صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کوہِ ندا
عوض سعید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اجنبی
کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ میں دریا گنج کے بس اسٹاپ پر کھڑا اوکھلا جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا، رات کے ۹ بج چکے تھے ، بس آنے میں ابھی کافی دیر تھی، میں نے ایک تازہ سگریٹ جلایا اور ایک لمبا کش لے کر دائیں بائیں بے مقصد نگاہیں ڈالیں ، بس کے انتظار میں اور بھی لوگ کھڑے تھے ، دو تین لڑکیاں ، چند بوڑھے اور ایک نوجوان جس کا چہرہ بجری کی طرح کھردرا اور مٹیالا تھا، جس کے سامنے کے دو بٹن ٹوٹے ہوئے تھے ،وہ اطمینان سے الکٹرک کے کھمبے سے لگا پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا۔ دو لڑکیاں جو میری طرح دیر سے بس کے انتظار میں کھڑی تھیں گھر جلد پہنچنے کے لیے بے چین دکھائی دے رہی تھیں۔
’’سشیلا اگر ٹیکسی لی جائے تو خواہ مخواہ آٹھ دس روپے خرچ ہو جائیں گے ، یہ ڈی ٹی ایس والے بھی عجیب منحوس لوگ ہیں ، اتنی دیر میں سروس ہوتی ہے کہ جی کڑھنے لگتا ہے۔ ‘‘
’’ جی ہاں میں خود کوئی ایک گھنٹے سے یہاں کھڑا ہوں لیکن بس آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ‘‘ اس عجیب و غریب نوجوان نے درمیان میں دخل در معقول کرتے ہوئے کہا۔ لڑکیوں نے اس کا جواب نہیں دیا اور اس سے چند قدم دور جا کھڑی ہو گئیں۔
وہ خفت کے مارے کھسیانے انداز میں میرے قریب آیا۔
پہلے تو میں جھجکا اس خیال سے کہ کہیں وہ اپنی اوٹ پٹانگ باتوں سے مجھے بور نہ کرے ، میرا خدشہ صحیح نکلا، اس نے قریب آ کر مجھ سے پوچھا۔
’ ’ کیا آپ کو اوکھلا جانا ہے۔ ‘‘
’’ ہاں ‘‘ میں نے بڑی بے پرواہی سے جواب دیا۔
’’ میں بھی اوکھلا جا رہا ہوں۔ ‘‘
تم جہنم میں کیوں نہیں جاتے ، میں دل ہی دل میں غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا۔
’ ’ماچس تو ہو گی آپ کے پاس ‘‘
’ ’ ہاں ہے۔ ‘‘
’’ تو پھر دیجیے۔ ‘‘
میں نے طوعاً و کرہاً ماچس کی ڈبیہ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
’’ سگریٹ پئیں گے آپ۔ ‘‘
’’ نہیں ‘‘
اس نے میری ماچس بغیر کسی تکلف کے اپنے پینٹ کی جیب میں رکھ لی، میں یہ سمجھ کر کہ وہ مجھے ماچس دینا بھول گیا ہے پانچ دس منٹ توقف کے بعد اس سے کہا۔
’’ ماچس نہیں لوٹاؤ گے۔ ‘‘
’’ ماچس کیا خاک لوٹائیں گے ، اس میں آٹھ دس تیلیاں ہی تو رہ گئی ہیں۔ ‘‘ اس نے بڑی بے تکلفی سے کہا۔
’’ آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ ‘‘
’’ جی ہاں آپ کا خیال بجا ہے۔ ‘‘
جب بس،اسٹاپ کے قریب آ کر ایک دھچکے کے ساتھ رک گئی تو وہ تیزی سے بس میں سوار ہو گیا، میں جب اندر داخل ہوا تو اس کی بغل والی سیٹ خالی تھی۔
میں یوں ہی کھڑا رہا تو کنڈکٹر نے کہا۔
’’ آپ وہاں بیٹھ جائیے بابو صاحب فٹافٹ۔ ‘‘
’’ ہے کوئی بگیر ٹکٹ، بگیر ٹکٹ۔ ‘‘ پنجابی کنڈکٹر نے ہانک لگائی۔ ‘‘
لاجپت نگر مارکیٹ پر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے سیٹ خالی کر دی اور میں فوراً اس جگہ بیٹھ گیا۔ اوکھلا موڑ پر ہم دونوں ساتھ ساتھ اترے۔
رات بے حد تاریک تھی، اوکھلا کا بیہودہ سا راستہ جہاں آئے دن چوری کی وارداتیں ہوتی ہیں یوں لگ رہا تھا جیسے جاتے جاتے کسی لٹیرے نے اس کے سینے پر تاریکی کا ایک بھیانک سا غلاف چڑھا دیا ہو، اوکھلا سے مجھے جامعہ نگر تک پیدل جانا تھا، میں آگے آگے چل رہا تھا اور وہ میرے پیچھے پیچھے ، اس کے پیروں کی دھما دھم سے مجھے حد درجہ خوف محسوس ہو رہا تھا۔
’’ ذرا سنیے تو ایک سگریٹ تو پلائیے۔ ‘‘
اس نے بڑے بے ڈھنگے انداز میں مجھ سے سگریٹ طلب کی جسے میں نے ایک انجانے خوف کے تحت اسے دے دیا، اندھیرے میں اس کی آنکھیں کسی گہرے کنویں میں چھپے ہوئے مینڈک کی طرح چمک رہی تھیں۔
’’ آپ گھبرائیے نہیں ، میں آپ کی جیب نہیں کاٹوں گا، جیب تو آپ جیسے سفید پوش حضرات کاٹا کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ میرا جی چاہا اسے اس گستاخی کا مزہ چکھاؤں ،لیکن دل ناتواں نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ غالباً آپ کو معلوم نہیں میں آپ کا پڑوسی ہوں ، کوئی دو ماہ سے نیچے کا کمرہ کرایہ پر لے رکھا ہے ، مکان کے بالائی حصے پر آپ رہتے ہیں جہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ہے ، میں چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد کوئی اچھا سا مکان کرائے پر لے لوں ، میں پڑھا لکھا ہوں ،ساتھ ساتھ موسیقی بھی اچھی طرح جانتا ہوں ،بمبئی میں میں نے دو تین فلموں کے پلے بیک بھی دئیے ہیں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ ایک پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ کے معمولی ٹیوٹر ہیں جس کی تنخواہ صرف ڈھائی سو روپے ہے اور آپ یہاں تنہا مجردانہ زندگی گزار رہے ہیں ، میں بڑی تمنائیں لے کر بمبئی سے دلی آیا تھا لیکن دلی نے بھی مجھے کچھ نہیں دیا۔ ‘‘
میرے تعلق سے اس نے ابھی ابھی جو دو ٹوک باتیں کہی تھیں اس میں کہیں بھی جھوٹ کا شائبہ نہ تھا، دلی میں میری نوکری غیر یقینی حالت میں گزر رہی تھی، میں ڈھائی سو روپے تنخواہ پاتے ہوئے بھی ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے میں جنم جنم کا بیروزگار ہوں۔ میں اس کی ساری باتیں چپ چاپ سنتا رہا۔ میں نے ایک طویل جماہی لی تو اس نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’ جائیے سو جائیے۔ غالباً آپ کو نیند آ رہی ہے۔ ‘‘
میں نے اوپر جا کر کمرے کی لائٹ جلائی اور کپڑے تبدیل کر کے پلنگ پر جا گرا، میں ابھی لائٹ آف کر کے بستر پر آنکھیں بند کیے پڑ ا تھا کہ وہ پھر آ دھمکا۔
’’ کیا سو گئے ہو۔ ‘‘ میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
میں تمھاری جیب سے ایک سگریٹ لے رہا ہوں ، تمھاری جیب میں غالباً کچھ روپے بھی ہیں ، میں انھیں جوں کا توں چھوڑ رہا ہوں ، اگر تم جاگ رہے ہو تو میرے جانے کے بعد پیسے گن لینا۔ ‘‘
میں سہما سہما چپ چاپ پڑ ا اس کی اس بیہودہ جسارت پر غور کرتا رہا۔۔۔ دوسرے دن صبح میں نے دیکھا دو خوبصورت لڑکیاں اس کے کمرے میں بے تکلف انداز میں بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھیں ، آج اس نے ململ کا مہین کرتا لٹھے کا پاجامہ پہن رکھا تھا، شیو بھی بنا لی تھی، جس سے اس کے چہرے کی کھردراہٹ دور ہو گئی تھی۔
جب میں سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اس کے کمرے کے نیچے آیا تو اس نے مجھے پکارا۔
بابو صاحب موسیقی سے تو آپ کو شوق ہو گا ہی، یہ میری نئی شاگرد ہیں ملکہ اور ممتاز، بڑا رسیلا گلا پایا ہے ان دونوں نے ، یہ غزل کی اپسرا ہے اور یہ گیتوں کی رانی۔
موٹی موٹی آنکھوں والی دوشیزہ نے جس کے چہرے پر حیا کی سرخی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
غزل سنیے گا یا گیت، غزل سننی ہو تو مجھ سے سنیے اور گیت اس سے۔ ‘‘
اس نے عجیب انداز سے اپنی سہیلی کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔
’ اس سے تو آپ گجل سن لیجیے ، اس نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا جس میں غصہ کم نفرت زیادہ تھی، اس کی زبان سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ لڑکی پنجابی تھی۔
میرے پڑوسی نے ہارمونیم اپنے قریب گھسیٹا اور بڑے ماہرانہ انداز میں اس کی پتلی پتلی لانبی لانبی انگلیاں ہارمونیم کی پتیوں پر دوڑنے لگیں ، پھر غزل شروع ہوئی۔
جس جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
اہلِ دل کے لیے سرمایۂ جاں ہوتا ہے
گانے کے دوران میں نے دیکھا گیتوں کی رانی بری صورت بنائے ، ناک بھوں سکیڑے اسے دیکھتی رہی، میں نے تھوڑی دیر ہی کے مطالعے سے اندازہ لگا لیا کہ یہ ایک دوسرے سے بے طرح جلتی ہیں ، غزل کی اپسرا کی آواز کچھ پھٹی پھٹی سی تھی، شاید اس لیے جگر کی خاصی اچھی غزل بھی طبعیت میں ترنگ پیدا نہ کر سکی، لیکن میں نے تکلفاً بڑی داد دی جس سے اس کا خوبصورت چہرہ دمک اٹھا۔
جب گانے کی محفل ختم ہوئی تو میرے پڑوسی نے اسٹو پر چائے بنائی اور زبردستی میرے ہاتھ میں چائے کا پیالہ تھما دیا۔
’’ کیا مجھے چائے نہیں دو گے۔ ‘‘ غزل کی اپسرا نے قدرے بے صبری سے کہا۔ ’’ اری تو کیا چائے پیتی ہے تجھے تو اولٹین ملنی چاہیے۔ ‘‘ اس نے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
ابھی تو یہ مجھ سے غزل سیکھ رہی ہے ،پھر آئندہ دیکھنا اگر یہ لتا کا بیڑہ غرق نے کر دے تو میرا نام گوہر نہیں ، اس نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’ اور مجھے آج معلوم ہوا کہ اس کا نام گوہر ہے۔ ‘‘ میں اس سے رخصت ہو کر رادھے پنواڑی کی دوکان پر آیا، اس نے مجھے دیکھتے ہی ایک گلوری بنا دی اور باتوں میں مشغول ہو گیا۔
’’ یہ جو آپ کا پڑوسی ہے نا گوہر بڑا شریف آدمی ہے ، میرے پاس اس کا کھاتا ہے ، کیا مجال کہ کبھی پہلی سے دوسری ہو جائے۔ ‘‘
ابھی وہ باتیں ہی کر رہا تھا کہ بس آ گئی اور میں انسٹی ٹیوٹ چلا آیا، انسٹی ٹیوٹ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے ہوئے میں نے سوچا۔ آج مجھے اس کے گھر گانا نہیں سننا چاہیے تھا، ٹیوٹر ہونے کے ناطے میری سماجی حیثیت بلند ہے ، میں نے خواہ مخواہ اسے لفٹ دی، اب وہ یقیناً سر چڑھ جائے گا۔
ایک دن وہ صبح ہی صبح میرے کمرے میں داخل ہوا، میں نے اسے دیکھ کر خفگی اور بے مہری سے کہا۔
’’ کس لیے آئے ہو ؟‘‘
’’ گرامو فون کمپنی والوں نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا ہے ، وہاں ایک موسیقار کی جگہ خالی ہے ، مجھے آپ کا سوٹ چاہیے ، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ آج کے دور میں خوبصورت ڈریسنگ سے بہت کچھ کام نکل جاتے ہیں۔ ‘‘
تو تم سمجھتے ہو میرے ہاں اچھے کپڑوں کا انبار ہے جو میں ایرے غیروں نتھو خیرے میں تقسیم کرتا پھروں۔ ‘‘
’’ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کے ہاں صرف ایک ہی سوٹ ہے جسے آپ بار بار پہنا کرتے ہیں ، آج مجھے وہ سوٹ چاہیے ، شام کو لوٹا دوں گا۔ ‘‘
’’ تمھیں دوسروں سے کپڑے مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی، تمھیں ہرگز اپنی کوئی چیز نہیں دوں گا، تمھارا انٹرویو جائے بھاڑ میں۔ ‘‘
میں نے غصے سے گرجتے ہوئے کہا تاکہ وہ شرم سے پانی پانی ہو کر لوٹ جائے لیکن وہ ڈھیٹ بنا کھڑا رہا، اس کے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی، اس کی مسکراہٹ میں بے شرمی سے کہیں زیادہ ڈھیٹ پن تھا۔
’’ گوہر نے زندگی میں بہت کم کسی سے مانگا ہے اور جب مانگتا ہے تو اسے لے کر ہی رہتا ہے۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ چلا تو گیا لیکن مجھے عجیب کیفیت میں چھوڑ گیا، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ آدمی ہے یا پاجامہ۔۔۔ اس دو ٹکے کے آدمی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ میری توہین کرے۔
رات دس بجے جب میں لوٹا تو کمرے میں لٹکا ہوا ملگجے رنگ کا بد صورت تالا سامنے والی گلی کے بلب کی روشنی میں صاف دکھائی دے رہا تھا، میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا،مجھے یہ جان کر سخت حیرت ہوئی۔۔۔ کمرے سے میرا سوٹ غائب تھا، میں کوفت اور غصے سے کانپ گیا، پھر میں سوچنے لگا آخر یہ ذلیل آدمی اندر کیسے داخل ہوا ہو گا، تالا تو جوں کا توں زنجیر سے لٹکا ہوا تھا، کہیں اس کے ہاں چابی تو نہیں ہو گی۔ میں نے دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ کل پولیس میں اس کی خبر کر دوں گا، میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بڑے فاتحانہ انداز میں آہستہ سے داخل ہوا، اس کے ساتھ ناٹے قد کا ایک اور شخص بھی تھا جس کا چہرہ چیچک کے داغوں سے بھرا تھا،وہ بہ یک نظر مجھے ایک خطرناک غنڈہ معلوم ہوا۔
جمن جس بابو کا صبح میں نے ذکر کیا تھا نا یہ وہی ہیں ، یہ سوٹ بھی ان ہی کا ہے لیکن سالی نوکری اچھا سوٹ پہننے پر بھی نہ مل سکی۔
اس نے آخری جملہ بڑے گمبھیر لہجے میں کہا۔
’’ بابو صاحب خفا نہ ہوئیے ، غصہ ختم کیجیے ، یہ سالا فالتو ہے ، ہر وقت کوئی لفڑا لگائے رکھتا ہے ، آپ کو ناراض کر کے اسے یہ سوٹ نہیں پہننا چاہیے تھا۔ ‘‘
پھر اس نے میرا سوٹ بڑی احتیاط سے ہینگر پر لٹکا دیا۔
’’غصہ تھوک دیجیے ،بابو صاحب غصہ تھوک دیجیے۔ ‘‘
بس جمن تو اب چپ بھی رہ، صبح یہی ہو گا نا کہ یہ بابو صاحب مجھے پولیس میں کھنچوائیں گے لیکن اس سالی دلی کی پولیس سے ڈرتا کون ہے جو سالا بمبئی میں کئی بار ’’ تڑی پار ‘‘ ہو چکا ہو اس کے لیے یہ کوئی خوف کی بات ہے ؟ پھر پولیس کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ میں نے تالا توڑ کر سوٹ چرایا تھا۔
میں بت کی طرح چپ چاپ کھڑا اس کی باتیں سنتا رہا، میری خاموشی سے اسے الجھن ہو رہی تھی، اس لیے مجھ پر ناجائز خوف طاری کرنے کی خاطر وہ اپنے حدود سے متجاوز ہو کر جو جی میں آئے بکا جا رہا تھا اور اس کا ٹھگنا سا ساتھی اسے سمجھاتے ہوئے چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ دیکھو نا جمن نے جائز طور پر کمانے کی کتنی بار کوشش کی لیکن سالی یہ دنیا کچھ اتنی بے رحم ہے کہ مجھ جیسے سخت جان کو بھی لوہے کے چنے چبوانے سے باز نہیں آئی، میں نے تنگ آ کر لڑکیوں کی سپلائی شروع کی لیکن قسم ہے پاک پروردگار کی، مجھے یکایک ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنی بہنوں کو سرِ بازار ننگا نچوا رہا ہوں ، میں نے اب اس دھندے کو لات ماردی ہے۔
آج اس کا سویا ہوا ضمیر اچانک جاگ اٹھا تھا، شاید اس لیے اس کی زبان میں شعلے کی سی لپک آ گئی تھی، پتہ نہیں اس کی باتوں کا مجھ پر کیوں اثر نہیں ہوا، اس کی کھردری، سپاٹ بے کیف سی زندگی میں آج دبے پاؤں جو انقلاب آیا تھا اس کے چاپوں کے مدھم آواز کو اس کے علاوہ کسی نے نہیں سنا تھا۔
’’ ابے چڑی مار چپ بھی رہ،بڑا آیا شریف زادہ کہیں کا، کل کی کل میں دیکھی جائے گی، پہلے بابو سے معافی مانگ لے۔ ‘‘
مگر گوہر نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، وہ نشے میں دھت معلوم ہو رہا تھا۔
’’ میری بات تو نہیں مانے گا۔ ‘‘ اس نے تتلاتے ہوئے کئی بار اس جملے کو دہرایا پھر یہ کہہ کر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکل گیا۔
’’ اب جمن کی دوستی کا دروازہ تجھ پر بند۔ ‘‘
جمن نے اس پر دوستی کا دروازہ بند کیا ہو یا نہ ہو لیکن میں نے اس کے لیے اپنے دل کا دروازہ ضرور بند کر دیا تھا، ہاں یہ ضرور تھا کہ میں نے اس کے خلاف پولیس میں رپورٹ نہیں لکھوائی تھی۔
دوسرے دن صبح گھر کے نیچے ایک ہنگامہ بپا تھا، قسم قسم کی طرح دار گالیوں کا تبادلہ کچھ اس زور و شور سے ہو رہا تھا کہ میں یکایک بستر سے اچھل پڑ ا، میں نے دیکھا رات والا ٹھگنا شخص جمن اس کا گریبان پکڑے ہوئے تھا۔
’’ جھوٹ موٹ کا لالچ دے کر مجھ سے روپے ہتھیا لیے ، نہ لڑکی دلوائی اور نہ گانا ہی سنوایا اور اب کہتا ہے یہ دھندا میں نے چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘
بہت سے لوگ کھڑے کھڑے اس لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے ، ایک گورے چٹے نوجوان نے جس کی آنکھوں پر موٹے شیشوں کا چشمہ چڑھا تھا اپنے ساتھ سے کہا :
’’ چلو پیارے یہ تو بڑے لفنگے معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’ ہاں ہاں چلو، کناٹ پییلس پر میرا انتظار کر رہی ہو گی،کتنی سویٹ لڑکی ہے وہ بڑی مشکل سے پھنسی ہے۔۔۔ ‘‘
میں نے کھڑے کھڑے سوچا اس گورے چٹے چشمے والے نوجوان اور اس لفنگے گوہر میں کیا فرق ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں ، میں نے ٹھگنے جمن سے جو اس سے الجھ رہا تھا کہا :
’’ یوں لڑنے مرنے سے کیا فائدہ، اپنے روپے پھر کبھی لے جانا۔ ‘‘
’’ اس کا روزگار تو بند ہو چکا ہے ، اب یہ سالا مجھے کیا دے گا۔ ‘‘
’’روزگار کسی کا بند نہیں ہوتا جمن۔۔۔ ‘‘ میں نے سمجھانے منانے کے انداز میں کہا، میری زبان سے اپنا نام سن کر اس کے چہرے پر خوشی کی ایک گہری چھاپ نمودار ہوئی اور وہ میری بات مان کر چپ چاپ واپس چلا گیا۔
جب سے اس نے یہ دھندا چھوڑ دیا تھا اس کی ذات میں عجیب سی تبدیلی آ گئی تھی، پہلے وہ مجھے دق کیا کرتا تھا اب وہ دروازے کی چوکھٹ پر پہروں کچھ سوچتا رہتا ہے ، میں روز صبح جاتے وقت جس طرح اسے بیٹھا دیکھتا ہوں رات میں میرے لوٹنے تک وہ اسی طرح بیٹھا دکھائی دیتا، اس کا چہرہ عجیب سا ہو کر رہ گیا تھا، اسے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا تھا جیسے یہ آدمی نہیں آدمی کا مذاق ہے۔ میں روز گھر آتے ہی اپنے کمرے کی ایک ایک چیز کا جائزہ لیتا تھا کہیں اس نے چوری نہ کی ہو۔
ایک بے روزگار شخص سے اور وہ بھی ایک لفنگے سے اس طرح کا خدشہ بے جا نہ تھا۔ ایک دن صبح جب میں اسے بے حد اداس چہرہ بنائے دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھا دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔
’’ کہیں نوکری ڈھونڈ کیوں نہیں لیتے ، اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے ملازمت تھوڑی ہی ملتی ہے۔ ‘‘ میں بولا۔
اس نے ایک لمبی سانس لی اور اپنے کمرے میں جا کر دروازے کا پٹ بھیڑ لیا پھر چند دن بعد یکایک وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ اس طرح دو ماہ بیت گئے ، ایک بار مکان کے مالک نے بھی اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا اور جاتے جاتے ایک ٹھکی ٹھکائی ہوئی توانا سی گالی فضا میں اچھال دی۔
پھر ایک رات میں تھرڈ شو دیکھ کر لوٹ رہا تھا، میں نے دیکھا اس کے کمرے میں بدستور بلب جل رہا تھا اور دروازے کے دونوں پٹ قدرے کھلے ہوئے تھے ، میں نے اوپر جاتے جاتے کمرے کی طرف دیکھا۔
گوہر کے قریب ایک خوبصورت عورت بیٹھی اس سے میٹھی میٹھی باتیں کر رہی تھی اور وہ اس سے محبت سے لپٹا ہوا تھا۔
میں دبے پاؤں اپنے کمرے میں چلا گیا، میرا ذہن منتشر تھا، مجھے کوفت تھی کہ جس دلدل سے گوہر نے اپنے آپ کو نکالا تھا پھر وہ اسی دلدل میں دھڑام سے جا گرا تھا۔
صبح آٹھ بجے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ گوہر تھا، اس کے ساتھ رات والی حسین عورت تھی۔
ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ گوہر نے خوشی سے لبریز ہو کر کہا۔
’’ یہ میری بیوی ہے بابو صاحب، مجھے نوکری مل چکی ہے۔ ‘‘
٭٭٭