صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ٹوٹے ہوئے لفظوں میں

فاخرہ بتول

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

دوغزلیں

ہجوم میں مجھے تو نے کھڑا کیا بھی تو کیا

عدو کا کام ترے ہاتھ سے ہوا بھی تو کیا

میں جی رہی ہوں تو یہ کم ہے،غور کرنا کبھی

یہ آسماں مرے سر پہ آ پڑا بھی تو کیا

بہت سے لوگوں نے سینے پہ ہاتھ رکھے ہیں

یہ تیر آج میرے دل میں چبھ گیا بھی تو کیا

گُلاب خاک پہ رکھا تو خار مُٹھی میں

ستم شعار! تجھے یہ ہنر ملا بھی تو کیا

وہاں پہ جا کے بھی جب نامراد ہونا ہے

یہ راستہ تیری چوکھٹ پہ لے گیا بھی تو کیا

خوشی ہوئی ہے یہ سن کر مگر بتا تو سہی

تو ہو گیا جو مرے بعد با وفا بھی تو کیا

نہ دل بچا ہے نہ خواہش، ملے ہو اب جا کے

اب اِس مقام پہ مجھ کو ملے خدا بھی تو کیا

ستارے مل کے بھی یہ تیرگی مٹا نہ سکے

ہے میرے ہاتھ میں مٹی کا دِیا بھی تو کیا

اسے تو قید کی عادت سی ہو گئی تھی بتول

یہ دل ہوا تری یادوں سے اَب رہا بھی تو کیا

٭٭٭


خاک میں گزرا ہوا کل نہیں ڈھونڈا کرتے

وہ جو پلکوں سے گرا پل نہیں ڈھونڈا کرتے


پہلے کچھ رنگ لبوں کو بھی دیئے جاتے ہیں

یونہی آنکھوں میں تو کاجل نہیں ڈھونڈا کرتے


بیخودی چال میں شامل بھی تو کر لو پہلے

یوں تھکے پیروں میں پائل نہیں ڈھونڈا کرتے


جس نے کرنا ہو سوال، آپ چلا آتا ہے

لوگ جا جا کے تو سائل نہیں ڈھونڈا کرتے


یہ ہیں خاموش اگر، اس کو غنیمت جانو

یونہی جذبات میں ہلچل نہیں ڈھونڈا کرتے


پیچھے کھائی ہے تو آگے ہیں سمندر گہرا

مسئلہ ایسا ہو تو پھر حل نہیں ڈھونڈا کرتے


اِن کھلی آنکھوں سے خوابوں کو تلاشو نا بتول

پلکیں ہو جائیں جو بوجھل نہیں ڈھونڈا کرتے

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول