صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


لاطینی امریکہ کا ایک سفر

مفتی محمد تقی عثمانی

ڈاؤن لوڈ کریں 

  

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

ساؤپالو


ہوائی اڈے پر ہمارے میزبان جناب علی احمد الصیفی استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ اصلاً لبنانی ہیں اور ان کے والد عرصۂ دراز سے برازیل میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بڑی محبت سے برازیل کے قیام کے دوران ہماری میزبانی کی۔ ساؤپالو برازیل کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے جو تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔ علی احمد الصیفی صاحب نے اپنے گھر کے قریب ہوٹل نما فلیٹ میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا تھا۔ برازیل جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ملک ہے جو بتیس لاکھ چھیاسی ہزار چار سو ستاسی مربع میل میں پھیلا ہوا ہے اور اس طرح پورے براعظم کا تقریباً آدھا رقبہ اُس کے پاس ہے اور جنوبی امریکا کے ممالک میں سب سے زیادہ آبادی بھی اسی کی ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی تک دنیا کو اس علاقے کا علم نہیں تھا، ۱۵۰۰ئ میں پرتگالی بحریہ کے ایک کمانڈر پیڈرو ایلورس کیبرال(Pedro Alvares Cabral) جو کولمبس اور واسکوڈے گاما کی طرح ہندوستان کا راستہ دریافت کرنے نکلا تھا، بھٹک کر جنوبی امریکا کی طرف آنکلا اور اُس نے برازیل کا یہ علاقہ دریافت کیا۔ اُس وقت یہاں جو قوم آباد تھی اُس کے حالات نامعلوم ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ غیر متمدن قوم تھی۔ رفتہ رفتہ جب پُرتگالیوں کو معلوم ہوا کہ یہاں قدرتی وسائل بہت ہیں تو انہوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس ملک کو پرتگال کی نو آبادی قرار دے دیا۔ اسی لیے اس ملک میں پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے۔ پرتگال کے تسلط کے بعد اس علاقے کے اصل باشندے دور دراز کے دیہاتی علاقوں تک محدود ہو گئے۔ یہاں آبادی کی بہت بڑی تعداد تو وہ تھی جو پرتگال سے آ کر رہنے لگی تھی، اس کے علاوہ پرتگالی حکومت افریقہ کے بہت سے سیاہ فاموں کو غلام بنا کر یہاں اس لیے لائی کہ اُن سے یہاں کھیتی باڑی کا کام لیا جائے، یوں سیاہ فام افریقیوں کی بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہو گئی۔ ادھر یورپ کے دوسرے علاقوں سے بھی بہت سے سفید فام لوگ آ کر آباد ہوئے اور ان مختلف النسل لوگوں کے درمیان شادی سے ایک ملی جلی قوم پیدا ہو گئی۔ سولہویں صدی سے انیسویں صدی کے آغاز تک برازیل پرتگال کے قبضے میں رہا، یہاں تک کہ اس میں آزادی کی تحریک چلی، اور آخرکار ۷ / ستمبر ۱۸۲۲ئ÷ کو اُس نے پرتگال سے آزادی حاصل کر کے علیحدٰہ ملک کی حیثیت اختیار کر لی۔ آزادی کے بعد یہاں کے قدرتی وسائل اور تجارت و صنعت کے مواقع کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں سے لوگ ترکِ وطن کر کے یہاں آباد ہوئے جن میں افریقہ کے علاوہ یورپ اور عرب ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔ انہی عرب لوگوں میں سے بہت سے مسلمان بھی تھے جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان میں ساٹھ فی صد کے قریب تعداد برازیلی نومسلموں کی ہے، ان کے بعد زیادہ تر مسلمان عربی النسل ہیں ، ان میں بھی لبنان کے باشندے زیادہ ہیں۔ اب پاکستانیوں کی بھی تھوڑی سی تعداد موجود ہے۔

برازیل میں مرغیوں کے فارم اتنے زیادہ ہیں کہ وہ دنیا بھر میں مرغیوں کا گوشت برآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بھی بکثرت مرغیوں کا گوشت برازیل سے جاتا ہے اور اگرچہ اس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ اسلامی طریقے پر ذبح کی ہوئی مرغیوں کا گوشت ہے، لیکن اُس کی حقیقت کے بارے میں ہمیشہ شک و شبہ ہی رہتا ہے، کیونکہ ان ملکوں میں عموماً مرغیوں کو مشین سے ذبح کیا جاتا ہے اور اس میں شرعی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ اس لیے ہم اسے کھانے کا مشورہ نہیں دیتے۔ میں نے پانامہ جاتے ہوئے برازیل کا جو راستہ اختیار کیا، اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شاید اس قیام کے دوران اس سلسلے میں کچھ مزید معلومات حاصل ہوں اور علی الصیفی صاحب سے رابطہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اور ان کے والد اُن چند لوگوں میں سے ہیں جو وہاں مرغیوں کے ذبح کی نگرانی کرتے ہیں اور سند جاری کرتے ہیں۔ میں نے ان سے برازیل پہنچنے سے چند روز پہلے یہ درخواست کی کہ وہ میرے قیام کے دوران اگر ممکن ہو تو کسی مذبح کا دورہ کرانے کا انتظام کریں ، لیکن انہوں نے بتایا کہ یہاں ذبح خانوں کا یہ قانون ہے کہ کسی باہر کے ملک سے آنے والے کو کچھ دن برازیل میں قرنطینہ کر انے کے بعد کارخانے میں داخلے کی اجازت ملتی ہے، اس لیے اس مختصر قیام میں معاینہ ممکن نہیں ہو گا۔ زبانی طور پر انہوں نے بتایا کہ ان کارخانوں میں مسلمانوں کے لیے مرغیاں ذبح کرنے کا جو وقت مقرر ہوتا ہے، اس میں مرغیوں کو مشینی چھری سے ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ چار آدمی اپنے ہاتھوں میں چھریاں لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں ، اور جب مرغیاں اُن کے سامنے سے گزرتی ہیں تو وہ بسم اللہ پڑھ کر انہیں ہاتھ سے ذبح کرتے ہیں۔ یہ وہی طریقہ ہے جو بندہ نے اپنی کتاب ’احکام الذبائح، میں تجویز کیا ہے۔اس سے یہ غلط فہمی تو رفع ہوئی کہ وہاں مشینی چھری سے مرغیاں ذبح ہوتی ہیں یا بسم اللہ کے لیے کوئی ٹیپ لگا دیا جاتا ہے، لیکن علی الصیفی اور احمد الصیفی صاحبان نے دو باتوں کا اعتراف کیا۔ ایک یہ کہ اگرچہ ہم نے ان ذبح کرنے والوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ ہر مُرغی پر بسم اللہ پڑھیں ، اور جب تک اُن کی ڈیوٹی ہے اُس وقت تک کوئی اور کام نہ کریں لیکن بہرحال وہ انسان ہیں اور کبھی اُن کو کھانسی، چھینک وغیرہ آسکتی ہے اور جس تیزی سے مرغیاں اُن کے سامنے سے گزرتی ہیں اُس کے پیشِ نظر اس بات کا امکان رہتا ہے کہ کچھ مرغیاں اس طرح گزر جائیں کہ اُن پر الگ سے بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔ دوسرے ہمیں ہر مذبح میں ذبح کرنے کے لیے مسلمان میسر آنا مشکل ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ کارخانے شہروں سے دور ایسے علاقوں میں ہیں جہاں مسلمان رہنا پسند نہیں کرتے، اس کے لیے بعض مقامات پر عیسائیوں کو بھی مقرر کیا گیا ہے، اور ان پر یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں۔ اب وہ عملاً اس بات کا کتنا اہتمام کرتے ہیں ؟ اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔

اس کے علاوہ ان حضرات کے بیان کے مطابق برازیل میں کم و بیش پچاس کارخانے ہیں جن میں سے ہر ایک میں روزانہ ہزار ہا مرغیاں ذبح ہوتی ہیں اور ان میں نگرانی کر نے اور سند جار ی کر نے والے بھی مختلف ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کن شرائط کا لحاظ رکھتے ہیں۔ جب بازار میں یہ مرغیاں آتی ہیں تو یہ پتا لگانا بہت مشکل ہے کہ یہ کون سے مذبح کی ہیں ، اور کن لوگوں نے اس کے لیے سند جاری کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تفصیل کے معلوم ہونے کے بعد بھی برازیل سے درآمد کی جانے والی مرغیوں کے بارے میں شکوک و شبہات رفع نہیں ہوئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حلال گوشت کی فراہمی کے لیے عالمی سطح پر کوئی قابل اعتماد انتظام کیا جائے۔ افسوس کہ مسلمان ممالک کی حکومتوں کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے لیکن میں نے بعض نجی اداروں سے فرمائش کی ہے کہ وہ مستند علماء کی نگرانی میں اس کا کوئی انتظام کریں اور اس سلسلے میں کچھ ابتدائی قدم اُٹھائے بھی گئے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ سکیں۔

ساؤپالو میں قیام کے دوران ہم نے شہر کی بعض مساجد بھی دیکھیں جو ماشاء اللہ بڑی عالی شان تھیں ، ان کے منار دور سے نظر آتے ہیں اور نمازیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ نمازِ جمعہ ہم نے مسجد ابوبکر صدیق میں پڑھی جو اسی محلے میں واقع ہے جہاں ہمارا قیام تھا۔ یہاں ایک مصری شیخ نے عربی میں اچھا خطبہ دیا۔ اسی مسجد کے ساتھ ایک اسلامی مرکز بھی قائم ہے، بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام موجود ہے، ایک مسلمان طعام گاہ بھی ہے اور مسلمانوں کی ضروریات کی ایک دُکان بھی۔

علی الصیفی صاحب نے ہمیں ساؤپالو کی سیر بھی کروائی۔ ساؤپالو بحراوقیانوس کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سرسبز پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ دور تک چلا گیا ہے، ان پہاڑوں کے ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف ان کے دامن میں قدرتی جھیلیں ، چھوٹے چھوٹے آبشار اور خودرو درختوں کے گھنے جنگل پھیلے ہوئے ہیں جن میں آم، کیلے اور کئی مقامی پھلوں کے خودرو درخت بھی شامل ہیں۔ آم کے درخت یہاں خودرو ہیں ، اور آموں سے لدے ہوئے درخت جگہ جگہ، یہاں تک کہ سڑکوں پر بھی نظر آتے ہیں۔ یہ پورا علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے جس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم ساؤپالو کی بندرگاہ سانتوز (Santos) سے گزرے جو جنوبی امریکا کی سب سے بڑی بندرگاہ شمار ہوتی ہے، یہاں ایک چھوٹا ساشہر آباد ہے جس میں ایک مسجد بھی ہے۔ پھر آگے ایک اور چھوٹا سا شہر کیوبا ٹاؤ (Cubatao) آیا جہاں گیس کے کنویں اور تیل صاف کرنے کی فیکٹریاں ہیں اور اُس کی وجہ سے یہاں فضا میں تیل اور گیس کی بو بسی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی اسی شہر میں پائی جاتی ہے۔ پھر علی الصیفی صاحب ہمیں ایک خوبصورت ساحلی شہر میں لے گئے جس کا نام گواروجا (Guaruja) ہے اور اس کا ’مئیر‘ بھی ایک مسلمان ہے۔ یہ شہر بحراوقیانوس کے ایک دلآویز ساحل پر آباد ہے جہاں سمندر سرسبز پہاڑیوں سے کھیلتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں اس وقت موسمِ بہار کی آمد آمد تھی اور جگہ جگہ سے سبزہ پھوٹا پڑ رہا تھا۔ ان پرسکون قدرتی نظاروں میں کچھ دیر کے لیے سفر کی تھکن کافور ہو گئی۔

ساؤپالو (جس کا تلفّظ یہاں کے لوگ سوں پالو) کرتے ہیں ، برازیل کا سب سے بڑا تجارتی شہر سمجھا جاتا ہے اور پورے جنوبی امریکا میں سب سے بڑا صنعتی مرکز بھی۔ اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی بنیاد ۲۵/ جنوری ۱۵۵۴ئ کو عیسائی مُبلّغوں نے رکھی تھی اور چونکہ یہ تاریخ موجودہ بگڑی ہوئی عیسائیت کے بانی سینٹ پال کی برسی کی تھی، اس لیے اس شہر کا نام ہی سینٹ پال کے نام پر رکھا گیا، مگر پرتگیزی تلفظ کے مطابق اُسے ساؤپالو یا سوں پالو کہا جانے لگا۔ اس شہر کی سب سے مرکزی سڑک پالستاایونیو (Paulista Avenue) اپنی شاندار اور فلک بوس عمارتوں کی وجہ سے نیویارک کے ’پارک ایونیو، کی یاد دلاتی ہے۔

ساؤپالو میں دو دن گزارنے کے بعد ہماری روانگی کا وقت قریب آیا تو علی الصیفی صاحب نے کہا کہ اگر آپ برازیلی طرز کی مچھلیاں اور بعض حلال کھانے کھائے بغیر یہاں سے چلے گئے تو گویا آپ نے برازیل ہی نہیں دیکھا، چنانچہ انہوں نے ساؤپالو کے ایک خوبصورت مطعم (ریستوران) میں ہمیں دوپہر کا کھانا کھلایا جس میں واقعی نہایت لذیذ سبزیوں ، چٹنیوں اور مچھلی کی انواع و اقسام کا ایسا مجموعہ تھا جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول