صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


لیلیٰ

شہزاد قیس

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

غزلیں

زَر پرستی حیات ہو جائے

اِس سے بہتر وَفات ہو جائے


پھر میں دُنیا میں گھوم سکتا ہوں

جسم سے گر نجات ہو جائے


ایک دیوی کی آنکھ ایسے لگی

جیسے مندر میں رات ہو جائے


بُت شِکن کیا بگاڑ سکتا ہے؟

دِل اَگر سومنات ہو جائے


کتنے بیمارِ عشق بچ جائیں !

حُسن پر گَر زکات ہو جائے


آپ دِل چور ہو، ہم اہلِ دِل

وقت دو، واردات ہو جائے


آنکھ پڑھنا جسے بھی آ جائے

ماہرِ نفسیات ہو جائے


عشق جب عینِ ذات ہو جائے

خالقِ معجزات ہو جائے


عُمر بھر چُپ رہو تو ممکن ہے

کُن کہو کائنات ہو جائے


عکسِ لیلیٰ سے قیس  بات تو کر!

عین ممکن ہے، بات ہو جائے

٭٭٭


چاند پر اِک مے کدہ آباد ہونا چاہیے

یا محبت کو یہیں آزاد ہونا چاہیے


قاضیِ مِحشَر! تری مرضی، ہماری سوچ ہے

ظالموں کو دُنیا میں برباد ہونا چاہیے


رُوح کے بے رَنگ اُفق پر، رات بھر گونجی ندا

دِل پرندہ، فکر سے آزاد ہونا چاہیے


خواہشِ جنت میں کرتے ہیں جو زاہد نیکیاں

نام اُن کا ’’متقی شداد‘‘ ہونا چاہیے


خوبصورت تتلیوں نے کھول کر رَکھ دی کتاب

غنچوں کی جانب سے کچھ اِرشاد ہونا چاہیے


عشق کی گیتا کے ’’پچھلے‘‘ نسخوں میں یہ دَرج تھا

طالبانِ حُسن کو فولاد ہونا چاہیے


وَصلِ شیریں تو خدا کی مرضی پر ہے منحصر

عاشقوں کو محنتی فرہاد ہونا چاہیے


نامور عُشاق کی ناکامی سے ثابت ہُوا

عشق کے مضمون کا اُستاد ہونا چاہیے


خون سے خط لکھ تو لُوں پر پیار کے اظہار کا

راستہ آسان تر ایجاد ہونا چاہیے


علم کا اَنبار راہِ عشق میں بے کار ہے

قیس  کو بس لیلیٰ کا گھر یاد ہونا چاہیے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول