صفحہ اول
کتاب کا نمونہ پڑھیں
لہو میں تر
شکیب جلالی
مجموعۂ کلام ’روشنی۔ اے روشنی‘ ا ور مزید کلام
تدوین: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
یہ جلوہ گاہِ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہئیے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے
قیدِ بیاں میں آئے جو ناگفتنی نہ ہو
وہ رابطہ جو قلب کی گہرائیوں سے ہے
نادِم نہیں داغِ فرومائیگی پہ میں
تیرا بھرم بھی میری جبیں سائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہئیے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے
قیدِ بیاں میں آئے جو ناگفتنی نہ ہو
وہ رابطہ جو قلب کی گہرائیوں سے ہے
نادِم نہیں داغِ فرومائیگی پہ میں
تیرا بھرم بھی میری جبیں سائیوں سے ہے
***
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائےبہت
کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کرا گرا ہی نہیں
اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائےبہت
نہ جانے رت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب
کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت
ہواکا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ
مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے بہت
یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرہ
میں اپنے دشت سے گزارا تو بھید پائے بہت
جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت
بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت
جمی رہے گی نگاہوں پہ تیرگی دن بھر
کہ رات خواب میں تارے اُتر کے آئے بہت
شکیبؔ کیسی اُڑان، اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے
کہ زیرِ دام جب آۓ تھے، پھڑپھڑاۓ بہت
***
یاد
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوجھاڑ دل کو چیر گئی
***