صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
لکھنؤ کا عروج و زوال
نیر مسعود
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
(۱)
آصف الدولہ اور ان کے جانشین سعادت علی خاں کے زمانے تک اودھ مغل سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یہاں کے حکمراں سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے اس پر حکومت کرتے تھے اور مغل بادشاہ کے نائب کی حیثیت سے ان کا لقب "نواب وزیر" تھا۔ اصولاً انھیں مغل بادشاہ کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلنا چاہیے تھا، لیکن اب یہ نیابت فقط برائے نام تھی۔ حقیقتاً اودھ کے حکمراں خود کو دہلی سے آئے ہوئے احکام اور ہدایات کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔ اس صورتِ حال کے ذمے دار ایک حد تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز عہدے دار تھے جو نواب وزیر اور بادشاہِ دہلی کے درمیان حائل ہو گئے تھے اور پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کا خاموش تہیہ کر چکے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ نہایت منظم اور مکمل منصوبے بنا کر ان پر بڑی ہوشیاری کے ساتھ عمل کر رہے تھے اور بادشاہ اور نواب کے درمیان بڑھتی ہوئی بے تعلقی انھیں منصوبوں کا ایک جُز تھی۔
دہلی اب بھی ہندوستان کا دارالسلطنت اور مغل بادشاہ اب بھی ہندوستان کا شہنشاہ تھا، لیکن اب اُس کی حیثیت شاہِ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ دہلی کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی اور مغلوں کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی۔ اس تنزل کا سبب انگریزوں کے دخل در معقولات کے علاوہ یہ بھی تھا کہ خود مغل حکمران وہ خون کھو چکے تھے جو تیمورِ گاگان سے لے کر بابر اور بابر سے لے کر اورنگ زیب کی رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ مغلانِ اعظم کے جانشین بزم پر رزم کو قربان کر چکے تھے۔ ان کی فعالیت ختم ہو چکی تھی اور ان کی جنبشیں کٹھ پتلیوں کی طرح تھیں جن کی ڈوریاں انگریزوں، سیّدوں، مرہٹوں اور جاٹوں روہیلوں، سبھی کے ہاتھوں میں آتی رہتی تھیں اور ان کے بازیگروں میں اپنے فن کے سب سے زیادہ ماہر انگریز تھے جو دھیرے دھیرے پورے ملک کی سیاست پر چھاتے جا رہے تھے۔
آصف الدولہ کے عہد تک اودھ پر بھی انگریزوں کی نظریں پڑنے لگی تھیں۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ نواب وزیر کو اپنے قابو میں لائیں۔ یہ مقصد تین طریقوں سے حاصل ہو سکتا تھا: نواب کو اپنا ممنون کر کے ، محتاج بنا کر یا اپنے سے مرعوب کر کے۔ انھوں نے پہلی صورت کو مصلحتِ وقت سمجھ کر آصف الدولہ کو ان کی ماں بہو بیگم صاحبہ کی کثیر دولت دلوا دی۔ آصف الدولہ انگریزوں کے ممنونِ احسان ہوئے اور اخلاقاً ان سے دوستی نبھانے اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
آصف الدولہ کے بعد سعادت علی خاں پر بھی یہی حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ آصف الدولہ کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے وزیر علی نے مسندِ نیابت پر بیٹھنے کا قصد کیا۔ لیکن انگریزوں نے اُن کو ہٹا کر(۲) شجاع الدولہ کے بیٹے سعادت علی خاں کو مسند نشیں کیا۔ یوں سعادت علی خاں کا اقتدار بھی انگریزوں کی بدولت قرار پایا اور خود ایک جوہرِ قابل ہونے کے باوجود انھیں انگریزوں کی مرضی کا پابند ہونا پڑا۔
سعادت علی خاں کے بیٹے غازی الدین حیدر نے نیابت ملنے کے بعد ۱۸۱۸ء میں "ابوالمظفر، معزالدین، شاہِ زمن، غازی الدین حیدر، بادشاہ غازی" کا خطاب اختیار کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اب اودھ صوبے سے ملک بن گیا اور مغلیہ سلطنت سے اس کا برائے نام تعلّق بھی ختم ہو گیا۔ اِس انقلاب کے پسِ پردہ بھی انگریزوں کی حکمت عملی تھی اور یہ اقدام انھیں کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اودھ کا ہر بادشاہ شاہِ شطرنج تھا۔ ملک اودھ میں انگریزوں کی حیثیت شریکِ غالب کی ہو گئی اور اب سیاسی اور ملکی معاملات کا کیا ذکر، بڑی حد تک اپنے نجی معاملات میں بھی اودھ کا بادشاہ ان کی دخل اندازیاں روکنے پر قادر نہ رہا۔
انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر، اودھ کے نظامِ سلطنت میں خود بھی کمزوریاں تھیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے عمّال بر سرِ اقتدار آ جاتے تھے جو اپنے عہدے کے اہل نہیں ہوتے تھے اور محض سفارشوں اور تعلقات کے بل پر منصب حاصل کر کے نظم و نسق کو زیر و زبر کرتے رہتے تھے۔ مثلاً مرزا رجب علی بیگ سرُور نے امجد علی شاہ کے عہدِ سلطنت کی تصویر یوں کھینچی ہے ۔۔۔۔۔
٭٭٭