صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
میرا حسین تیرا حسین
مختلف شعراء
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
سلام۔ جوش ملیح آبادی
اِنقلابِ تُند خُو جس وقت اُٹھائے گا نظر
کَروٹیں لے گی زمیں، ہوگا فلک زیر و زبر
کانپ کر ہونٹوں پر آ جائے گی رُوحِ بحر و بر
وقت کا پیرانہ سالی سے بھڑک اُٹھے گا سر
موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا
ہاں مگر نامِ حسین علیہ السلام ابن علیؓ رہ جائے گا
کون؟ جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا، وہ حسینؓ
سَر کٹا کر بھی نہ جس نے سر جھکایا ، وہ حسینؓ
جس نے مر کر غیرتِ حق کو جِلایا، وہ حسینؓ
موت کا منہ دیکھ کر جو مُسکرایا، وہ حسینؓ
کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر
ہنس دیا جو تیغِ قاتل کی رَوانی دیکھ کر
ہاں نگاہِ غور سے دیکھ اے گروہِ مومنیں!
جا رہا ہے کربلا خیرالبشر کا جانشیں
آسماں ہے لرزہ بر اندام، جنبش میں زمیں
فرق پر ہے سایہ افگن شہپرِ روح الامیں
اے شگوفو،السَّلام، اے خفتہ کلیو الوداع
اے مدینے کی نظر افروز گلیو الوداع
ہوشیار، اے ساکت و خاموش کُوفے! ہوشیار
آرہے ہیں دیکھ وہ اعدا قطار اندر قطار
ہونے والی ہے کشاکش درمیانِ نور و نار
اپنے وعدوں پر پہاڑوں کی طرح رہ استوار
صبح قبضہ کر کے رہتی ہے اندھیری رات پر
جو بہادر ہیں، اَڑے رہتے ہیں اپنی بات پر
لُو کے جھکّڑ چل رہے ہیں، غیظ میں ہے آفتاب
سُرخ ذرّوں کا سمندر کھا رہا ہے پیچ و تاب
تشنگی، گَرمی، تلاطُم، آگ، دہشت، اضطراب
کیوں مسلمانو! یہ منزل، اور آلِ بُو تراب ؓ
کس خطا پر تم نے بدلے ان سے گن گن کے لیئے
فاطمہؓ نے ان کو پالا تھا اسی دن کے لیئے؟
لو وہ مقتل کا سَماں ہے، وہ حریفوں کی قطار
بہ رہی ہے نہر لو وہ سامنے بیگانہ وار
وہ ہوا اسلام کا سرتاج مَرکب پر سَوار
دھوپ میں وہ برق سی چمکی، وہ نکلی ذوالفقار
آ گئی رَن میں اجل، تیغ دو دَم تولے ہوئے
جانبِ اعدا بڑھا دوزخ وہ منہ کھولے ہوئے
دُور تک ہلنے لگی گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمیں
کوہ تھرّانے لگے، تیورا گئی فوجِ لعین
زد پر آ کر کوئی بچ جائے، نہیں، ممکن نہیں
لُو حسین ابن علیؓ نے وہ چڑھا لی آستیں
آستیں چڑھتے ہی خونِ ہاشمی گرما گیا
ناخدا! ہشیار، دریا میں تلاطُم آگیا
ظُہر کے ہنگام، کچھ جھکنے لگا جب آفتاب
ذوقِ طاعت نے دلِ مولیٰ میں کھایا پیچ و تاب
آ کے خیمے سے کسی نے دوڑ کر تھامی رکاب
ہو گئی بزمِ رسالت میں امامت باریاب
تشنہ لب ذرّوں پہ خُونِ مشکبو بہنے لگا
خاک پر اسلام کے دل کا لَہُو بہنے لگا
آفرین چشم و چراغِ دُود مانِ مصطفیٰؐ
آفرین صد آفرین و مرحبا صد مرحبا
مرتبہ انسان کو تو نے دوبالا کر دیا
جان دے کر، اہلِ دل کو تو سبق یہ دے گیا
کشتیِ ایمان کو خونِ دل میں کھپنا چاہئے
حق پہ جب آنچ آئے تو یوں جان دینا چاہئے
اے مُحیطِ کربلا! اے ارضِ بے آب و گیاہ
جراتِ مردانۂ شبیرؓ کی رہنا گواہ!
حشر تک گونجے گا تجھ میں نعرہ ہائے لا الہ
کج رہے گی فخر سے فرقِ رسالت پر کُلاہ
یہ شہادت اک سبق ہے حق پرستی کے لیئے
اک ستونِ روشنی ہے بحرِ ہستی کے لیئے
تُم سے کچھ کہنا ہے اب اے سوگوارانِ حسینؓ
یاد بھی ہے تم کو تعلیمِ امامِ مشرقین؟
تا کُجا بھولے رہو گے غزوۂ بدر و حنین؟
کب تک آخر ذاکروں کے تاجرانہ شورشین؟
ذاکروں نے موت کے سانچے میں دل ڈھالے نہیں
یہ شہیدِ کربلا کے چاہنے والے نہیں
کہہ چکا ہوں بار بار، اور اب بھی کہتا ہوں یہی
مانعِ شیون نہیں میرا پیغامِ زندگی
لیکن اتنی عرض ہے اے نو اسیرِ بُزدلی
اپنی نبضوں میں رواں کر خونِ سر جوشِ علیؓ
ابنِ کوثر! پہلے اپنی تلخ کامی کو تو دیکھ
اپنے ماتھے کی ذرا مُہرِ غلامی کو تو دیکھ
جس کو ذِلّت کا نہ ہو احساس وہ نامرد ہے
ننگِ پہلو ہے وہ دل جو بے نیازِ درد ہے
حق نہیں جینے کا اُس کو جس کا، چہرہ زرد ہے
خود کشی ہے فرض اُس پر، خون جس کا سرد ہے
وقتِ بیداری نہ غالب ہو سکے جو نَوم پر
لعنت ایسی خُفتہ ملّت پر، تُف ایسی قوم پر!
زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو
اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو
دورِ حق ہو تو نسیمِ بوستاں بن کر رہو
عہدِ باطل ہو تو تیغِ بے اماں بن کر رہو
دوستوں کے پاس آؤ نور پھیلاتے ہوئے
دُشمنوں کی صف سے گزرو آگ برساتے ہوئے
دورِ محکومی میں راحت کفر، عشرت، ہے حرام
مہ وشوں کی چاہ، ساقی کی محبت ہے حرام
علم ناجائز ہے، دستارِ فضیلت ہے حرام
انتہا یہ ہے غُلاموں کی عبادت ہے حرام
کوئے ذلّت میں، ٹھہرنا کیا، گزرنا بھی ہے حرام
صرف جینا ہی نہیں، اس طرح مرنا بھی ہے حرام
٭٭٭