صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کرشن چندر کے چار ڈرامے
کرشن چندر
ترتیب: سید معز الدین احمد فاروق، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
عشق کے بعد
کردار
لیلیٰ۔۔۔ مجنوں۔۔۔ مجنوں کی ماں۔۔۔ رومیو
جولیٹ۔۔۔ ہیر۔۔۔ رانجھا۔۔۔ راوی
چپڑاسی۔۔۔ فلم ڈائریکٹر۔۔۔ کلرک وغیرہ
وقت۔۔۔۔۔۔ زمانہ حال
پہلا منظر
(جب پردہ اٹھتا ہے تو اسٹیج پر اندھیرا ہے۔ صرف دائیں وینگ میں ایک چھوٹا سا لیمپ شیڈ روشنی کا ایک کمزور سا ہالہ بنائے ایک چھوٹی تپائی پر جھکا ہوا ہے اس تپائی کے سامنے ایک آرام کرسی پر ایک ادھیڑ عمر کا خوش پوش آدمی بیٹھا ہے اور ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ جب پردہ اٹھتا ہے تو اس کے چند لمحوں کے بعد وہ آدمی اپنی عینک رومال سے صاف کرتے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کے کہتا ہے۔)
راوی :آپ نے سنا ہو گا کہ محبت لازوال ہے۔ ابدی ہے کبھی نہیں مٹتی کبھی نہیں مرتی۔ سچی محبت کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا، سستی پنوں ، رومیو جولیٹ آج بھی زندہ ہیں اور محبت کر رہے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے لیکن پہلے میں اسے سچ نہیں سمجھتا تھا لیکن ایک دن کیا ہوا میں شام کے وقت شہر کے باہر چہل قدمی کو نکلا اور ذرا دور نکل گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک سے ذرا ہٹ کے خانہ بدوشوں کی دوچار جھونپڑیاں ہیں اور ان میں سے آخری اور گندی جھونپڑی کے دروازے پر ایک آدمی دستک دے رہا ہے اور زور زور سے چلا رہا ہے۔
(دستک کی آواز آتے ہی اسٹیج پر دھیرے دھیرے روشنی پھیلنے لگتی ہے اور وینگ کے قریب کا لیمپ شیڈ بجھ جاتا ہے اور کتاب پڑھنے والا آدمی کتاب لئے ہوئے ونگ کے اندر چلا جاتا ہے۔ اب اسٹیج کے اجالے میں ایک ٹوٹے ہوئے جھونپڑے کا اندرونی حصہ نظر آتا ہے۔ انتہائی مفلسی کا عالم ہے۔ دیواروں پر دھوئیں کی کلونچ ہے۔ ایک کونے میں لیلیٰ چولھے میں گیلی لکڑیاں سلگانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ بار بار پھونک مارنے سے اس کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ تمتما اٹھتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ جھونپڑا دھوئیں سے بھر رہا ہے۔ تیسری چوتھی دستک پر لیلیٰ چولھے سے اٹھ کر بائی وینگ پرجا کر دروازہ کھولتی ہے۔)
مجنوں :لیلیٰ!اے لیلیٰ!اری کمبخت لیلیٰ!! کدھر مر گئی؟دروازہ کھول۔ کب سے کھڑا دروازے پر چلا رہا ہوں۔
لیلیٰ آئی مجنوں۔ آئی!
(دروازہ کھلتا ہے۔)
لیلیٰ :کیا بات ہے ؟اتنے زور سے دروازہ پیٹ رہے ہو۔ اگر کہیں دروازہ ٹوٹ جاتا تو؟۔۔۔
مجنوں :تو نیا آ جاتا۔
لیلیٰ :(نقل کر کے) نیا آ جاتا۔۔۔ کہاں سے آ جاتا؟شادی ہوئے اتنے سال ہونے کو آئے ایک چاندی کا چھلا تولا کے دیا نہیں۔
مجنوں :محبت کو سونے اور چاندی میں نہیں تولا کرتے میری جان!(کھانستا ہے) توبہ توبہ کتنا دھواں ہو رہا ہے۔
لیلیٰ :جنگل میں گیلی لکڑیاں ہیں۔ دھواں نہ دیں گی تو کیا آگ برسائیں گی۔ تم سے تو اتنا نہ ہوا کہ مہینے میں ایک بوری کوئیلے ہی کی لا دیتے۔
مجنوں :لیلیٰ !لیلیٰ!میں آج بھی تمہارے لئے اپنی جان دے سکتا ہوں !
لیلیٰ :جان دے سکتے ہو لیکن کوئیلے کی ایک بوری نہیں دے سکتے۔
مجنوں :کہو تو میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاؤں ؟
لیلیٰ :لیکن چار گز لٹھا نہیں لا سکتے۔ دیکھتے نہیں ہو میری قمیص کا کیا حال ہو رہا ہے !
مجنوں :اماں کہاں ہیں ؟
لیلیٰ :اونٹ کو چرانے لے گئی ہیں۔ بس تمہیں تو ہر وقت اپنی اماں کی فکر پڑی رہتی ہے۔ جب باہر سے آؤ گے پوچھو گے۔ اماں کہاں ہیں ؟ باہر جاؤ گے میری امی! اچھی امی!تمہاری امی نہ ہوئیں میری جان کا روگ ہو گئیں۔ امی بڑھیا ہو گئیں لیکن کھانے میں دس جوانوں کو بھی مات کرتی ہیں۔ پرات کو ہاتھ لگائے تو روٹیاں غائب کر دے۔ ہانڈی کو ہاتھ لگائے تو سالن کی صفائی۔ جانے اس کا پیٹ ہے کہ شمعون کا اصطبل۔ جتنا گھاس دانہ، چارہ ڈالو سب ختم ہو جاتا ہے۔
مجنوں :میری اماں کو گالی نہ دوجی۔ میں تم سے ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ میں تمہاری سب باتیں گوارا کر سکتا ہوں۔لیکن اپنی اماں کے لئے گالی نہیں سن سکتا۔نہیں سن سکتا(اور اونچی آواز سے) نہیں سن سکتا۔سنتی ہو؟
لیلیٰ :سنتی ہوں۔ کوئی بہری نہیں ہوں۔ ہاں اگر اس جھونپڑی میں چند سال تمہارے ساتھ رہ گئی تو شاید بہری بھی ہو جاؤں۔ ہائے کیسی بری گھڑی تھی جب۔۔۔ جب۔۔۔ میں تمہاری میٹھی میٹھی محبت کی باتوں میں آ گئی اور تمہارے ساتھ جنگل میں چلی آئی۔
(سسکی لے کر روتی ہے۔)
مجنوں :لیلیٰ!لیلیٰ! میری جان، مجھے معاف کر دو۔ میں ذرا غصے میں تھا۔ دن بھر کا تھکا ہارا چلا آ رہا تھا۔ یہاں آ کر تم سے کچھ کڑوی باتیں سننے کو ملیں۔ منہ کا مزہ اور بگڑ گیا۔ جان من!کیا کروں میرا دل خود نہیں چاہتا کہ اپنی نازوں سے پالی، شاہی محلوں میں رہنے والی لیلیٰ کو اس خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کروں لیکن کیا کروں کہیں نوکری نہیں ملتی۔
لیلیٰ :آج Employment Exchange کے دفتر میں نہیں گئے تھے ؟
مجنوں :گیا تھا۔
لیلیٰ :پھر کیا ہوا؟
مجنوں :وہاں بے کارلوگوں کا بہت بڑا کیؤ لگا تھا۔ کہیں دو گھنٹے کے بعد میری باری آئی۔
(مجنوں اپنے مکالمے کے دوران میں اسٹیج کے مرکزی پردے کی طرف ہٹتا ہے۔ مرکزی پردے کو ہاتھ لگاتے ہی وہ پردہ اوپر اٹھ جاتا ہے۔ جھونپڑے والے سیٹ کی روشنی گل ہو جاتی ہے اور اندر والا سیٹ روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی روشنی چھن چھن کر سامنے والے جھونپڑے کے سیٹ پر پڑتی رہتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیج کا اگلا حصہ اندھیرے میں ہے اور اس اندھیرے میں لیلیٰ کھڑی گزشتہ منظر دیکھ رہی ہے۔ پیچھے حصے کے اسٹیج میں ایک Employment Exchange کا دفتر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بے کار نوجوانوں کا کیؤ کے کچھ نوجوان آگے کی میزوں پر اپنے کاغذات مکمل کرا رہے ہیں۔ مجنوں بیچ والی میز کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اس میز کا کلرک اس سے سوال کرتا ہے۔)
کلرک :تمہارا نام؟
مجنوں :مجنوں !
کلرک :باپ کا نام؟
مجنوں :خلدون۔
کلرک :کہاں تک تعلیم پائی ہے ؟
مجنوں :جی؟
کلرک :میرا مطلب ہے کہ میٹرک پاس ہو کربی اے ، ایم اے ، کون سی ڈگری لے چکے ؟
مجنوں :فی الحال تو ایک پٹھان نے میرے خلاف ایک ڈگری لے لی ہے عدالت سے۔ ایک سال سے جھونپڑے کا کرایہ نہیں دیا تھا۔
کلرک :تو گویا تم پڑھے لکھے بالکل نہیں ہو؟
مجنوں :جی نہیں۔ البتہ مادر زاد شاعر ضرور ہوں۔
کلرک :شاعری کا نوکری سے کیا تعلق؟اچھا اور کیا کام کرتے ہو؟
مجنوں :جی عشق کرتا ہوں اور صحرا صحرا ریت چھانتا ہوں اور جب اس سے جی اکتا جائے تو گریبان پھاڑ کر لیلیٰ لیلیٰ چلانے لگتا ہوں :
(گاتے ہوئے)
لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں
میری لیلیٰ بسی میرے من میں
(مجنوں گاتے گاتے چپ ہو جاتا ہے۔)
کلرک :میرے خیال سے مجنوں صاحب اگر آپ نوکری ڈھونڈنے سے پہلے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں تو اچھا رہے گا۔ آپ کی دماغی حالت مجھے بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔Next۔
(جب کلرکNext کہتا ہے تو مجنوں مایوسی سے ہٹتا ہے اور اسٹیج کے پہلے حصے یعنی اپنے جھونپڑے کے سیٹ کی طرف چلتا ہے۔ پچھلے سیٹ کی روشنی گل ہو جاتی ہے اور جب مجنوں اپنے جھونپڑے کے سیٹ میں داخل ہوتا ہے تو مرکزی پردہ پھر گر کر اسٹیج کے پچھلے حصے کو غائب کر دیتا ہے۔ مجنوں پریشان حال لیلیٰ کی طرف دیکھتا ہے جو آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی ہے۔)
مجنوں :تو یہ ہے آج کل کا زمانہ۔ یہ لوگ سچی محبت کرنے والے کو بے کار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت بڑا کام ہے۔ آپ ذرا چوکے اور محبوب غائب۔
لیلیٰ :لیکن اب تو تم پہلی سی محبت بھی مجھ سے نہیں کرتے۔
مجنوں :مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ!
لیلیٰ :کیوں ؟
مجنوں :دیکھو اب تم خود وہ پہلی سی نہیں رہیں بہت دبلی ہو گئی ہو۔
لیلیٰ :میں دبلی ہو گئی ہوں اور تم موٹے ہو گئے ہو۔ ذرا آئینے میں اپنی صورت تو دیکھو کلے پر کلا چڑھتا آ رہا ہے۔تمہاری صورت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دہی آوارہ مزاج، آشفتہ سر مجنوں ہے۔ جو صحرا صحرا جنگل جنگل اپنی محبوبہ کی محبت میں بے چین پھر تا تھا۔ ارے کچھ تو شرم کرو۔ میں تمہارے لئے گھر سے بھاگی۔ جنگل میں آ کے رہی۔ آج بھی تمہارے لئے فاقے کرتی ہوں۔ کھانا پکاتی ہوں۔ چولھے میں سر جھونکتی ہوں۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہوں۔ تار تار چیتھڑوں میں رہتی ہوں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر تمہیں کھلاتی ہوں۔ لیکن ایک تم ہو کہ میرے لئے نخلستان کی کھجوریں بھی نہیں لاتے۔
مجنوں :کیا کروں لیلیٰ کھجوریں مہنگی ہو گئی ہیں۔
مجنوں کی ماں :اری او مردار چڑیل کیا ٹھسکے سے کھڑی میرے بچے سے باتیں کر رہی ہے۔ اری دیکھتی نہیں چولھے پر ہانڈی ابلی جا رہی ہے۔
لیلیٰ :(آہستہ سے) تمہاری امی آ گئیں (زور سے) معاف کرو اماں ، باتوں ، باتوں میں دھیان نہ رہا۔
مجنوں کی ماں :باتوں باتوں میں دھیان نہ رہا۔ مردار چین سے پڑی کھاتی ہے۔
لیلیٰ :بہت لاڈ لڈاتی ہونا اماں مجھے۔ بہت سا زیور دیا تھا تم نے شادی میں مجھے۔۔۔ !
ماں :اری گھر سے بھاگنے والیوں کو بھی کوئی زیور دیتا ہے۔ وہ تو خود جہیز گھر سے لاتی ہیں۔ اتنے امیر باپ کی بیٹی اور دو کپڑوں میں اونٹ پر سوار ہو کر آ گئی۔ میں تو کہہ رہی تھی مجنوں سے ، برا پھنس رہا ہے۔ محبت میں دولت نہیں ملتی اور جہاں دولت نہ ہو وہاں آخر میں دلندری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
لیلیٰ :اچھا تو میں دلندر ہوں ؟
ماں :میرا مطلب۔۔۔
لیلیٰ :پھر کہہ تو سہی۔ نک کٹی۔ ندیدی۔ چڑیل!
مجنوں :میری اماں کو گالی نہ دو۔۔۔
لیلیٰ :کیوں نہ دوں۔ کیا ملا ہے مجھے تمہارے گھر آ کے ؟طعنے ، فاقے ، روزے ، دھکے ، مکے ، گالی گلوج!یہی تمہاری سچی محبت تھی۔۔۔ ؟ مجنوں کے بچے ؟کیا کھا کے بھینس کی طرح پھیل گیا ہے اور میں تمہاری خدمت کرتی کرتی سوکھ کر کانٹا ہوتی جا رہی ہوں۔ کیا میری خدمت کا یہی صلہ ہے ؟لاؤ میرا اونٹ کس دو۔ اس پر کجاوا اور محمل میں ابھی اپنے میکے جاتی ہوں۔
ماں :جاجا!میکے کی دھمکی نہ دے۔ میرے لڑکے کے لئے ایک نہیں ہزار بیویاں ہیں۔
لیلیٰ :بکواس نہ کر!
ماں :تو بکواس نہ کر!
لیلیٰ :(چانٹا مار کر) مردار!
ماں :(جواب میں چانٹا مار کر) بھٹیل!
لیلیٰ :بللی!
ماں :بد قدمی!
(لیلیٰ اور مجنوں کی ماں میں بڑی زوردار لڑائی ہوتی ہے۔ اس لڑائی کے دوران میں مجنوں کبھی اپنی ماں سے ، کبھی اپنی لیلیٰ سے پٹ جاتے ہیں ، آہستہ آہستہ پردہ گرتا ہے۔)
***