صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خواب کنارے
ڈاکٹر راشد فضلی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیٕں
اپنے آپ میں پاگل رہنا، جیسے ہم اور تم
دیواروں کا اندھا رشتہ جیسے ہم اور تم
اپنے آپ کناروں کا احساس مٹائے کون
بیچ میں ہے اک بہتا دریا جیسے ہم اور تم
دوری، قربت دونوں کا دکھ لیکر جیتے ہیں
پیڑ تلے ہے پیڑ کا سایہ جیسے ہم اور تم
ہنس کر، رو کر ساتھ سفر میں چلتے رہنا ہے
آپس میں یوں ڈرتے رہنا جیسے ہم اور تم
اتنے دنوں کا ساتھ ہمارا، پھر کیوں لگتا ہے
سپنوں میں ان دیکھا سپنا جیسے ہم اور تم
درد کا رشتہ ایک ہے لیکن، کون سمجھتا ہے
دونوں میں ہے ایک اکیلا جیسے ہم اور تم
گھر بھی اپنا، تم بھی اپنے پھر بھی لگتا ہے
زیست ہے اپنی جنس کا سودا جیسے ہم اور تم
٭٭٭
ہے اندھیری شب سحر رکھتے ہیں لوگ
زرد ٹہنی پر ثمر رکھتے ہیں لوگ
جی رہے ہیں دوسروں سے بے خبر
کِس قدر اپنی خبر رکھتے ہیں لوگ
بند پلکوں میں ہے خوابِ نارسا
دور رس کیسی نظر رکھتے ہیں لوگ
پڑھتے رہئے اور حیرت کیجئے
ایسا چہرہ جسم پر رکھتے ہیں لوگ
تیغِ سایہ بھی جسے کر دے الگ
اپنے شانے پہ وہ سر رکھتے ہیں لوگ
کون سنتا ہے کسی کی آج کل
اب زباں بھی بے اثر رکھتے ہیں لوگ
رات ہو جاتی ہے عریاں صبح تک
روشنی کا وہ ہُنر رکھتے ہیں لوگ
کانپتی ہے رہگزارِ عشق بھی
سر پہ اپنے جب سفر رکھتے ہیں لوگ
ہو کہاں محفوظ راشد اپنے گھر
ہر مکاں میں اپنا در رکھتے ہیں لوگ
٭٭٭