صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کنواں آدمی اور سمندر
عوض سعید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اندھا کنواں
روز کی طرح آج بھی وہی اندھے مہیب سائے رینگ رہے تھے۔ گو اس نے گھر کے سارے کمروں کی روشنی جلا رکھی تھی لیکن ہر بار اُسے یہی احساس ہوتا تھا کہ یہ مہیب سائے آناً فاناً میں اس کے اپنے وجود کو کسی خونخوار اژدہے کی طرح نگل جائیں گے اور وہ چُپ چاپ ایک اندھے اور بے نام کنویں میں گر پڑے گا، لیکن اس کا اپنا یہ گھر بھی تو ایک اندھا کنواں ہی ہے، جہاں وہ روز ڈوبتا اور ابھرتا رہتا ہے۔ اُسے احساس ہوا جیسے کوئی دبے پاؤں اس کے گھر کی چوکھٹ پر آ کر اُسے آواز دے رہا ہو۔
اسے کون آواز دے گا۔ کوئی بھی تو نہیں، جو اُسے اس کے اپنے نام سے پکارے۔ نہ کوئی یار نہ غم گسار۔
اس کے اپنے ہی بچے جب ایک روشن مستقبل کا بہانہ بنا کر اُسے تنہا چھوڑ جائیں تو وہ کسی اور سے کیا گلہ کرے گا۔ یہی نا کہ تم بھی میرے بچوں کی طرح خود غرض ہو۔
نہیں نہیں۔۔ اس کے سار ے دوست تو ایسے نہ تھے کہ وہ ان پر لعنت بھیجے۔ وہ اس سے ملنے آئیں تو وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا جائے، اور جب وہاں بھی آ کر اسے دبوچ لیں تو وہ نڈھال سا ہو کر کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگے اور وہ۔۔۔
پھر اُس نے دیکھا اس کے آنگن میں ایک کالا کلوٹا کوّا مرا پڑا تھا، اور دیواروں سے چمٹے ہوئے ہزاروں بدصورت کوّے شور مچا رہے تھے، ہو سکتا ہے وہ بین کر رہے ہوں، شکایت کر رہے ہوں، یہ ایک طرح کا احتجاج بھی ہو سکتا ہے،مگر اس شکایت اور اس احتجاج سے اُس کا کیا تعلق۔ کچھ بھی تو نہیں، مگر شور بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
بڑا جان لیوا شور۔۔ مگر یہ کیا ؟ وہ اسے چونچ میں دبائے کہاں اٹھا لے گئے۔
اب اس کے آنگن میں موت کی سی خاموشی طاری ہے۔ ایک عجیب سا سکوت، جیسے ہوا چلتے چلتے اچانک رک گئی ہو، جیسے شہر کے سارے راستے مسدود ہو گئے ہوں، مگر اس وقت اس کے بیمار دروازے کی چوکھٹ سے چمٹا کون کھڑا ہے۔
نہیں نہیں۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔ یہ اس کا واہمہ ہے، مگر وہ تو اسے دکھائی دے رہا ہے۔ بلکہ اس کے منجمد ہونٹ ہولے ہولے ہل بھی رہے ہیں۔ جیسے وہ ایک کرب اور آزمائش سے گزر رہا ہو، مگر وہ چوکھٹ سے چمٹا کیوں کھڑا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُسے ان کالے کلوٹے بدصورت کو وں کا انتظار ہے جو اُسے اپنی نکیلی چونچ میں دبائے دُور بہت دُور۔۔۔
نہیں نہیں یہ تو ایک۔۔۔۔
کیا کسی نے آواز دی۔
آواز۔۔۔۔۔۔۔ ؟
آواز کی چھتیں تو کب کی طوفان کی زد سے گر چکیں،اب یہاں ایک کھنڈر ہے۔ صرف ایک کھنڈر۔۔۔ ایک قبرستان مگر کھنڈر میں بھی لوگ پانی کی تلاش میں آ نکلتے ہیں۔ وہ لوگ کہاں ہیں۔ میں انہیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا تھک سا گیا ہوں۔
جب میرے بچے خود میرے لیے عصائے پیری نہ بن سکے،تو یہ لوگ۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔ دراصل یہی لوگ، یہی جیالے اس کے بیٹے ہیں، اس کے بچے ہیں ورنہ اس ویرانے میں کون آتا ہے۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ اس کے گھر آ کر ایک نظر اسے بھی دیکھ ڈالے، مگر روشنیوں سے بھرے اس گھر میں رینگتا ہوا یہ مہیب سنّاٹا، یہ تاریکی !
مگر وہ کب تک اس طرح گھٹ گھٹ کر جیے گا۔ آخر کب تک۔
وہ آدمی کچھ بولتا بھی تو نہیں۔ اُسے بولنے سے کس نے منع کیا ہے۔ کسی نے بھی تو نہیں، تو پھر اُس نے یہ چُپ کی چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے۔ وہ اس گونگی چادر کو تار تار بھی تو کر سکتا ہے۔ وہ اس کے سامنے ننگاہونا نہیں چاہتا،وہ اپنا لباس،اپنی چادر کیوں تار تار کرے۔ کوئی وجہ، کوئی سبب، کچھ بھی تو نہیں۔
ایسا سوچنا ہی غلط ہے۔ پھر صحیح کیا چیز ہے، کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔ پھر بھی سب کچھ صحیح ہے۔
مگر درمیان میں کوئی تو چیز ہو گی۔ کوئی راستہ، کوئی منزل۔
منزل کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، اور نہ راستے کی کوئی منزل۔
کیا کسی نے مجھے آواز دی۔
نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔
پھر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔
آواز۔۔۔۔۔۔ ؟
کون سی آواز۔
آواز کا کوئی نام نہیں ہوتا۔
رشتہ تو ہوتا ہو گا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ چوکھٹ پر کھڑے کھڑے ہی وہ چل بسا ہو۔
مگر وہ اس ویرانے میں آ کر کیوں مرنا پسند کرے گا۔ کیا اس کے لیے اب ایسا کوئی سائبان نہیں جہاں جا کر وہ۔۔۔
مگر یہ آواز۔۔۔ یہ شور۔۔۔۔ کہیں اس کے آنگن میں پھر کوئی کالا کلوٹا بد صورت سا کوا مرا پڑا نہ ہو۔
پھر یہ کائیں کائیں۔۔ یہ جان لیوا شور۔۔ یہ بکھرے ہوئے دانے۔۔ یہ نُچے ہوئے پَر۔ یہ سب کچھ کیا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں۔
محض ایک واہمہ۔ ایک خواب۔
کیا کوئی جاگتے میں بھی خواب دیکھ سکتا ہے۔
ہاں۔۔ دیکھ سکتا ہے۔ ضرور دیکھ سکتا ہے۔
ہیں خواب میں ہنوز کہ جاگے ہیں خواب میں۔
مگر یہ بات کہنے والا تو کبھی کا۔۔
مجھے کچھ بھی نہیں معلوم۔۔۔
پھر اسرار کا یہ پردہ کب ہٹے گا۔
کون سا اسرار۔۔۔ کون ساپردہ؟
وہ جو ہمارے درمیان ہے۔
مگر میرے گھر کے سارے زخمی پردوں کے درمیان صرف میں ہوں یا میرا وجود، تم ادھر کہاں بھٹک کر آ گئے ۰۰۰۰۰۰سارے راستے تو بند ہیں۔
راستے تمھارے لیے بند ہو سکتے ہیں، میرے لیے نہیں۔
ویسے بھٹکنا ہی شاید ہوش مندی کی علامت ہے۔
شاید سے تمھاری کیا مراد ہے۔
اپنی ذات کی بازیافت جو تمھاری بھی ہو سکتی ہے۔
میری؟
ہاں تمھاری؟ تم نے تھوڑی دیر پہلے یہی کہا تھا نا کہ تمہارے گھر کے دروازوں کے سارے پردے تو زخمی ہو چکے ہیں۔۔ گھر کے زخمی پردوں کے درمیان صرف تم ہو یا پھر تمھارا وجود۔
ہاں کہا تو تھا۔ مجھے۔ اس سے کب انکار ہے۔
انکار اقرار کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے یا اقرار انکار کے آگے ؟
میں الفاظ کے ان گورکھ دھندوں میں پھنسنا نہیں چاہتا، تم یہاں آ کر مجھے خواہ مخواہ کچوکے لگا رہے ہو۔ خدا کے لیے یہاں سے دفع ہو جاؤ۔
کیوں گھبرا گئے۔۔ وہ بھی اتنی جلد۔۔۔ ؟
سچ کا کڑوا زہر جس نے پی لیا ہو وہ کسی سے کیا گھبرائے گا۔
مگر میں دیکھ رہا ہوں تم مجھ سے گھبرا رہے ہو۔
تم نے شاید یہ زہر صرف ایک بار پیا ہے۔
میں سچ کے اس کڑوے زہر کو روزانہ چکھتا ہوں، بلکہ پیتا ہوں، کسی ٹھنڈے مشروب کی طرح کبھی آہستہ۔۔ کبھی تیز۔۔۔ بہت تیز۔
اِس پر بھی زندہ ہو۔۔۔ ؟
دیکھ نہیں رہے ہو۔ میں تمھارے سامنے ہی تو کھڑا ہوں،مجھے ٹٹولو۔ مجھے تلاش کرو۔ کنویں میں جب ڈول نہ گراؤ گے تو پانی کس طرح پیو گے۔
میں تو پیاسا ہوں جس کے لیے کنواں خود روز چل کر آتا ہے، اور میری پیاس۔۔۔ مگر لگتا ہے جیسے تم پھر بھی پیاسے ہو۔ جنم جنم کے پیاسے۔
کیا تم مجھے یہاں یہی جلی کٹی سنانے کے لیے آئے ہو۔
ہاں ہر نقاب کے پیچھے ایک حقیقت اور ہر حقیقت کے پیچھے ایک نقاب۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو۔
کچھ بھی نہیں۔۔ مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا۔ اب میں خود ایک کا سہ بکف ہوں بالکل تمھاری طرح !
مگر یہ کیا ؟ پھر وہی شور، وہی جان لیوا اور کریہ آوازیں۔
کائیں۔۔۔۔ کائیں۔۔۔۔ کائیں۔۔۔۔ کائیں۔
اُسے محسوس ہوا جیسے ساری دنیا کے بدصورت اور کالے کلوٹے کوّے اس کے وجود کے سارے ٹکڑوں کو اپنی نوکیلی چونچ میں دبائے ایک نامعلوم سمت کی طرف پرواز کر رہے ہوں !!
٭٭٭٭٭٭٭٭