صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


کوئی آواز

قاسم خورشید

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پھانس(اقتباس)

میں گہری نیند میں تھا۔ اچانک جگ گیا۔ شاید کوئی آہٹ تھی یا پھر کسی کی آواز۔ سنا کچھ بھی نہیں تھا۔ بس قیاس کے اندھے کنویں میں بھٹک رہا تھا۔ ممکن ہے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی آنکھوں پر کسی تیز روشنی کا حملہ ہوا ہو۔ روشنی ہی شب خون مارنا چاہتی ہو۔ مگر کچھ تو ہوا تھا۔ یوں ہی دن بھر کا تھکا ہوا کوئی شخص جاگ نہیں سکتا تھا۔ بلکہ دل کی دھڑکنیں بھی بہت تیز ہو گئی تھیں ۔ انھیں سنبھال پانا بھی مشکل تھا۔ یہ بھی گمان ہوا کہ اچانک پھر کسی نے بے وقت دل پر دستک تو نہیں دی تھی۔ حالانکہ اُسے روز سونے سے پہلے یاد کرتا ہوں ۔ پتہ نہیں کب سے یہ سلسلہ قائم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید کل کی ہی بات ہے۔

’اوہ! نو۔۔۔ وھاٹ آر یو  ڈوئنگ‘ ؟

’نتھنگ! اچھا بتاؤ کیا ہوا‘؟

’تم اپنے دل سے پوچھو۔۔۔‘

’دل سے ہی پوچھ رہا ہوں ۔۔۔‘

’یو آر ناٹی‘

’سو تو ہوں ۔۔۔‘

’اچھا اب چھوڑو بھی۔۔۔‘

’کیوں ‘

’دیر ہو رہی ہے۔ آئی ایم سُولیٹ‘

’کمال ہے محض دو سال کی ملاقات ہے ابھی، اور ان دو برسوں میں تم نے مجھے صرف ۲۸۱ گھنٹے ۱۷ منٹ اور ہاں باون سکینڈ دیئے ہیں ‘۔

’اوہ۔۔۔ نو۔۔۔ تم اتنے کلکولیٹو ہو؟ میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ۔ یعنی تم ہر لمحے کا حساب رکھتے ہو‘۔

’حساب نہیں ، ان لمحوں میں اپنا احتساب کرتا ہوں کہ آخر میں ہوں کہاں ؟ تم نے میرے لیے کیا فیصلہ کیا ہے‘؟

’فیصلہ کیا۔۔۔؟ وہ سب کچھ تو ہو ہی چکا ہے جو رشتے کو یقین میں بدلنے کے لیے ضروری تھا۔۔۔‘۔

’تو پھر ہمیں کسی اور شئے کی تلاش کیوں رہتی ہے‘؟

’کس شئے کی‘؟

’کہہ نہیں سکتا۔۔۔‘

’ٹھیک ہے۔ سوچ لو آج ساری رات یہی کام کرنا۔ مجھے جانا ہے، پاپا اِز اَ لُون۔ وہ بہت جلد گھبرا جاتے ہیں ۔ تم نہیں سمجھو گے‘۔

’او کے۔۔۔ جاؤ۔۔۔ مگر ہاں کل میں شہر سے باہر جا رہا ہوں ہفتے بھر کے لیے۔ ضروری میٹنگ ہے۔ فون پر شام میں ہی باتیں ہوں گی۔۔۔‘۔

’اوکے۔۔۔ ٹیک کیئر۔۔۔ وِش یو اے ہیپّی جرنی۔۔۔ بائی۔۔۔‘۔

وہ چلی گئی۔ میں بھی سفر کی تیاری کرنے لگا۔ امی جانتی تھیں کہ بیٹے کو ہفتے بھر کے لیے باہر جانا ہے شاید اسی لیے اپنی سطح پر انھوں نے ساری تیاریاں کر دی تھیں ۔ مگر ہمیشہ کی طرح یہی کہا کہ اب مجھ سے یہ سب نہیں ہونے والا۔ اکیلی ہوں ۔ تمھارے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔ گھر میں بہو آنی چاہیے۔ جو تجھے پسند ہو وہی آئے۔ میری طرف سے کوئی بندش نہیں ہے۔ میں مسکرا کر ٹال دیا کرتا۔ مگر سفر کے دوران اس مسئلے پر ضرور سوچتا۔ امی ٹھیک ہی کہتی ہیں ۔ شادی تو کرنی ہی ہے تو پھر مزید دیر کیوں کی جائے؟

