صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خوابِ سبز
افضال نوید
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزل
آئے دِن کے نہ تعزِئیے ہوتے
کاش پِچھلے ہی مَرثِیے ہوتے
کربلائیں نہ خُود کو دُہراتیں
اور مسلسل نہ اَلمِیے ہوتے
بے جِہت رکھّا کرنے نے تسلِیم
ڈھُونڈتے ہم جو دِہرِیے ہوتے
سِیکھ لیتے قیامتوں سے کُچھ
کُچھ تو اسباب کر لِیے ہوتے
مُبتلا کر نہ دیتے خلقت کو
مُتحرّک نہ مافِیے ہوتے
آنکھ املاک پر نہ دِکھلاتے
چھِینا جھپٹی میں تصفِیے ہوتے
لے نہ جاتا بہاؤ میں ریلہ
بعدِ آغاز ثانِیے ہوتے
مُنہ میں آتا جو کہہ نہ دیتے وہ
بات کرنے کے زاوِیے ہوتے
بندِ ناچاقی ٹُوٹتا شاید
جوڑ کر سَر جو تصفِیے ہوتے
شاید اِس طرح ساتھ رہ پاتے
جائے آدم جو بھیڑِیے ہوتے
کھُردرے پن میں کوئی ہَل چلتا
نفسِ بنجر کے تزکِیے ہوتے
اپنی رفتار میں نِکل جاتا
چاروں جانِب بھی برقِیے ہوتے
پہلے بھرتے خلا تصادم سے
پھِر کوئی اور تخلِیے ہوتے
کائناتیں ہی کائناتیں تھِیں
جِسمِ لاغر میں حرکِیے ہوتے
ہم نے کیا کر لِیا کہ کام اُس نے
جو کہے تھے وہ کر دِیے ہوتے
پِچھلی گلیوں میں کُچھ نہ رہ جاتا
کاش سامان کَس لِیے ہوتے
کوئی بَل ہے نِکل نہیں پاتا
ہم یُونہی تو نہیں پِیے ہوتے
دھُند لایعنِیت کی چھٹ جاتی
کاش کُچھ اور تجزِیے ہوتے
اوپری یُوں نہ لگتی چادرِ تن
رُوح کے سنگ ہو لِیے ہوتے
اٹکے ہوتے ہم آنکھ بن کر ساتھ
جِتنے لمبے دورانِیے ہوتے
تیری مرضی کی بات کر سکتا
میری مرضی کے قافِیے ہوتے
اہتمام ایک درمیاں رہتا
نظمِیے ہوتے نثرِیے ہوتے
میرے اجزائے نامیاتی میں جذب
کاش کُچھ اور نامِیے ہوتے
بے عِنایت بھی ہوتا احساں مند
ہر عِنایت پہ شُکرِیے ہوتے
چھَید منظر میں ہو نہ سکتا نوید
چاروں جانِب جو حاشِیے ہوتے
٭٭٭
٭٭٭