صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
محامد
خالد علیم
(مجموعۂ نعت سیدِؐ عالمیاں)
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نعتیہ قصیدہ
(تمہیدی غزل)
دیتا ہوا رات کو درس فنا آفتابصبح جمال یقیں لے کے چلا آفتاب
شرق سے نکلا ادھر لے کے نوید سحر
محو طواف حرم شب کو رہا آفتاب
دیکھ اے چشم فلک وادی فاران سے
روشنیوں کے جلوس لے کے اٹھا آفتاب
تیرگی ذہن میں نورفشاں ہے سحر
دل کے دریچے سے ہے چہرہ کشا آفتاب
غم کے اندھیروں میں ہے جلوہ نما داغ عشق
چشم جہاں سے کبھی چھپ نہ سکا آفتاب
اُس کے اجالوں سے ہے شمس و قمر کو فروغ
اُس کی کرن ماہتاب اُس کی ضیا آفتاب
دل کے شبستاں میں ہے اُس کی ضیاؤں سے نور
سقف تمنا پہ ہے جلوہ نما آفتاب
خالد آشفتہ کر اُس کا قصیدہ رقم
نوکِ قلم سے تراش ایک نیا آفتاب
***
پردۂ آفاق میں ڈوب گیا آفتاب
ہونے لگا خیمہ زن شب کا طلسمِ حجاب
چلنے لگی دہر میں بادِ سمومِ فریب
پھیل گئی چارسو تیرگیِ اضطراب
بڑھنے لگی ہر طرف قہر و ہلاکت کی لہر
گرنے لگی جبر کی برق سراپا عتاب
گل کدۂ زیست تھا دشت سکوت ضمیر
خامش و بے صوت و رنگ مثل شبستانِ غاب
عقل و خرد پر محیط وہم و گماں کا فسوں
حسن نظر بھی سراب نور سحر بھی سراب
کبر و رعونت تمام قلب و نظر کے امام
ذہن بشر پر مدام مرگ خودی کا سحاب
بادیہ گردان دہر جن کے لیے صبح و شام
کذب و دغا ہم سفر جور و جفا ہم رکاب
جبر غلامی میں تھا ہر بشر ناتواں
اور ضعیفوں پہ تھا ظلم و ستم بے حساب
بندہ مجبور پر یہ ستم ناروا
ایک مسلسل سزا ایک سراپا عذاب
سینہ آدم میں تھی آتش ایمان سرد
نار جہنم کا تھا بولہبی التہاب
فتنہ گری سو بہ سو راہزنی کو بہ کو
وائے جہان خراب! وائے جہان خراب!
ظلمت اوہام میں قافلہ بے درا
ڈھونڈ رہا تھا ابھی خیمہ شب کی طناب
تیرگی کفر تھی تا بہ اُفق سرگراں
نور ہدایت ادھر کھانے لگا پیچ و تاب
ہونے لگی یک بیک شب کی ردا تار تار
بطن حرا سے اٹھی اک سحر انقلاب
ہونے لگا چارسو روشنیوں کا عمل
اور اُترنے لگا چہرۂ شب کا نقاب
تیرہ و تاریک رات ڈھلنے لگی نور میں
لیلی شب کا غرور ہونے لگا آب آب
فرش زمیں پر بچھی کاہکشاں کی بساط
خاک عرب بن گئی آئنہ ماہتاب
ہونے لگا ضو فشاں ذرہ ہر رہ گزر
محو طرب ہو گئے چرخ پہ نجم و شہاب
عرش ہوا نغمہ خواں جھکنے لگا آسماں
اور زمین حجاز ہو گئی گردوں رکاب
غنچے لہکنے لگے دشت مہکنے لگے
اور نکھرنے لگا رنگ قبائے گلاب
گنگ زبانوں سے بھی نغمے ابلنے لگے
اور مچلنے لگا مردہ رگوں میں شباب
کس کا ہوا ہے وردو کون ہوا جلوہ گر
اپنے جلو میں لیے مطلع صد آفتاب
دشت جہاں میں ہوا اُس کا قدم شب چراغ
جس کو خدا نے دیا ہر دو جہاں کا نصاب
***