچے، چارپائی، جھوٹی تھالی، میرا بچہ، ڈائن، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، تل، لال چیونٹے، پیشہ ور، ننھی کی نانی ان کے مشہور اور یادگار افسانے ہیں۔ ان میں انھوں نے ایک مخصوص قسم کی فضا تخلیق کی ہے۔ یہ فضا گھر اور گھریلو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں زیادہ تر افسانوں میں عورت کا تصور اس کی بدنصیبی سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس کی پوری زندگی تلخیوں اور پریشانیوں میں گھری معلوم ہوتی ہے اور آخر میں وہ ان دکھوں کی تاب نہ لا کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ عصمت کے زیادہ تر افسانے ایک خاص طبقے اور خصوصی طور پر عورت کے گھریلو ا ور جنسی تعلقات کے اردگرد گھومتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں یکسانیت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے جو قاری کے لیے کبھی کبھی اکتاہٹ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
عصمت صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ ان کے افسانے:جڑیں ، کافر، دو ہاتھ اور ہندوستان چھوڑ دو ان کے گہرے تاریخی اور معاشرتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے دو ہاتھ میں محنت کس طبقے کی اہمیت اجاگر کیا ہے۔ دراصل عصمت کا دور ترقی پسندی کا دور تھا جس میں سماجی نا انصافیوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ دیا گیا۔ یوں انھوں نے سماج کے ہر مسئلے اور طبقے پر لکھا لیکن یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عورت کی نفسیات اور جنس کے موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کے حامل تھے۔
عصمت ناول نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈرامہ نگار بھی تھیں انھوں نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری پر زور دیا۔ ان کے ڈراموں میں ایک بات اور نیلی رگیں بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب بھی ان کے اچھے ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے کردار ہیں۔ ان کی زبان صاف، سادہ اور دل کش ہے۔
عصمت کے تحریر کیے ہوئے تاویل، سودائی اور دوزخی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خاکوں میں دوزخی کو ادبی دنیا میں کافی مقبولیت ملی۔ جب یہ ماہنامہ ساقی (دہلی) میں شائع ہوا تو منٹو کی بہن نے کہا کہ ’’سعادت یہ عصمت کیسی بے ہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت منٹو نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کروتو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔ منٹو نے دوزخی کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا ہے:
’’شاہجہاں نے اپنی محبوبہ کی یاد قلم کرنے کے لیے تاج محل بنوایا۔ عصمت نے اپنے محبوب بھائی کی یاد میں دوزخی لکھا۔ شاہجہاں نے دوسروں سے پتھر اٹھوائے، انھیں ترشوایا اور اپنی محبوبہ کی لاش پر ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کروائی۔ عصمت نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے خواہرانہ جذبات چن چن کر ایک اونچا مچان تیار کیا اور اس پر نرم نرم ہاتھوں سے اپنے بھائی کی نعش رکھ دی۔ تاج محل شاہجہاں کی محبت کا برہنہ اشتہار معلوم ہوتا ہے لیکن دوزخی عصمت کی محبت کا نہایت ہی لطیف اور حسین اشارہ ہے۔ وہ جنت جواس مضمون میں آباد ہے، عنوان اس کا اشتہار نہیں دیتا۔ ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوزخی میں عصمت کے افسانوی فن کی تمام خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں۔ اگر عصمت ایک بھی افسانہ نہ لکھتی تو یہ خاکہ انھیں اردو ادب کی تاریخ میں زندۂ جاوید بنانے کے لیے کافی تھا۔
بلاشبہ عصمت کی تحریریں موضوعات، اسلوب، کردار اور لب و لہجے کے اعتبار سے تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہار کا پہلا معتبر تجربہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تانیثیت کی پہلی اور مستند دستاویزات ہیں۔
***