صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


خوابِ پریشاں

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

    نماز فجر کے بعد جیسے ہی گلریز نے حویلی میں قدم رکھا اندر سے ہاتھوں میں چائے کی دو پیالیاں لیے اس کی بہن صفیہ نمودار ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ صحن میں پڑی ٹپائی کے پاس پہنچے اور بیت کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ صفیہ نے اِٹھلاتے ہوئے کہا۔

    ’’آج تو بھیا کچھ زیادہ ہی سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ کیا بات ہے؟‘‘

    اس کے سوال کو پسِ پشت ڈال کر گلریز نے کہا۔

    ’’میں ابھی اسی وقت بڑے پیر صاحب کی خانقاہ جا رہا ہوں۔ ‘‘

    ’’کیوں خیریت تو ہے؟ یہ اچانک…‘‘

    اس نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں اچانک۔‘‘

    ’’وجہ جان سکتی ہوں ؟‘‘

    گلریز چراغ پا ہو گیا۔ ’’ہر بات کی وجہ نہیں ہوتی اور پھر بتانا بھی ضروری نہیں ہوتا۔‘‘

    بھائی کا غصہ دیکھ صفیہ سہم گئی اور گھگیا کر بولی۔ ’’نہیں، نہیں میں تو صرف اس لیے پوچھ رہی تھی کہ مجھے بھی چلنا تھا بڑے پیر صاحب کی خانقاہ۔ گذشتہ بار میں نے منّت باندھی تھی۔‘‘

    ’’تو چلو تم بھی چلو کس نے منع کیا ہے تمہیں۔ لیکن دیکھو جلدی سے تیار ہو جاؤ ورنہ میں رُکنے والا نہیں ہوں۔ ‘‘

    ’’لیکن بھیا میں آج کیسے چل سکتی ہوں۔ کیا آپ اسے ایک دو دن کے لیے مؤخر نہیں کر سکتے تاکہ اپنی بہنا کو بھی ساتھ لے جا سکو۔‘‘

    ’’نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ چلنا ہے تو آج اور ابھی چلنا ہو گا ورنہ تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘

    ’’لیکن بھیا آج میں کیسے چل سکتی ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ آج میری بچپن کی سہیلی شہناز کا نکاح ہے۔ میں اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں۔ ‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول