صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مایل بکرم راتیں

اعجاز عبید

 (ایک ناولٹ) 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

ستارے اور دھند

’دیکھو انوّ بھیا۔۔ یہ کیا؟‘

یہ ٹافی کے کاغذ کی جھلملاتی گڑیا تھی۔

’یہ تو دلہن لگ رہی ہے۔ جیسے منشی جی کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی اپنی شادی کے دن۔۔۔۔‘

پھر یہ گڑیا کمرے کی شمالی دیوار میں لگی الماری میں اوپر کے خانے میں سجا کر رکھ دی گئی۔ اس میں تین خانے تھے۔ سب سے نیچے والا کہکشاں کا تھا، درمیان والا انور کا جس میں وہ اپنا ذاتی سرمایہ رکھتا تھا۔ اور سب سے اوپر والے خانے میں دونوں کا مشترکہ سامان رہتا تھا۔ یہ گڑیا دونوں کا مشترکہ خزانہ تھی۔

٭

’کیا کر رہے ہو خاور؟‘

’پہاڑے‘

’کتنے کا؟‘

’تیرہ کا۔۔۔۔ ‘

’ارے اس میں کیا رکھا ہے‘ انور نے شیخی بگھارنی شروع کی۔ ’مجھے تو بیس تک پہاڑے یاد ہیں بیس تک۔۔۔۔ اور آدھا، پواّ، پونا، سوایا سب کچھ۔۔۔۔ ‘

آج کل انور اور کہکشاں کی چھٹیاّں تھیں مگر خاور اب تک اسکول میں داخل نہیں کیا گیا تھا۔ اسے ماسٹر صاحب آ کر گھر پر پڑھاتے تھے۔

’ایسا کرو۔ تم ماسٹر ساحب کو بنۓ کا پہاڑہ سنا دو۔‘ انور نے بے حد سنجیدگی سے مشورہ دیا۔ پھر خود ہی رٹے ہوۓ سبق کی طرح دہرانا شروع کر دیا۔۔۔۔

’بنیا ایکم بنیا

بنیا دونی دال

بنیا تیا تیل

بنیا چوکے چاول

بنیا پنجے پان

؎بنیا چھکےّ چھالیہ

بنیا ستےّ ستوّ

بنیا اٹھےّ آٹا

بنیا نواں نون

بنیا دھام دھنیا‘

’مجھے اڑھائی کا پہاڑہ بھی یاد ہو گیا۔ سناؤں؟‘ اور خاور شروع ہو گیا۔’اڑھائی ایکم اڑھائی۔۔ اڑھائی دونی پانچ ۔۔اڑھائی۔۔۔۔۔۔‘

مگر انور بور ہو گیا۔ ’ختم کرو اسے۔ سنو۔ آج ہم نے کوئل کا نام رکھا ہے۔۔۔۔کوکی۔۔۔۔‘

’کوکی۔ یہ کیا نام ہے؟‘

’بڑے نبھیاّ نے نام تو رکھا تھا کوکیلا۔ جیسے شکیلہ‘

مشال کے لۓ شکیلہ باجی کا نام سامنے ہی تھا۔

’مگر ہم پیار سے اسے کوکی کہیں گے۔۔۔۔۔ ہماری پالتو کوئل ہے نا!‘

’تب تو مزے کی بات ہے۔ ہماری بلیّ کا نام ہے مکیِّ۔۔۔۔۔مکیّ مکیّ!!۔ چہ چہ چہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘

 اور میاؤں میاؤں کرتی صندلی بلیّ خاور کے پیر سے لپٹنے لگی۔

’مگر ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مکیّ تو کسی چوہیا کا نام ہوتا ہے‘

خاور کو اپنی بلیّ کے نام پر شک ہوا‘

’تو کیا ہوا۔ امیّ کہتی ہیں نا کہ آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘ انور نے تسلی دی۔

کہکشاں نے موضوع بدلا۔۔۔۔۔’چلو ۔۔۔۔۔باہر چلیں۔ انجیر توڑیں گے۔۔۔۔۔‘

تینوں پھاٹک سے نکل کر انجیروں کے پیڑوں کی طرف جانے والی باغ کی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے اور خاور گا رہا تھا۔۔

’چل چل چمن کے باغ میں میوہ کھلاؤں گا۔۔۔۔۔‘

’اور امیّ انور کو آوازیں دے رہی تھیں۔۔۔۔۔’ انوّ بیٹا۔ یہ چونّی لے جاؤ اور بنۓ کے پاس سے چرونجی تو لے آؤ۔ یہ غفورا نہ جانے کہاں مر گیا۔۔۔۔۔‘

**٭

ڈگڈگی کی آواز سے انور اور خاور دونوں چونکے۔ ڈگڈگی مسلسل بج رہی تھی۔ مجمع جمع ہونے لگا تھا۔ یہ ایک بھالو والا تھا اور بھالو کے تماشے کے لۓ ان دونوں کا نہ رکنا ایک اہم ترین فریضے سے آنکھیں بند کر لینا تھا۔ بھالو اپنے مالک کے اشارے پر نت نۓ کرتب دکھا رہا تھا۔

’اے کالۓ۔ یہ سب تماشہ کس واسطے؟‘

اور بھالو اپنا پیٹ دکھاتے ہوے سب کے سامنے لیٹ گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

پھر بھالو والا سب سے پیسے مانگنے لگا۔انور نے جیب میں چونیّ محسوس کی۔ پھر جلدی سے خاور کو کھینچا۔ اسے چرونجی یاد آ گئی تھی۔

دونوں بنۓ لی دوکان کی طرف چلنے لگے۔ بس یہ آخری گلی ہی تھی دو گھروں کے درمیان اور اس کے بعد موڑ پر ہی بنۓ کی دوکان۔ مگر اس چھوٹی ی گلی کی وجہ سے ہی انور اکیلا نہیں آیا تھا۔ اس گلی میں ایک ننھی سی طاق تھی اور اس طاق میں ایک ننھی منی سی قبر۔ اس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا اور ایک تازہ گلاب کا پھول رکھا تھا۔ دیوار کے ایک سوراخ میں اگربتیاں سلگ رہی تھیں۔ یہ سیدّ صاحب کا مزار تھا۔

’نہ جانے کون پھول اور اگربتیاّں رکھ جاتا ہے یہاں۔ انور! تم نے کبھی سیدّ صاحب کو سلام کیا ہے؟ ‘

’نہیں تو ڈر لگتا ہے۔۔‘

’کہتے ہیں کہ قبروں پر سلام کرنا چاہۓ۔ اسلاّم و علیکم یا اہلِ قبر!‘

’مگر خاور۔ سمجھ میں نہیں آتا کی سیدّ صاحب کی اتنی چھوٹی سی قبر کیوں ہے؟‘ انور کے ذہن میں عقیل چچا کی لمبی چوڑی قبر کی یاد ابھی تازہ تھی۔

’ابا کہتے تھے کہ یہاں پہلے بڑا مزار تھا اور بڑی قبر تھی۔ مگر جس کی زمین تھی، اس نے وہیں مکان بنایا اور بڑامزار توڑ کر اس کی جگہ یہ چھوٹی سی طاق بنا دی۔ ۔۔‘

انور کے لۓ یہ نئ اطلاّع تھی۔ انور کے دماغ کے خزانے میں نہ جانےکتنے اسرار پنہاں تھے۔

’اور میرے اباّ تو ہمیشہ اس قبر کو سلام کرتے ہیں۔۔۔‘

اس نے مزید اطلاّع دی۔

انوّ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ابھی پچھلے دنوں بنۓ کی دوکان پر سائیکل کی دوکان والے شبراتی نے بتایا تھا کہ اس نے اس مزارپر سلام کیا تو ایک ’رباب‘ والی آواز نے جواب دیا ’وعلیکم اسلام‘ اور شبراتی ڈر کر بھاگ گیا تھا۔

بنۓ کی دوکان سے چرونجی لینے کے بعد موڑ مڑتے ہی پھر سیدّ صاحب زیرِبحث آ گۓ تھے۔اس مزار کو دیکھتے ہی ان کی یہ باتیں لازمی تھیں۔

’مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ سیدّ صاحب تھے ہی ذرا سے آدمی ۔۔۔‘ انورنے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اور خاور بھی اس نئ تھیوری پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد بولا۔ ’امیّ کہتی ہیں کہ کبوتر بھی سیدّ ہوتے ہیں۔شاید یہ سیدّ صاحب بھی کبوتر ہوں۔‘ انور نے سامنےکی مسجد کے میناروں پر اڑتے بیٹھےکبوتروں پر کچھ خوف سےنظر ڈالی۔ اس موضوع نے نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔ آخر انور چپ نہ رہ سکا۔’ چپ رہو اب۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘۔ پھر باقی راستہ خاموشی سے ہی طے ہوا تھا۔

**٭ ***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول