صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کوئی اظہار مت کرنا
نقاش عابدی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ترتیب حسنِ یار کے یوں خدّوخال دے
رعنائیِ خیال کی ہر گل مثال دے
دیکھے تو اس طرح کہ ستارے دمک اٹھیں
مسکان وہ کہ چاند کا چہرہ اجال دے
کچھ یوں ہو ذکرِ وصل گلستاں لہک اٹھے
خوشبو چمن کی خود کو ہوا میں اچھال دے
مت چھیڑ ذکرِ وصل کہ پردیس ہے صنم
ایسا نہ ہو کہ درد یہ مشکل میں ڈال دے
جو خواب چھوڑ کر تری محفل میں آ گیا
ایسا نہ ہو کہ تو انہیں دل سے نکال دے
کوئی غمِ فراق ہی اپنا بیان کر
اس مفلسی میں کچھ تو مجھے حسبِ حال دے
باندھا ترے خیال کا رختِ سفر ہے آج
جوشِ جنوں کو میرے تصور میں ڈھال دے
٭٭٭
جب دن میں تری یاد کے دھارے نہیں رکتے
کیوں رات کے جانے سے ستارے نہیں رکتے
روکوں بھی تو خوابوں میں چلے آتے ہیں اکثر
جاناں لب و رخسار تمھارے نہیں رکتے
کرنا ہے انہیں کون سی منزل کا تعاقب
یہ خواب جو آنکھوں کے کنارے نہیں رکتے
اب کون کرے بھاؤ کی تکرار یہاں پر
دل والوں کی دنیا میں خسارے نہیں رکتے
چنچل سی ہوئی جاتی ہیں مخمور ہوائیں
گیسو ترے سو بار سنوارے نہیں رکتے
احساس کی دنیا میں بسا کر تیرا پیکر
پھر کوئی بھی تصویر پکارے، نہیں رکتے
کیا دو گے مری جان محبت کا سہارا
بہہ نکلیں تو جذبات کے دھارے نہیں رکتے
٭٭٭