صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کوئلے دہکتے ہیں
شیلیش زیدی
ترجمہ اور اردو روپ : اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
رہتے تھے سر پھرے میرے جیسے یہاں ضرور
گزری ہیں اس گلی سے کبھی آندھیاں ضرور
پوچھو نہ کھنڈروں سے تباہی کی داستاں
ان میں ملیں گی تم کو میری سسکیاں ضرور
ان جھونپڑوں کی راکھ ہٹا کر تو دیکھئے
اٹھے گی ان کے بیچ سے چنگاریاں ضرور
پہلے سے اور تیز ہوئی ہے بھنور کی پیاس
ہو کر ادھر سے گذرے گی کچھ کشتیاں ضرور
کچلے ہیں پربتوں کے *شکھر ہم نے پاؤں سے
ان پتھروں پہ ہوں گے ہمارے نشاں ضرور
پتھر سے اس نے کیسے مجھے موم کر دیا
اس 'سائرہ' کے پاس ہیں کچھ خوبیاں ضرور
ہرگز نہ توڑ پائیں گے وہ رشتے پیار کے
آنا ہے ایک دن انہیں میرے یہاں ضرور
00000000
*شکھر : چوٹیاں
٭٭٭
وہ انساں اور ہوں گے راہ میں جو ٹوٹتے ہوں گے
ہمارے ساتھ جتنے لوگ ہوں گے سب کھرے ہوں گے
کرو مت پتھروں کی قیمتوں سے ہم کو آتنکت*
ہمارے پاس ایسے کتنے ہی پتھر پڑے ہوں گے
تمہارے جیتنے کے جشن میں خوشیاں منی ہوں گی
مگر کچھ لوگ چالوں پر تمہاری ہنس رہے ہوں گے
یہ کیسے سوچا تم نے ساری ندیاں سوکھ جائیں گی
سمجھتے کیوں رہے تم ریت کے سب گھر بنے ہوں گے
اندھیروں کے پرندے چھوڑ کر خوش ہو رہے ہو تم
سمجھتے ہو کہ ہر گھر میں انہیں کے گھونسلے ہوں گے
میں سچ کہتا ہوں جس دن دھوپ میں آئے گی کچھ تیزی
تمہارے پاس بس ٹوٹے ہوئے کچھ آئینے ہوں گے
بہت مضبوط تھیں ان کی جڑیں وشواس ہے مجھ کو
میں کیسے مان لوں یہ پیڑ آندھی میں گرے ہوں گے
٭٭٭