صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


خواب کے تازہ موسم

الیاس بابر اعوان

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

غزلیں

ہم اک عمر پسِ زنگِ گفتگو ہوئے ہیں

پھر اس کے بعد زمانوں کی جستجو ہوئے ہیں


یہی نہیں در و دیوار ٹوٹ پھوٹ گئے

تعلقات بھی کچھ قابلِ رفو ہوئے ہیں


یونہی نہیں یہ مری نیند کامیاب ہوئی

ہزار خواب ہیں جو پہلے بے نمو ہوئے ہیں


یہی ہوا ہے کسی اور نے تراش دیا

تُو جیسا چاہتا تھا دیکھ ہُو بہ ہُو ہوئے ہیں


ہوا تو کچھ بھی نہیں تیری دسترس کے بعد

ہمارے خواب ہیں کچھ جو لہو لہو ہوئے ہیں


ذرا سا خواب چمکتا ہے جاگ اٹھتے ہیں

اب ایک عمر ہوئی ترکِ آرزو ہوئے ہیں

٭٭٭


نظر کا راستہ ہموار کرنے والا ہوں

خلا کو میں بدن آثار کرنے والا ہوں


مری طرح نہ کہیں راستے میں رہ جائیں

جو لوگ سوئے ہیں بیدار کرنے والا ہوں


ہواؤ کشتی بہرحال پار لے جانا

میں اپنےجسم کو پتوار کرنے والا ہوں


یہی نہیں مجھے تلوار ہی اٹھانی ہے

محبتوں کا بھی پرچار کرنے والا ہوں


بڑوں کی جنگ میں بچے نہ میرے کام آئیں

میں اپنے گھر کو ہی مسمار کرنے والا ہوں


نجانے کتنے زمانوں کا بوجھ ہے بابر

وہ ایک اشک جسے پار کرنے والا ہوں

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   

 ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول