صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مسلم پرسنل لا

مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

مسلم پرسنل لا انگریزوں کے عہد میں

ہندوستان میں جب انگریزوں کا غلبہ اور اقتدار ہوا تو قانون اسلامی کو اس کی محدود شکل میں جاری رکھا گیا اور فیصلے کے لئے نظام قضاء باقی رکھا گیا۔ بعد کو یہ مسائل بھی عام عدالتوں کے حوالہ کر دئے گئے لیکن مسلمانوں کے معاملات میں قانون شریعت کو جاری اور باقی رکھا گیا۔ انڈین شریعت ایکٹ ۱۹۳۷ء؁ کی دفعہ ۲ میں اس کی تصریح کر دی گئی کہ:

شریعت ایکٹ کے نفاذ کے بعد کوئی دوسرا رواج یا دستور جو اس وقت تک عمل میں رہا ہو۔ شریعت کے خلاف ان معاملات میں جو مسلم پرسنل لا کے مطابق مسلمانوں میں نافذ کئے جانے چاہئیں، لاگو نہیں ہو گا۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ اگرچہ مسلم پرسنل لا اپنے عمومی مفہوم کے اعتبار سے ہر معاملہ میں وہی ہے جس کا قرآن میں اجمالی تذکرہ ہے اور جس کی وضاحت احادیث کرتی ہیں۔ یا جن کے فیصلے اجماع اور قیاس سے ائمہ اربعہ نے کئے ہیں۔ یا شیعہ حضرات کے نقطۂ نظر سے ان کے ائمہ مطہرین نے کئے ہیں مگر یہ وسیع مفہوم ہندوستان میں نہیں لیا گیا۔ بلکہ مسلم پرسنل لا کو وراثت، نکاح، خلع، (طلاق) ایلاء، ظہار، فسخ نکاح، نفقہ، مہر، حضانت، اوقاف میں محدود کر دیا گیا۔ چنانچہ محمڈن لا مصنفہ بابو رام ورما (تیسرا ایڈیشن) کی پہلی دفعہ حسب ذیل ہے:
دفعہ۱:

’’ہندوستان میں محمڈن لا صرف ان ہی معاملات میں مسلمانوں پر نافذ ہو گا جن کے لئے دستور ہند کے آرٹیکل نمبر ۲۲۵ میں کہا گیا ہے یا ان معاملات میں جن کے بارے میں کسی قانون کے ذریعہ ہدایت کی گئی ہے یا اجازت دی گئی ہے‘‘۔

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کی دفعہ ۳۲۳ کہتی ہے کہ:

’’جب فریقین ایک ہی پرسنل لا کے ماتحت ہوں تو وراثت اور معاہدہ کے مقدمہ میں ان کی شنوائی ان کے پرسنل لا کے مطابق ہو گی۔ اور فریقین کے پرسنل لا مختلف ہوں تو مقدمہ کا فیصلہ مدعا علیہ کے پرسنل لا کے مطابق ہو گا۔‘‘

اس طور پر غیر مسلموں کو ان کے مدعا علیہم رہنے کی حالت میں ان معاملات میں قانونِ شریعت سے بری کر دیا گیا۔ اس دفعہ میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ یہ حقوق قانون سے بدلے بھی جا سکتے ہیں۔ چنانچہ قانون معاہدہ (Indian Contract Act) نے معاہدات کو مسلم پرسنل لا سے خارج کر دیا اور اب معاہدات میں خواہ فریقین مسلم ہی کیوں نہ ہوں انڈین کنٹریکٹ ایکٹ ہی نافذ کیا جائے گا اسی طرح انڈین انٹرسٹ ایکٹ (Indian Interest Act) کے ذریعہ سودی لین دین کو مسلم پرسنل لا کی حدود سے باہر کر دیا گیا۔

ابتداء ً  مسلم پرسنل لا کا تصور بہت مبہم تھا۔ بنگال آگرہ،آسام سول کورٹس ایکٹ ۱۸۸۷؁ء میں کہا گیا کہ:

’’کسی متضاد قانون کی غیر موجودگی کی صورت میں وراثت، نکاح، شادی کے تمام معاملات محمڈن لا کے مطابق فیصل ہوں گے۔ بشرطیکہ فریقین مسلمان ہوں‘‘۔

ظاہر ہے کہ یہ مبہم تصور انتشار کا باعث بنا اور مختلف ہائی کورٹس نے مختلف رائیں ظاہر کیں۔ اسی لئے انڈین شریعت ایپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷؁ء لایا گیا جس کی رو سے یہ واضح ہو گیا کہ مسلم پرسنل لا کی حدود میں صرف وراثت، نکاح، خلع، فسخ، طلاق، ایلاء، ظہار، مبارات، حق شفعہ، خورش پوشش، مہر، حضانت، ہبہ اور اوقاف شامل ہیں۔ اسی لئے ثبوت نسب کے احکام قانون شریعت کے تحت داخل نہیں رہے بلکہ قانون شہادت کے مطابق قرار دئے گئے۔ چنانچہ قانون شہادت کی دفعہ ۱۱۲؎ کی رو سے اگر شوہر کے انتقال کے ۲۸۰ دنوں بعد کوئی بچہ پیدا ہوا تو وہ ثابت النسب نہیں ہو گا۔ حالانکہ فقہ حنفی کی رو سے حمل کی اکثر مدت دو برس ہے اس لئے بعد وفات شوہر کسی عورت کے اگر دو برس کے اندر کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا نسب شوہر متوفیٰ سے ثابت تسلیم کیا جائے گا۔

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے ضمیمہ ۷ میں مسلم پرسنل لا کی جو فہرست دی گئی ہے اس میں بلوغ و عدم بلوغ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ دستور ہند کی دفعہ ۲۲۵؎ ان تمام قوانین کو نافذ قرار دیتی ہے جو دستور کے نفاذ سے پہلے سے نافذ چلے آرہے ہیں۔ نتیجۃً گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء اور انڈین شریعت ایکٹ ۱۹۳۷ء اب بھی مسلمانوں پر نافذ ہیں اور اس وقت تک نافذ تصور کئے جائیں گے جب تک صوبائی دستور ساز اسمبلیاں یا پارلیمنٹ اپنے حدود اختیارات کے اندر ان میں سے کسی دفعہ کو رد نہ کر دے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول