صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
لمس کی خوشبو
حسن چشتی نمبر
مدیر : اطیبؔ اعجاز
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ذکر حسن چشتی اور ان کے شکاگو کا. مجتبیٰ حسین
صاحبو!شکاگو سے ہندوستان آئے ہوئے ہمیں دس دن بیت چکے ہیں۔ تبدیلی آب و ہوا کی وجہ سے یہاں آتے ہی ہم بیمار پڑ گئے اور اب تک پڑے ہوئے ہیں۔ مگر اس عرصہ میں شکاگو اور شکاگو کے احباب بے پناہ او ر ہر دم یاد آتے رہے۔امریکہ کے سارے شہروں کے مقابلہ میں سماجی اور ثقافتی اعتبار سے شکاگو ہمیں بہت پسند ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں اُردو بولنے والوں کی جتنی بہتات ہے اس سے کہیں زیادہ بہتات حیدرآبادیوں کی ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ میں قیام کے دوران ہمیں یہ شہر جتنا پسند آیا، اتنا ہی اس سے خوفزدہ اور خائف بھی رہے۔جہاں اتنے سارے اُردو بولنے والے اور اتنے سارے حیدرآبادی آباد ہوں وہاں ہم جیسے کم سواد کا اپنی عزت اور ناموس کو بچا کر صحیح و سالم واپس چلے آنا ایسا ہی ہے جیسے چراغ لے کر ہوا کے سامنے چلنا۔ہمارے امریکہ پہنچنے سے پہلے ہی ہمدم دیرینہ حسن چشتی نے ’عثمانین‘ کے تعاون سے ہمارے جشن کے انعقاد کا اعلان کر دیا تھا جس کی رودادیں اخباروں میں چھپ چکی ہیں۔
پطرس بخاری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ دوستی جب بہت پرانی ہو جاتی ہے تو دو دوستوں کے بیچ تبادلۂ خیال کی کوئی حاجت باقی نہیں رہ جاتی۔ حسن چشتی سے ہماری دوستی کی عمر بھی اب نصف صدی کا قصہ بنتی جا رہی ہے۔ایسے دوستوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جیسا چاہے سلوک کریں۔ آپ جشن کی بات کرتے ہیں ہم تو ایسے دوستوں کے کہنے پر آتش نمرود میں بھی کود پڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ بہرحال حسن چشتی اور ان کے رفقا نے ایک کامیاب محفل منعقد کی اور ہمارے بکھرے ہوئے سیکڑوں احباب کو جمع کیا۔لیکن ہمیں یہ احساس ہر دم ستاتا رہا کہ حسن چشتی ہماری خاطر بلاوجہ ایک کھکیٹر میں پھنس گئے ہیں۔ ہم تو دوستوں کی محبتوں کو سمیٹنے کے لئے گئے تھے لیکن وہاں جاتے ہی ہمیں شکاگو کے حیدرآبادیوں اور اُردو بولنے والوں کی آپسی رنجشوں کو سننے اور سمیٹنے کا کام انجام دینا پڑا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی محبت ہم پر نچھاور کرنے کو بیتاب تھا۔ایک بار تو حد ہو گئی کہ بعض احباب ایک ایوارڈ لے کر ہمارے بھائی کے گھر پر آ گئے کہ صاحب آپ کی سہولت کے پیش نظر ہم کسی خاص تقریب میں ایوارڈ دینے کے بجائے آپ کو آپ کے گھر میں ہی ایوارڈ سے سرفراز کرنا چاہتے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ تھوڑی دیر کے لئے ہم نے بھی سوچا اور جائز طور پر سوچا کہ بہر حال جو ایوارڈ محفل میں دیا جاتا ہے اسے آخر کا ر ڈھو کر گھر تو لانا ہی پڑتا ہے۔ کیوں نہ ایوارڈ کو قبول کر لیا جائے تاکہ گھر کی بات گھر میں ہی رہے۔ لیکن افسوس کہ اس دن ہمارے بھائی کے گھر میں پہلے ہی سے کوئی خوشگوار تقریب منعقد ہو رہی تھی چنانچہ ہمارے بھائی نے برملا معذرت کی کہ وہ ایک خوشگوار تقریب میں ایک ناخوشگوار تقریب کی ملاوٹ کرنا نہیں چاہتے۔یہ ان کی مجبوری تھی۔ہم کیا کر سکتے ہیں۔ بہرحال ہمارا ایک ایوارڈ شکاگو میں اب بھی رکھا ہوا ہے۔کبھی جانا ہوا تو ساتھ لیتے آئیں گے۔تاہم حسن چشتی کے بارے میں ہم اتنا ہی عرض کر تے چلیں گے کہ پچھلی نصف صدی میں ہم نے جب بھی حسن چشتی کو دیکھا نہ صرف دوست احباب اور رشتہ داروں بلکہ اجنبیوں تک کے کاموں میں سرگرداں اور غلطاں پایا۔قدرت نے خدمت خلق کا جو جذبہ انہیں ودیعت کیا ہے وہ بہت کم کو نصیب ہوتا ہے۔ہم جیسے تو دوستوں کے سکھوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن حسن چشتی اکیلے ایسے دوست ہیں جو دوستوں کے دکھوں میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی شریک رہا کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوستوں کے دکھوں میں تو کمی واقع ہو جا تی ہے لیکن خود حسن چشتی کے دکھوں میں ضرور اضافہ ہو جاتا ہے۔
حسن چشتی ہمارے ان دوستوں میں سے ہیں جو پچھلے بیس اکیس برسوں سے رہتے تو دیار غیر میں ہیں لیکن کچھ اس ڈھنگ سے رہتے ہیں کہ کبھی ہمیں یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ ہم سے ہزاروں میل دور رہنے لگے ہیں۔ اس عرصہ میں شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرا ہو جب ان کا کوئی خط نہ آیا ہو اور اگر خط نہ آیا ہو تو ان کا کوئی فون نہ آیا ہو اور اگر فون نہ آیا ہو تو ان کا کوئی دوست نہ آیا ہو۔سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں جب حیدرآباد میں رہتے تھے تو ان سے گہرے مراسم کے باوجود ہ ہمارا ربط ضبط اتنا نہیں تھا جتنا کہ ان کے باہر چلے جانے کے بعد رہنے لگا ہے۔جینے کی یہ ادا،پرانے دوستوں پر محبت نچھاور کرنے کا یہ سلیقہ، ہزاروں میل دور رہ کر بھی دوستوں کو اپنی رگ جان سے قریب رکھنے کا یہ اہتمام کتنا اچھا لگتا ہے۔لیکن ہے ذرا مہنگا کام۔ہمارے سینکڑوں قریبی دوست دنیا کے مختلف ملکوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ پانچ چھ برسوں میں کبھی خیریت کی اطلاع مل جاتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ابھی تک بقید حیات ہیں (وہ بھی اور ہم بھی)۔رشتے جب فاصلوں میں بٹ جاتے ہیں تو پہلے موہوم سے ہونے لگتے ہیں اور پھر وقت کے سمندر میں معدوم ہو جاتے ہیں۔ حسن چشتی ہمارے ان معدودے چند دوستوں میں سے ہیں جو برسوں پرانے رشتوں کو اسی طرح چمکا کر رکھنا جانتے ہیں جس طرح کوئی سلیقہ مند خاتون اپنے دیوان خانہ کے شوکیس میں سجی ہوئی نادر اشیا ء کو ہر روز بڑے چاؤ سے جھاڑ پونچھ کر پھر وہیں رکھنا جانتی ہے۔رشتہ کو ایک نادر اور نایاب شئے سمجھنے کا گر حسن چشتی صاحب کو خوب آتا ہے۔ڈیڑھ برس پہلے ہمیں حسب معمول حسن چشتی کے دو تین خط ملے تھے جن میں انھوں نے شکاگو میں ’سیاست فورم‘ کے قیام کی اطلاع دینے کے بعد ہم سے خواہش کی تھی کہ ہم اس فورم کے ذریعہ امریکہ میں اردو کی ترویج و ترقی کے لئے ضروری مشورے دیں۔ حسن چشتی کو معلوم ہے کہ خط نہ لکھنا ہماری پرانی ہابی ہے۔چنانچہ کچھ عرصہ بعد انھوں نے شکاگو سے فون کر کے شکایت کی۔’’بھئی ! تمہارے مشورے اب تک نہیں آئے۔اردو کی ترقی رکی ہوئی ہے۔‘‘ہم نے کہا ’’برادرم اگر ہم نے غلطی سے آپ کو صحیح مشورہ دے دیا تو آپ کا کیا ہو گا اور اگر ہمارے مشورے پر عمل کرنے سے اردو کی سچ مچ ترقی ہو گئی تو ایسی صورت میں ہمارا کیا ہو گا،ہم تو دونوں صورتوں میں مارے جائیں گے۔کیونکہ ہم نے تو اب اردو کی زوال آمادگی کو منکوحہ کی طرح قبول کر لیا ہے۔راضی بہ رضا رہنے لگے ہیں۔ جب سے ہم نے یہ پڑھا ہے کہ آپ امریکہ میں اُردو کی ترقی کے لئے کمربستہ ہو گئے ہیں تب سے ہم تشویش میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ کی عملی دلچسپی سے کہیں سچ مچ اردو کی ترقی نہ ہو جائے کیونکہ آپ جس کام کا بھی بیڑا اٹھاتے ہیں اسے پورا کر کے رہتے ہیں۔ کیا ہم آپ سے واقف نہیں ہیں۔ پھر آپ جیسے ایماندار، دیانتدار، مخلص اور بے لوث آدمی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اردو کی ترقی کے کاموں میں دلچسپی لینے لگے۔یہ کام تو ہم جیسوں کے لئے چھوڑ دیجئے جو اردو کی ترقی کا کام کچھ اس ڈھنگ سے انجام دیتے ہیں کہ بالآخر ہماری اپنی شخصی ترقی کی راہیں خود بخود ہموار ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے ادیب، شاعر اور پروفیسر تو بدستور ترقی کرتے جا رہے ہیں اور بیچاری اردو جہاں کی تہاں ہے۔‘‘ہنس کر بولے ’’ہنسی مذاق کی تمہاری عادت کبھی نہیں جائے گی۔ یا ر کبھی تو سنجیدہ ہو جاؤ۔مجھے تمہارے مشورے جلد از جلد درکار ہیں۔ ‘‘اس کے جواب میں ہم حسب عادت ہنس کر خاموش ہو گئے تھے۔
ہمیں یہ بھولی بسری بات اس لئے یاد آ گئی کہ ہم اپنے مشوروں کی حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم کیا اور ہمارے مشورے کیا۔اب اگر ہم صدق د ل سے حسن چشتی کو یہ مشورہ دیں کہ وہ امریکہ میں اُردو کے فروغ کی خاطر ہر گھر میں ہماری تصانیف رکھوا دیں تو کیا وہ رکھوا دیں گے۔اگر ہم یہ کہیں کہ امریکہ سے نکلنے والے ہر اُردو اخبار کا ایک خصوصی نمبر ہمارے بارے میں شائع کرائیں تو کیا وہ شائع کرا دیں گے۔ حالانکہ ایسے مشوروں سے ہمارا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہماری پیاری اردو زبان کی ترقی ہو اور یہ پھلے پھولے۔ لیکن کیا کریں ہم جانتے ہیں کہ حسن چشتی ایسے بے لوث اور مخلصانہ مشوروں پر کبھی عمل نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے دوست ہونے کے باوجود ایک جہاں دیدہ اور مردم شناس آدمی ہیں۔ ہم جیسوں کو خوب پہچانتے ہیں۔ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو تن من دھن سے کرتے ہیں۔ بیس برس پہلے یہ سعودی عرب گئے تھے۔وہاں جاتے ہی ایک ’بزم اردو‘ قائم کی۔ ادبی محفلیں آراستہ کیں۔ مشاعرے کئے اور کیا کیا نہ کیا مگر ہمیں نہ بلایا۔عرب کے صحرا کی فضاؤں میں جہاں اذانیں گونجا کرتی تھیں وہاں ’’ مکرر ارشاد‘‘ ’’چاہتا تو ہوں ‘‘ ’’عرض کیا ہے‘‘ ’’ذرہ نوازی کا شکریہ‘‘ جیسی صدائیں گونجنے لگیں۔ حیدرآباد میں رہنے والے غریبوں کا خیال آیا تو ان کے لئے سعودی عرب سے استطاعت رکھنے والے اصحاب کے استعمال شدہ کپڑوں کی گٹھریاں باندھ باندھ کر حیدرآباد بھیجنے لگے۔ سنا ہے کہ اس زمانے میں اچھے بھلے لوگ بھی اس ڈر کے مارے ان سے نہیں ملتے تھے کہ کہیں وہ ان کے کپڑے اتار کر غریبوں کے حوالے نہ کر دیں۔ حیدرآباد اور جدہ کے درمیان راست فضائی سرویس شروع کرانے میں بھی موصوف کا ہاتھ رہا ہے۔بعد میں وہ امریکہ گئے تو وہاں بھی خدمت میں لگ گئے۔نتیجہ میں وہاں بھی وہ اعزازات اور انعامات سے نوازے جانے لگے۔ انھیں ملنے والے دو ایک اعزازات کی مبارک باد تو ہم نے انھیں ضرور دی مگر بعد میں جب دیکھا کہ یہ اعزازات ان کے لئے روز مرہ کا معمول بنتے چلے جا رہے ہیں تو ہم نے اپنی مبارک بادیوں کا ہاتھ کھینچ لیا۔بھلے ہی اعزازات کو وصول کرنے والا انھیں وصول کرتے ہوئے نہ تھکتا ہو لیکن مبارک باد دینے والا تو تھک جاتا ہے۔ پھر دونوں میں فرق بھی تو ہوتا ہے۔
مانا کہ ادھر دس گیارہ برسوں میں حسن چشتی سے ہماری کوئی شخصی ملاقات نہ ہو سکی تھی لیکن اس کی تلافی اس طرح ہو جاتی تھی کہ آئے دن ان کی تصویریں اخباروں اور رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں۔ مخفی مباد ہم حسن چشتی کو ’با تصویر حسن چشتی‘ کہتے ہیں۔ جب کتابیں با تصویر ہو سکتی ہیں،رسالے با تصویر ہو سکتے ہیں تو حسن چشتی با تصویر کیوں نہیں ہو سکتے۔پھر وہ ایک ایسی وجیہہ و شکیل، جامہ زیب اور دیدہ زیب شخصیت ہیں کہ ان کی جتنی بھی تصویریں چھپیں وہ کم ہیں۔ ذرا بتائیے یہ سلمان خان،شاہ رخ خان، اکشے کمار وغیرہ کی اتنی ساری تصویریں آئے دن اخباروں میں آخر کیوں چھپتی رہتی ہیں۔ پھر حسن چشتی تو واقعی کا م بھی کرتے ہیں صرف کام کرنے کی اداکاری نہیں کرتے۔ جو لوگ حسن چشتی کی تصویروں کی اشاعت پر ناک بھنوں چڑھاتے ہیں انھوں نے یا تو حسن چشتی کو نہیں دیکھا یا پھر خود آئینہ میں اپنی شکل نہیں دیکھی۔وہ ان شاعروں میں ہیں جن کا نہ صرف کلام قابل اشاعت ہوتا ہے بلکہ تصویر بھی قابل اشاعت ہوتی ہے۔ماشاء اللہ رنگ بھی ایسا سرخ و سپید پایا ہے کہ جو بھی اُنھیں پہلی بار دیکھتا ہے اُنھیں انگریز ہی سمجھ بیٹھتا ہے۔برسوں پرانی بات ہے،حیدرآباد میں ہمارے ایک دوست نے حسن چشتی کو پہلی بار دیکھ کر کہا تھا۔’’یار!سارے شریف انگریز تو کب کے ہندوستان سے چلے گئے لیکن یہ انگریز اب تک یہاں کیا کر رہا ہے ؟۔ ‘‘غالباً حسن چشتی نے ہمارے دوست کی بات سن لی تھی۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد سچ مچ ہندوستان کو چھوڑ کر چلے گئے۔حسن چشتی کی خوبی یہ ہے کہ وہ بلا لحاظ مذہب و ملت و جنس ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے شاعر دوست افتخار نسیم، جو اصلاً پاکستانی ہیں،جب بھی شکاگو سے دہلی آتے ہیں اور ہم ان سے اپنے حیدرآبادی احباب کے بارے میں پوچھتے ہیں تو حسن چشتی کے سوائے کسی اور حیدرآبادی دوست کا ذکر نہیں کرتے۔ان کی یہ شان محبوبی قابل رشک ہے۔شکاگو میں ہمارے قیام کے آخری دنوں میں ہمارے پرانے دوست مصلح الدین سعدی بھی حیدرآباد سے وہاں آ گئے تھے۔ ان سے چونکہ حیدرآباد میں ہماری ملاقات نہیں ہو پاتی اس لئے سوچا کہ کیوں نہ شکاگو میں ان سے مل لیا جائے۔ حسن چشتی کا ذکر آیا تو انھوں نے ایک اچھی بات کی جو وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حسن چشتی نے اپنی زندگی میں جو کارنامے انجام دئے ہیں ان کا صرف بیس فیصد احاطہ ہی ان کی شائع شدہ تصویروں میں ہو سکا ہے۔ ان کے اسّی فیصد کارنامے ایسے ہیں جن کا تحریری طور پر ذکر ہونا اب بھی باقی ہے۔ غرض حسن چشتی ہمارے ان دوستوں میں سے ہیں جن کا خیال ذہن میں آتے ہی فاصلے کسی ویزا کے بغیر سمٹنے لگ جا تے ہیں اور وقت کسی گھڑی کی مدد کے بغیر پھیلنے لگ جا تا ہے۔
بہرحال شکاگو میں مختلف اوقات میں ہمیں کئی دنوں تک رہنے کا موقع ملا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ شکاگو میں ہمارے لئے الگ سے کوئی محفل منعقد ہو۔ لیکن بھلا ہو عزیزی غوثیہ سلطانہ کا کہ انھوں نے بالآخر زندہ دلان شکاگو کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کر ہی ڈالا۔ انھوں نے کہا کہ شکاگو میں آپ کا جشن تو ہو چکا ہے۔ اب آپ کی روسٹنگ Roastingبھی ہونی چاہیے۔روسٹنگ انگریزی اصطلاح ہے جس کے لغوی معنیٰ بھُنائی اور کھنچائی وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ خیر اس محفل میں ہماری روسٹنگ تو نہیں ہوئی البتہ حسب معمول Boostingضرور ہوئی۔ہم نے اور ہمارے دوست جلیل قادری نے تجویز رکھی تھی کہ زندہ دلان شکاگو کی اس محفل میں ہماری کھنچائی کے علاوہ سلیمان خطیب مرحوم کو بھی یاد کیا جائے۔ضمیر جعفری مرحوم نے غوثیہ سلطانہ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اردو ادب کی چاند بی بی سلطانہ ہیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ چاند بی بی سلطانہ کو اگر آج کے حالات میں شکاگو میں کسی ادبی محفل کے انعقاد کے لئے کہا جاتا تو وہ یقیناً نا کام ہو جاتی۔اس محفل کے انعقاد کا سہرا غوثیہ سلطانہ کے حسن انتظام کے علاوہ ہمارے دوست جلیل قادری کی انتھک دوڑ دھوپ اور شکاگو کی ممتاز سماجی شخصیت راشد علی خان کی عملی دلچسپی کے سر جاتا ہے۔برسوں پہلے ہمارے دوست محمود الحسن خان صوفی کی معرفت راشد علی خان سے حیدرآباد میں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔راشد علی خان نے زندہ دلان شکاگو کی خاطر ڈیوان پر واقع اپنا وسیع اور شاندار آڈیٹوریم مفت میں دے دیا تھا۔راشد علی خان کا شمار شکاگو کی ذی حیثیت ہستیوں میں ہوتا ہے اور وہ ایسے کاموں کی آئے دن سرپرستی کرتے رہتے ہیں۔ ہم سے جب بھی ملے بڑی محبت اور گرم جوشی سے ملے۔اس محفل میں نیاز گلبرگوی،حسن چشتی،ڈاکٹر مظفرالدین فاروقی، مصلح الدین سعدی، پرویز یداللہ مہدی،سید مصطفیٰ(ایڈوکیٹ)، شاہد اسحاقی،واجد ندیم، خورشید خضر، احسن قریشی اور کئی احباب نے اظہار خیال کیا۔خطیب مرحوم ہمیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور ان کے بچوں نے بھی اس تعلق خاطر کو برقرار رکھا ہے۔امریکہ پہنچتے ہی ان کے فرزند شاہین خطیب اور بیگم سلیمان خطیب سے ہماری بات ہو گئی تھی بلکہ تقریباً روز ہی بات ہوتی رہی۔ نیویارک جانے سے پہلے ہم بطور خاص فلے ڈلفیا سے نیو جرسی گئے جہاں سلیمان خطیب کے پانچوں بیٹوں سے ہماری ملاقات ہو گئی۔وہ اتوار کا دن تھا۔سلیمان خطیب کے بڑے فرزند شاہین خطیب کے گھر ان کے باقی چاروں بیٹے یامین خطیب،تمکین خطیب،متین خطیب،اور تحسین خطیب اپنے اہل و عیال کے ساتھ جمع تھے۔ ہم مذاق مذاق میں خطیب بھائی سے کہا کرتے تھے کہ انھوں نے چھٹا بیٹا محض اس ڈر سے نہیں پیدا کیا کہ کہیں اس کا نام ’نمکین خطیب‘ نہ رکھنا پڑ جائے۔ تاہم وہ مساوات کے قائل تھے۔پانچ بیٹے پیدا کیے تو پانچ بیٹیاں بھی پیدا کیں۔ ان بچوں کی خوشحال زندگی کو دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی اس کا حال ہم کیسے بیان کریں۔ خیال آیا کہ کاش سلیمان خطیب آج زندہ ہوتے اور اپنے بچو ں کی خوشیوں کو دیکھ پاتے۔ ان کی اولاد میں ڈاکٹر شمیم ثریا اور تحسین خطیب کو ادب سے گہرا شغف رہا ہے۔تحسین خطیب تو ایک زمانہ میں لکھا بھی کرتے تھے۔ اس بار بھی تحسین خطیب نے باتوں باتوں میں ایک دلچسپ بات کہی۔کہنے لگے کرکٹ میں ’میچ فکسنگ‘ تواب شروع ہوئی ہے لیکن ہمارے اردو ادب میں تو ہمارے نام نہاد نقادوں کے ہاتھوں اس طرح کی ’فکسنگ‘ پرانی بات ہے۔ جسے چاہا منصب عطا کر دیا اور کسی کو ان کے خلاف کچھ کہنے کی توفیق عطا نہیں ہوئی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تحسین خطیب اس موضوع پر کچھ لکھیں۔
سلیمان خطیب کے بچّے جس طرح بیگم خطیب کی نگہبانی اور خدمت کرتے ہیں وہ نئی نسل کے لئے قابل تقلید بات ہے۔