مسکان کو وہ اچھی طرح جانتی ہیں ۔ انھیں پسند بھی ہے۔ وہ اسے بہو بنا کر گھر میں لانا بھی چاہیں گی۔ چلو اس سفر میں یہ طے کر ہی لیا جائے۔ مسکان سے پوچھ ہی لیتا ہوں کہ وہ شادی کے لیے تیار ہے یا نہیں ۔

کافی لمبی دوری طے کرنے کے بعد شہر پہنچا۔ میٹنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ پاور پرزنٹیشن تھا۔ اپنے لیپ ٹاپ پر سب سے پہلے مسکان سے ملاقات کی اس کی جیتی جاگتی ایک بھرپور تصویر سے۔ زیر لب مسکرایا۔ لیپ ٹاپ (laptop) پر فیدر ٹچ سے ہی مسکان غائب ہوئی پھر پاور پرزنٹیشن کے مواد پر نظر ثانی کرنے لگا۔ انگلیاں بھی عجیب تھیں ۔ ابھی میں اپنی ساری توجہ دفتری امور پر مرکوز کرنا چاہتا تھا مگر مسکان بیچ اسکرین پر آ جاتی، اوہ نو۔۔۔ ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ اگر پیشکش کے دوران بھی ایسا ہو گیا تو بہت ہُوٹنگ ہو جائے گی۔ ہیڈ آفس تک یہ بات پہنچ جائے گی۔ نو۔۔۔ ! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مسکان۔۔۔ ! پلیز ایسا مت کرنا۔ اِٹ اِز ناٹ فیئر۔۔۔ لگتا ہے وہ مان گئی۔ وہ ہلکے سے اشارے کے بعد ہی ا سکرین سے غائب ہو گئی۔

شام سات بجے تھکا ہارا اپنے گیسٹ ہاؤس پہنچا۔ موبائل آن کرتے ہی مسکان نے پکارا۔۔۔

’یہ تم موبائل کب سے آف کرنے لگے‘

’ارے نہیں یار۔۔۔ میٹنگ میں ڈِسٹرب ہو رہا تھا۔ بس ابھی لوٹا ہوں ۔ تم سے بات کرنے کے لیے ہی اسے آن کیا تھا‘

’میٹنگ کیسی چل رہی ہے۔۔۔‘

’ ٹُو گڈ۔۔۔ ! صبح تم نے بہت ڈسٹرب کر دیا تھا‘

’میں ۔۔۔ ! میں کہاں سے آ گئی۔۔۔‘

’تم گئی کہاں ہو۔۔۔‘

’او کے۔۔۔ ! کو نسنٹریشن رکھو۔۔۔ ورک فرسٹ‘

’اور تم پر۔۔۔‘

’میں نے کام پر توجہ دینے کے لیے کہا ہے، کسی بھی کام پر۔۔۔‘

’یو آر جینیس یار‘

’سو تو میں ہوں ۔۔۔‘

’اب ہم سیریس ہو جائیں ‘

’کیوں ، کیا ہوا؟۔۔۔وہاں کوئی اور ہے کیا۔۔۔؟‘

’یہیں پر دنیا کی ہر عورت ایک ہو جاتی ہے‘

’وھاٹ ڈَز اِٹ مٖین۔۔۔‘

’پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے پاپا سے بات کی۔۔۔ اِز ہی ریڈی‘؟

’میں ان سے کیا بات کروں اور کیسے؟ ذرا سوچو، ممی کے گزر جانے کے بعد وہ ایک دم تنہا ہو گئے ہیں ۔ بھائی ڈاکٹر ہو گیا۔ بیوی بھی ڈاکٹر مل گئی۔ دونوں انگلینڈ میں سیٹلڈ ہو گئے۔ بس ہر مہینے بینک اکاؤنٹ میں روپے آ جاتے ہیں ۔ پاپا کبھی کبھی ان سے ملنے جاتے ہیں مگر لوٹ کر اور بھی اُداس ہو جاتے ہیں ۔ میں اُن سے کیسے کہوں کہ اب میں بھی آپ کو چھوڑ کر جانا چاہتی ہوں ۔ نو۔۔۔ یہ ہم سے نہیں ہو پائے گا۔۔۔‘۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول