صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کرشن چندر کے افسانے
کرشن چندر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
پیاسا
نواب بڑا تریلا اور زنخا سا لونڈا تھا۔ زرینہ کو اس لئے پسند تھا کہ وہ زرینہ کے ہاتھوں سے پٹ کر رو دھو کر صبر کر لیتا تھا۔ وہ دوسرے لوگوں کی طرح بوریا بستر باندھ کر رخصت نہیں ہو جاتا تھا۔ اس کے گندمی چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ اور وہ بہت دبلا تھا اور بہت کھاتا تھا۔ اور سمجھ میں نہ آتا تھا جو تھا وہ کھاتا تھا کہاں جاتا ہے اس کی آواز میں ہلکی سے تتلاہٹ تھی۔ جب وہ کھڑا ہوتا تھا تو کبھی سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ کسی دیوار یا کسی دروازے سی لگ کر نیم دراز حالت میں یوں کھڑا ہوتا تھا کہ پاؤں فرش پر گھسیٹ رہے ہیں سر بائیں طرف لٹکا ہوا ہے تو کولھا دائیں نکلا ہوا ہے۔ ایک ہاتھ ماتھے پر ہے تو دوسرے سے پیٹھ کھجا رہا ہے۔ نواب کی عورتوں کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر بات چیت کرنے کا شوق تھا۔ انہی کی طرح وہ فقرے چبا کے چٹا کر کے یا ربڑ کی طرح کھینچ کے بولتا تھا۔ مگر باہر کے کام میں بہت ہوشیار تھا۔ اس لئے اپنی تمام مضحکہ خیز اداؤں اور غمزدوں کے باوجود قابل برداشت تھا۔ گھر کا باورچی تین دن سے غائب تھا اور نواب کو کچن میں کام کرنا پڑ رہا تھا حالانکہ اس صرف اوپر کے کام کے لئے رکھا گیا تھا۔ زرینہ لڑکیوں کے کالج میں پڑھانے جاتی تھی، میں اپنے دفتر جاتا تھا۔ اس لئے اگر نواب کھانا نہ پکائے تو کون پکائے اور اس سے مشکل مسئلہ یہ تھا۔ باورچی کون ڈھونڈے اور کب؟ یہاں کسی کو فرصت ہی میسر نہ تھی۔ نواب کو جب تین دن اور کچن میں بینگن بگھارنا پڑے اور لہسن کی چٹنی پیس کر کھڑے مسالے کا قورمہ تیار کرنا پڑا تو اس کی ساری تتلاہٹ اور نسائیت ختم ہو گئی۔ مردوں کو طرح بڑے کرخت اور جھلائے ہوئے لہجے میں بول پڑا صاحب ہم سے نہیں ہوتا۔ ہم کو ایک دن کی چھٹی دو۔ ہم آپ کے لئے ایک باورچی ڈھونڈ کے لائے گا۔ کوئی باورچی ہے تمہاری نظر میں ، زرینہ نے اس کی جھجھلاہٹ پر مسکرا کر پوچھا۔ کچن سے باہر آ کر نواب کو جو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لگے تو اس کے مزاج کی نسائیت پھر ابھرنے لگی اس پر اسے گھر کی مالکن کی مسکراہٹ جو ملی اور بھی پھیل گئے۔ آپ نے ایک کندھا اوپر ا چکایا اور دوسرا نیچے کیا بایاں کولہا اندر کی طرف جھکایا، دایاں کولہا ذرا سا باہر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ ادا سے ملتے ہوئے بولے اب لائیں گے، کہیں نہ کہیں سے آپ کے لئے باورچی۔ نواب نے اپنے دیدے گھماتے ہوئے باورچی کا مسئلہ ایک پراسرار سیاسی راز کی طرح ہمارے سامنے کچھ اس طرح پیش کیا کہ جی جل کے کباب ہو گیا۔ جی چاہا سالے کو کو دوں جھانپڑ اور اس کی ساری اتراہٹ نکال دوں مگر ضرورت باورچی کی تھی۔ اور باورچی ڈھونڈنے کی فرصت مجھے نہ تھی۔ نہ زرینہ کو اس لئے نواب کو ایک دن کی چھٹ دینی پڑی۔ ایک دن کے بعد اتوار تھا۔ میں اپنے کمرے میں بیزار بیٹھا ہوا تھا ملگجی صبح کی نیلی نیلی روشنی میں اپنا سر خود ہی ہولے ہولے دبا رہا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اپنا سر ٹوتھ پیسٹ کے ٹیوب کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ جب تک دباؤ نہیں کچھ نکلتا نہیں اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نواب دونوں ہاتھوں سے دروازے کی پٹ تھامے گردن ایک طرف لٹکائے نیم باز آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ میں ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہنس پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ہم باورچی لے آئے کدھر ہے۔ میں نے ڈپٹ کر پوچھا۔ نواب خائف ہو کر ذرا سے سیدھے ہوئے اپنے دونوں بازوں دروازے کی پٹ اتار کر اپنی کمر پر رکھ لئے۔ پھر ذرا پیچھے ہٹ کر کسی اور کو راستہ دے کر بولے، اندر چلے آؤ۔ کالا دبلا پتلا کرنجی آنکھوں والا آدمی اندر آیا، عمر کوئی پینتیس برس کی ہو گی۔ چھوٹے چھوٹے کالے ہونٹ چھوٹ چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں تنگ ما تھا، بال الجھے ہوئے گال اندر دھنسے ہوئے، دانتوں کی ریخوں میں پان کا بھورا میل نمایاں شیو کے باوجود ٹھوڑی پر کہیں بال رہ گئے تھے، عجب کراہت سی محسوس ہوئی۔ تم باورچی ہو میں نے اس سے پوچھا۔ جی۔ کیا نام ہے تمہارا؟ اوم پر کاش۔ میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ پھر نواب سے کہا۔ اسے بیگم صاحب کے پاس لے جاؤ۔ وہ دیکھ لیں اور چاہیں تو رکھ لیں ۔ دوپہر کے کھانے میں شاہجہانی قورمہ اور شملہ مرچ میں بھرا قیمہ تھا۔ اور دم کئے ہوئے آلو تھے۔ مٹر پلاؤ اور رائتہ اور دو طرح کا میٹھا شاہی ٹکڑے اور وردھی حلوہ ہر چیز عمدہ اور نفیس تھی۔ صحیح ذائقے والی۔ میں نے خوش ہو کر کہا اوم پر کاش کھانا تم ٹھیک پکا لیتے ہو۔ اوم پرکاش، زرینہ میری طرف حیرت سے دیکھ کر بولی مگر اس کا نام تو اشتیاق ہے ؟ میں نے باورچی کی طرف دیکھا، جو ایک کونے میں دونوں ہاتھ اپنی ناف پر رکھے کھڑا تھا اور مجھے دیکھنے کی بجائے زمین کو دیکھ رہا تھا۔ کیوں بے تم نے مجھے اپنا نام غلط کیوں بتایا، میں نے باورچی سے پوچھا۔ بولا۔ صاحب آپ کے کمرے میں آیا اور آپ کو دیکھا تو ایسا لگا کہ شاید آپ ہندو
ہیں تو میں نے آپ کو اپنا نام اوم پرکاش بتایا، پھر میں بیگم صاحب کے کمرے میں گیا تو مجھ کو ایسا لگا جیسے وہ مسلمان ہیں تو میں نے ان کو اپنا نام اشتیاق بتا دیا۔ مگر بے وقوف، تم اک کمرے میں اوم پرکاش اور دوسرے میں اشتیاق کیسے ہو سکتے ہو۔ دلی میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ صاحب ایک گھر میں اوم پرکاش تو دوسرے گھر میں اشتیاق بتانا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ روٹی مانگتا ہے صاحب، اس نے کسی قدر شکایت لہجے میں کہا، اور اس کے لہجے سے یہ بھی معلوم ہوتا تھا جیسے شکایت اس امر کی نہیں ہے کہ اسے اپنا نام غلط کیوں بتانا پڑا بلکہ اس بات کی ہے کہ پیٹ روٹی کیوں منگتا ہے۔ اگر گرمیوں کے دن تھے دوپہر میں جب جبس بڑھنے لگا، تو میں گھبرا کر دوبارہ نہانے کے لئے باتھ روم میں جا گھسا ٹونٹی گھما کر معلوم کیا کہ شاور خراب ہو چکا ہے نواب کو آواز دی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے تلوؤں میں تیل چڑھا رہا ہے، اشتیاق بھاگا بھاگ آیا، میں نے اس سے کہا۔ چوک میں جا کر منشی پلمبر کو بلاؤ۔ شاور خراب ہے۔ میں ٹھیک کئیے دیتا ہوں ۔ اشتیاق بولا تم۔ وہ سر جھکا کر بڑی عاجزی سے بولا، جی میں پلمبنگ کا کام بھی جانتا ہوں ۔ پانچ منٹ میں اس نے شاور ٹھیک کر دیا۔ شام کو بجلی کا پیڈسٹل پنکھا جو صحن میں خراب ہو گیا۔ زرینہ نے نواب کو آواز دی تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی دوپہر کی نیند سے فارغ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اشتیاق کو بلایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ وہ چوک میں پنکھے والے کے پاس چلا جائے اور اپنے سامنے پنکھا درست کرا کے لائے، بہت گرمی ہے آج تو رات بھر صحن میں پنکھا چلے گا اشتیاق نے گہرے تجسس سے پنکھے کا معائنہ کیا معائنہ کرنے کے بعد اس نے اپنے دونوں بازو اپنی ناف پر رکھ لئے۔ بولا حضور میں یہ پنکھا ٹھیک کر سکتا ہوں ۔ کیا تم پنکھے کا کام بھی جانتے ہو۔ میں نے اس سے پوچھا۔ سر جھکا کر بولا جی بجلی کا کام بھی جانتا ہوں ، پنکھا فٹ کر لیتا ہوں ، ابھی کر کے دکھاتا ہوں ۔ ڈیڑھ گھنٹے میں پیڈ سٹل فین فرفر چلنے لگا میں نے اشتیاق کو نئی نظروں سے۔ وہ کچھ مسکرایا۔ آخر میں اکڑ کر کچھ سمیٹ کر کچھ دبک کر کچن میں چلا گیا۔ رات کو کھانے میں رام پوری چکن تھا۔ چکن کاٹو تو اندر بریانی ملتی ہے۔ بریانی ہٹاؤ تو اندر چکن چاٹ نظر آتی ہے۔ چکن چاٹ کھا لو تو اندر انڈوں کا خاگینہ ملتا ہے اور بادام اور کشمش کے ساتھ عجیب بھول بھلیاں قسم کی ڈش تھا۔ مگر ستھری اور مزے دار میں نے ایک روپیہ انعام دیا تو جھک کر سات بار کورنش بجا لائے بولے آپ نے انعام دیا ہے یہ ہے بندے پر ا کرام۔ ارے میرے منہ سے نکلا۔ جی ہاں سر جھکا کر بولے۔ میں شاعر بھی ہوں میرا تخلص تنہائی ہے۔ میری طبعیت شاعروں سے بہت الجھتی ہے سنا ہے ہر وقت پان کھاتے رہتے ہیں اور شعر اگلتے رہتے ہیں پہلے جی چاہا آج ہی جواب دے دوں ۔ پھر اگلے بیس روز میں معلوم ہوا کہ حضرت بیس بائیس دوسرے پیشے بھی جانتے ہیں ۔ کرسیاں بن لیتے ہیں ۔ مونڈھے ٹھیک کر لیتے ہیں ۔ لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا سامان بھی ٹھیک کر لیتے ہیں ۔ کیونکہ بڑھئی کا کام بھی سیکھا ہے۔ سینما کے گیٹ کیپر بھی رہ چکے ہیں ۔ گنڈیریاں بیچی ہیں ۔ پنواڑی کے ہاں بھی کام کیا ہے۔ ٹھیلا کھینچا ہے۔ کھلونوں کی فیکٹری میں کام کیا ہے حجام یہ رہ چکے ہیں ۔ سالئی سے لے کر دھلائی تک کے سب مراحل یہ پیشہ ور کی حیثیت سے پرکھ چکے ہیں ۔ بڑے عمدہ مالشئے بھی ہیں ، سر کی چمپی کے استاد ہیں ۔ کن ملئے بھی ہیں اور چاٹ بنانا بھی جانتے ہیں اور سب سے بڑی یہ بات کہ انتہائی کم خوراک ہیں ۔ زرینہ کو ان کی عادت بہت بھا گئی ہے کیونکہ وہ نواب کی اشتہا سے عاجز رہتی ہے اس لئے اس نے دھیرے دھیرے گھر کا سارا کام اشتیاق کو سونپ دیا۔ دو ماہ میں اشتیاق کا سکہ گھر میں جم گیا اس طرح بھاگ بھاگ کے کام کرتا تھا کہ نواب اور بھی کاہل اور ناکارہ ہوتا گیا اور میں نے دیکھا کہ اشتیاق بھی یہی کچھ چاہتا تھا عمر میں نواب اشتیاق سے سترہ اٹھارہ برس چھوٹا ہو گا مگر تھوڑے ہی عرصے میں نواب اشتیاق سی ایسا سلوک کرنے لگا جیسے وہ مالک ہو اور اشتیاق اس کا غلام ہو، پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ جذبہ احسان مندی میں ہو رہا ہے اور بعد میں خیال آیا ممکن ہے اشتیاق نواب پر عاشق ہو گیا ہو حالانکہ نواب پر عاشق ہونا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عاشق کی آنکھوں کی بینائی بہت کمزور ہو جس کی سماعت تقریباً نہ ہو اور کوئی لطیف جذبہ دل میں نہ ہو، بعد میں معلوم ہوا کہ میرا یہ خیال بھی صحیح نہ تھا اشتیاق نہ نواب کو اپنا محسن سمجھتا تھا اور نہ اس پر فریفتہ تھا بس اس دوسروں کھلانے کا مرض تھا اور دوسروں کو کھلا پلانے میں اک عجیب سی خوشی محسوس کرتا تھا۔ چونکہ وہ خود کم کھلاتا تھا اس لئے وہ اپنے حصے کی خوراک بھی نواب کو منتقل کر دیتا، ہمارے بعد اس کے لئے سالن کا بہترین حصہ مخصوص کر دیتا۔ پہلے اسے کھلاتا اور پھر خود کھاتا ہولے ہولے نواب نہ کام میں دلچسپی لینا بالکل ختم کر دی کسی بڑی بی کی طرح ایک کھٹیا پر آ کر پڑا رہتا اور میں نے دیکھا کہ اشتیاق اس کی فرضی بیماری بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں بڑا مزا لیتا تھا اور اسے کھٹیا پر مستقل آرام کرنے کا مشورہ دیتا اس کے لئے بازار سے دوا لاتا اور پھل سگریٹ اور بیڑی کے پیسے بھی خود دیتا کبھی کبھی ایک آدھ بش شرٹ اور پاجامہ پتلون بھی سلا دیتا۔ ہولے ہولے اشتیاق کی تنخواہ کا بیشتر حصہ نواب پر خرچ ہونے لگا۔ اور نواب اپنی تنخواہ کی کل رقم بچا کر ماں کو علی گڑھ بھیجنے لگا۔
زرینہ نے کئی بار اشتیاق کو سمجھایا اسے اپنی تنخواہ جمع کرنے کے فائدے سمجھائے مگر اشتیاق پر اس کے سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا مسکرا کر بولا۔ بیگم صاحبہ بچہ ہے۔ کھا لیتا ہے تو کیا کرتا ہے۔ ارے تم اپنے لئے بھی کچھ کر لو کم بخت۔ زرینہ چٹ کر اسے کہتی۔ دوسروں کے لئے کیوں مرتا ہے۔ میرا آگے پیچھے کون ہے بیگم صاحب۔ اشتیاق گردن جھکا کر جواب دیتا۔ بھائی نہیں ۔ بہن نہیں ۔ ماں نہیں ۔ باپ نہیں ۔ سب بھرت پور سے فسادوں میں مادے گئے۔ میرا سینہ ہر وقت خالی خالی سا رہتا ہے۔ کچھ دنوں بعد نواب کی ماں کا خط علی گڑھ سے آیا اس نے نواب کے لئے ایک لڑکی ٹھیک کر لی تھی۔ دو ماہ بعد شادی تھی ماں اسے بلا رہی تھی۔ غفور سائیکل والا جس کے ہاں دہلی آنے سے پہلے نواب کے لئے تیار ہو گیا۔ ہم بھی اندر سے بہت خوش تھے کیونکہ اب تو تقریباً مفت کی کھاتا تھا ورنہ سارا کام اشتیاق نے سنبھال لیا تھا۔ زرینہ نے بھی طے کر لیا تھا نواب کے جانے کے بعد دوپہر کے کام کے لئے کسی کو نہ رکھے گی اشتیاق کی موجودگی میں کسی دوسرے نوکر کی ضرورت نہیں تھی۔ زرینہ بولی نواب کی شادی ہو رہی ہے اب تو بھی شادی کر لے، اشتیاق میں تیری بیوی کو رکھ لوں گی، مجھے ایک ملازمہ کی ضرورت ہے۔ شادی کے نام پر میں نے دیکھا کہ اشتیاق کچھ چڑ سا گیا اس کی بھنویں تن گئیں تنگ ماتھے پر بالوں کی لٹیں ڈولنے لگیں اور اس کے چھوٹے سے ہونٹ پھڑکنے لگے۔ مگر وہ کچھ نہ بولا سر جھکا کر کھانے کہ کمرے میں سے باہر نکل گیا اس کے جانے کے بعد نواب کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی کھانے کی میز کے قریب آ کر بڑی راز داری سے بولا ارے صاحب یہ کیا شادی کرے گا اس کی بیوی تو ا س کو شادی کے دوسرے دن ہی چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ کیوں ؟زرینہ نے پوچھا۔ معلوم نہیں بیگم صاحب یہ کچھ بتاتا تو ہے نہیں۔ چند منٹ بعد ہم لوگ کھانا کھا کر صحن میں ہاتھ دھونے کے لئے آئے تو دیکھا اشتیاق کچن میں میلے برتن اور راکھ کا ڈھیر اپنے سامنے رکھ کر خال میں گھور رہا ہے اور اس کی چھوٹ چھوٹ آنکھیں کسی نا معلوم جذبے سے بھیگ کر تار سی چمک رہی تھیں ، مجھے اشتیاق میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ آٹھ دس روز بعد نواب نے علی گڑھ جانے کا پروگرام بنایا۔ ا سکے جانے پر اشتیاق چپکے چپکے بہت رویا، اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور ہونٹوں کے کونے بے طرح پھڑکتے تھے۔ مگر زبان سے اس نے کچھ نہیں کہا، اس نے نواب کے لئے سفری ناشتہ تیار کر لیا، حالانکہ صرف ڈھائی گھنٹے کا سفر تھا مگر قیمے کے پراٹھے اور سرخ مرچوں کا اچار اور آلو کا بھرتا اور بیسنی روٹی مکھن کی ایک گولی وہ نواب کی بھوک سے واقف تھا خود اپنے خرچ سے اس نے نواب کا ناشتہ تیار کیا تھا۔ اس لئے ہم شکایت بھی کر سکتے تھے۔
وہ خود نواب کے لئے ا سکوٹر لے آیا اس کا سامان ا سکوٹر پر رکھا اور اسے پرانی دلی کے اسٹیشن پر گاڑی میں سوار کرا کے واپس آیا۔ دو دن تک اس طرح مضطرب اور بے چین پھرتا رہا، جیسے اس کا گھر لٹ گیا ہو اور وہ کسی اجاڑ ویرانے میں گھوم رہا ہو۔ کھانے کا معیار ایک دم گر گیا تھا، قورمہ اس کے جذبے کی طرح تلخ تھا اور قلیہ اتنا پتلا جیسے کسی نے اس کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہو، چپاتیاں بے ڈول اور بے ڈھنگی اور ان پر جگہ جگہ مایوسی کی راکھ لگی ہوئی تھی وہ دو دن تک ہم نے کسی نہ کسی طرح صبر کر کے کھانا زہر مار کیا اور یہ سوچ لیا کہ اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو اشتیاق کے جواب دینا پڑے گا۔ مگر وہ دو دن بعد اشتیاق سنبھل گیا کہیں سے وہ ایک بلی بچہ اٹھا لایا۔ اور اب وہ بلی کا بچہ اشتیاق کی توجہ کا مرکز بن گیا گھر کا کام کرنے کے بعد وہ اپنا سارا وقت جو اس سے پہلے نواب کو دیتا تھا۔ اب بلی کے بچے کو دیتا تھا اور اپنی تنخواہ کا کافی حصہ بلی کے لئے دودھ اور گوشت پر خرچ کرنے لگا اور یوں دیکھا جائے تو بلی کا بچہ نواب سے کچھ کم نہیں تھا۔ اور اس کے عشوے و نخرے بھی نواب سے کم نہ تھے اور وہ اتنا ہی اتریلا تھا اور ویسے ہی ادائیں دکھاتا تھا اور دو دن میں اشتیاق سنبھل گیا اور کھانے کا اور کھانے کا معیار بھی ٹھیک ہوتے ہوتے پھر اپنی اصل حالت پر آگیا اور ہم لوگوں نے چین کا سانس لیا۔ اشتیاق کسی کام کو ناں نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ وہ اپنی دانست میں سب کچھ جانتا تھا یہ کسی شیخی خورے کی عادت نہ تھی اس قدر احساس کہ مجھے یہ کام بھی کر کے دکھا دینا چاہئیے اسے اپنے ذاتی وقار کے تحفظ کا بہت خیال تھا۔ اور ایک عجیب سی لگن تھی اس کے دل میں جو اسے ہر کام کو پورا کرنے کے لئے اکساتی تھی چاہے وہ اسے جانتا ہو یا نہ جنتا ہو کئی دنوں سے ریڈیو خراب پڑا تھا اور چونکہ میں ریڈیو کا کام اچھی طرح جانتا ہوں اس لئے زرینہ نے مجھے کئی بار ٹھیک کرنے کے لئے کہا مگر دفتر کی طویل جھک جھک کے بعد ذہن اور جسم دونوں اس قدر تھک جاتے ہیں کہ ریڈیو کھولنے اور ٹھیک کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں ؟ میں یہ کام آج اور کل پر ٹالتا رہا۔ ایک دن دفتر سے جو آیا تو دیکھا ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں پورا ریڈیو کھلا پڑا ہے اور اشتیاق گھبرائی ہوئی حالت میں اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور زرینہ قریب کھڑی ہوئی رونکھی ہو رہی ہے۔ میں نے آنکھوں کے اشارے ہی اشارے میں پوچھا کیا بات ہے ؟ زرینہ بولی۔ اشتیاق نے کہا تھا میں یہ ریڈیو ٹھیک کر دوں گا اور تمہیں کئی دن سے فرصت نہیں مل رہی ہے۔ اس لئے میں نے اشتیاق کا کام پر لگا دیا۔ وہ ڈھائی گھنٹے سے یہ کام کر رہا ہے۔ حالانکہ تم نے بتایا تھا کہ معمولی سا نقص ہے۔ میں معاملے کی نزاکت سمجھ گیا۔ اشتیاق اپنے چھوٹے سے ماتھے پر بال گرائے مجھ سے آنکھیں چرائے ریڈیو پر کام کر رہا تھے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ریڈیو
کھول تو لیا ہے مگر اب جوڑنا نہیں آتا پھر چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا میں نے زرینہ کو باہر بھیج دیا اور خود اشتیاق کے ساتھ کام کرنے میں مصروف ہو گیا، مگر میں نے اشتیاق کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ اسے یہ کام نہیں آتا، بلکہ میں نے اس طریقے پر کام آگے بڑھایا جیسے ہر کام اشتیاق کی مرضی ہو رہا ہے۔ گھنٹے بھر میں ریڈیو ٹھیک ہو گیا۔ زرینہ بہت خوش ہوئی اس نے اشتیاق کو دو روپے انعام دیا مگر چند دنوں بعد پھر اشتیاق کی شامت آئی، زرینہ نے کہیں اس سے پوچھا۔ کیا تم رس گلے بنا سکتے ہو؟۔ جی ہاں ۔ اشتیاق فوراً بولے۔ ایک دن بنا کے دکھاؤ؟ آج کی رات ہی کو بناؤں گا۔ رات کے کھانے کے بعد دیر تک اشتیاق کچن میں کچھ کھڑ پڑ کرتا رہا۔ انگیٹھی سے دیر تک دھواں سلگتا رہا، منہ میں بیڑی جلتی رہی، ماتھے کے بال الجھتے رہے اور کچن کی زرد روشنی دیر تک صحن میں اپنا سر ٹپکتی رہی۔ کوئی ایک بجے کے قریب کچن کی بتی بجھی اور اشتیاق نے دوسرے دن صبح ناشتے میں برف کے ٹھنڈے رس گلے تازے اور عمدہ گلاب کی خوشبو سے مہکتے ہوئے پیش کئے۔ یہ رس گلے تم نے بنائے ہیں ۔ زرینہ نے حیرت سے پوچھا۔ جی اسی خاکسار نے۔ اشتیاق دروازے سے لگ کر نظریں جھکا کر پاؤں سے فرش کریدنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ بالکل بازار کے سے معلوم ہوتے ہیں ۔ زرینہ نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہی تو ان کی خوبی ہے۔ میں نے کہا۔ سیدھی بازار سے لائے گئے ہیں ۔ جی نہیں ۔ اشتیاق نے زور سے احتجاج کیا۔ اس کے احتجاج کی شدت دیکھ کر زرینہ کا شبہ اور بھی بڑھ گیا۔ بولی تو آج رات میرے سامنے رس گلے بناؤ، میں خود دیکھوں گی۔ جی بہت اچھا۔ اشتیاق نے رس گلوں کے سلسلے میں ایک فہرست پیش کی ج منظور کر دی گئی دوپہر میں بہت دیر تک اشتیاق بازار میں رہے۔ سر شام زرینہ نے ان کے جھولے کی تلاشی لی کہ کہیں وہ رس گلے بازار سے نہ لے آئے ہوں ، رات کو کھانے کے بعد اشتیاق نے بڑے اہتمام سے رس گلے بنانے کا کاروبار کچن میں پھیلا دیا زرینہ نے گھر اندر سے بند کر کے تالا لگا دیا اور ہر پندرہ بیس منٹ بعد کچن میں جھانک لیتی تھی۔ کوئی دو بجے کے قریب جب نیند کا غلبہ ہونے لگا تو رس گلے تیار ہو گئے۔ اشتیاق ایک تاب میں رس گلے لے کر آئے تھے۔ کھانڈ کے معطر شیرے میں فینائل کو گولیوں سے بھی دو تہائی کم حجم کی سفید سفید گولیاں تیر رہی تھیں ۔ زرینہ چیخی ارے یہ رس گلے ہیں بکری کی مینگنی کے برابر؟ ابھی چھوٹے ہیں ۔ دیکھئے سمجھئیے بیگم صاحب اور یہ رس گلے ابھی چھوٹے ہیں مگر رات بھر شیرا پئیں گے، صبح کو پھول کر پورا رس گلا ہو جائیں گے۔
..........نا مکمل٭٭٭