صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


خواب بانٹنے والی

(افسانے) ممتاز رفیق

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                                میٹھا پان

فرید ایک جھونپڑی میں پیدا ہوا تھا اور اپنے جیسے ہی کالے پیلے بچوں کے ساتھ لڑکپن، بچپن اور جوانی گزارتا ہوا اپنی ایسی سوتی جاگتی زندگی گزارتی لڑکی سے بیاہ دیا گیا تھا۔جس دن خالی ڈھنڈار پڑے مکان میں سر اٹھاتی نئی بستی میں فرید نے اپنی جھونپڑی میں بانس گاڑھے جانو اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔جب وہ اپنی بوڑھی ماں اور بیوی کے ساتھ اپنے نئے ٹھکانے کی طرف روانہ ہوا تو اس کی جیب میں چند سو روپے بھی تھے۔ پرانی جھونپڑی اچھے داموں میں بک گئی تھی۔گھرکو سنبھالتے ہوئے زیتون نے پہلی بار ذرا شرما کر میٹھا پان لانے کی فرمائش کی تھی۔ رحیم نے جھونپڑی کے آدھے حصے میں ایک پھٹی پرانی دری ڈال کر اسے دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ رات کو جب ماں سو گئی تو اس کے حصے میں پان کا جادو جاگا۔یہ وہ واحد مسرت تھی جو وہ ایک پان کی معمولی قیمت پر حاصل کرسکتے تھے ورنہ اپنی زندگی پر بکھری سیاہی کو وہ اپنا نصیب مان چکے تھے۔ ان کی محرومیوں اور مجبوریوں نے ان میں سے زندگی میں بدلاؤ لانے کی ترنگ کو جیسے زندہ ہی نہیں رہنے دیا تھا۔رحیم کی سوچ بھی بس یہی تھی کہ کسی طرح شہر کی دکان میں نوکری مل جائے تو جانو زندگی سدھر گئی۔پکّی آبادی کے ایک بابو کی مدد سے اس کی یہ آرزو بر آئی۔ رحیم ایک خوش مزاج اور محنتی آدمی تھا اس لیے اس نے جلد سیٹھ کا اعتماد حاصل کر لیا۔اس نے مضافات سے نکل کر شہر میں قدم رکھا تو اس کے ذہن کے دریچے تازہ ہوا سے آشنا ہوئے۔ اس دوران وقت کئی کروٹیں بدل چکا تھا۔ رحیم کو اسکول جاتے ہوئے بچے بہت بھلے لگتے۔ اب وہ خود تین بچوں کا باپ بن چکا تھا،  سرکاری اسکول میں بڑی بیٹی پانچویں اور منجھلا بیٹا تیسری جماعت کے طالب علم تھے۔چھوٹی ابھی دو سال کی تھی۔وہ خوش تھا کہ اس کے بچے اس کی طرح ان پڑھ نہیں رہیں گے لیکن یہ خوشی اس نے بہت مہنگے داموں خریدی تھی۔اب اس کی قلیل تن خواہ پر فیس، کتابوں ،  یونیفارم کے علاوہ بچوں کی نت نئی فرمائشوں کا اضافی بوجھ بھی آ پڑا تھا۔بیوی کو وقت کی چکی نے پیس ڈالا تھا وہ اب اکثر بیمار رہنے لگی تھی،  کام اور تفکرات کے دیے زخموں کا علاج سرکاری اسپتال میں کہاں ممکن تھا۔ رحیم مزاجاً ایک ایمان دار شخص تھا ورنہ چھوٹی موٹی ہیرا پھیری سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے تھے لیکن اس نے کئی برس کی ملازمت کے دوران کبھی ٹکے کی بے ایمانی نہیں کی تھی۔ رات ہی سے اس کے ذہن پر بوجھ تھا دو ماہ سے بڑی کی اسکول کی فیس نہیں جا سکی تھی۔مس دھمکی دے چکی تھیں کہ فیس جلد ادا نہ کی گئی تو اسکول سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا۔منجھلے نے کئی دنوں سے کاپیوں پینسل کی رٹ لگا رکھی تھی اور چھوٹی روز گڑیا لانے کا مطالبہ کرتی تھی۔ادھر پنساری نے قرض کی ادائی کی یاد دہانی شروع کر رکھی تھی۔رحیم سوچتا پیسا آئے تو کسی پرائیوٹ ڈاکٹر سے بیوی کا علاج کرائے لیکن پیسا کہاں سے آئے یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔آج بھی وہ ان ہی تفکرات میں گھرا گھر سے نکلا لیکن دکان پہنچتے تک جیسے اسے کچھ یاد ہی نہیں رہا تھا یہ اس کی پرانی عادت تھی۔وہ معمول کے کام میں جٹ گیا۔کب شام ہوئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔ دکان بڑھانے سے کوئی گھنٹہ بھر قبل سیٹھ کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ جانے کیا بات تھی وہ فون پر بات کرتے ہوئے حواس باختہ ہوا جا رہا تھا۔بات ختم کر کے اس نے گھبراہٹ کے عالم میں گلّے سے دن بھر کی آمدنی نکالی اور اسے جلدی جلدی گن کر کرتے کی جیب میں رکھ کر رحیم کو دکان بند کرنے کی ہدایت دیتا ہوا کاؤنٹر سے نکل گیا۔ رحیم کی نظر فرش پر پڑی تو وہاں نوٹ پڑے تھے۔ اس کے دل میں آئی کے سیٹھ کو بتا دے لیکن پھر خیال آیا یہ تو خدا کی زمین پر پڑے ہیں ۔ اس نے پھرتی سے پیسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیے پھر دکان کو تالے لگا کر چابیاں سیٹھ کے حوالے کیں ۔گھر جاتے ہوئے خوشی سے اس کا دل بلّیوں اچھل رہا تھا۔ وہ تمام راستے نوٹوں کو مٹھی میں دابے رہا کہ کہیں گر نہ جائیں یا جیب ہی نہ کٹ جائے۔اپنے اسٹاپ پر اتر کر اس نے ایک ٹھیلے سے چھوٹی کے لیے گڑیا خریدی، دکان سے بیٹے کے لیے کاپی پینسلیں لیں پھر بچوں کے لیے چیز خریدی اور بیوی کے لیے پھولوں کے گجرے خریدے۔گھر جانے سے قبل اس نے پنساری کا قرض چکایا اور گھر کی جانب چلا ہی تھا کہ کچھ سوچ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ قریب ہی پنواڑی کی دکان تھی وہاں سے اس نے میٹھا پان لیا۔جب وہ لدا پھندا گھر پہنچا تو وہاں معمول کا سناٹا بکھرا ہوا تھا۔زیتون اسے جلد دیکھ کر گھبرا گئی اس کے دل میں طرح طرح کے واہمے جنم لینے لگے۔رحیم نے بچوں کو بلا کر ان میں چیزیں بانٹیں تو وہ چہچہانے لگے۔بڑی فیس لے کر بہت خوش تھی اب اسے یقین تھا کہ اس کا نام نہیں کٹے گا، زیتوں عجب وحشت کے عالم میں یہ سب دیکھ رہی تھی لیکن جب رحیم نے اس کی طرف گجرے اور پان کی پڑیا بڑھائی تو اس کی جان میں جان آئی یعنی نوکری کو کچھ نہیں ہوا تھا لیکن اس کے پاس یہ اتنے بہت پیسے کہاں سے آئے؟ وہ یہ سوچتے ہوئے چائے بنانے کے لیے چولہے کی طرف بڑھ گئی۔کریم نے چائے پیتے ہوئے اسے سب ماجرا سنایا اور اسے ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے پیسے دیے جو اس نے لے کر انگیا میں رکھ لیے۔ رحیم کے پاس اب بھی بارہ یا تیرا سو روپے موجود تھے اس نے اپنی جیب تھپتھپائی۔ چلو یہ مہینہ تو سکون سے گزر ہی جائے گا۔بچے کھانا کھا کر سو گئے اور رحیم رات کی رنگینی کے خیال سے مست تھا زیتون نے ابھی بہت ادا سے پان مونہہ میں رکھا ہی تھا کہ دروازہ دھڑدھڑانے لگا۔ رحیم نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو پولیس والے اسے دھکیلتے ہوئے اندر گھس آئے۔رحیم کون ہے؟ پولیس کا افسر غرایا جی،  میں رحیم ہوں ۔۔۔ کیا ہوا؟ رحیم کی آواز کپکپا رہی تھی۔اؤے میسنا بنتا ہے۔افسر نے گردن ناپتے ہوئے کہا:چوری بھی سینہ زوری بھی۔ اس نے ماتحتوں کو حکم دیا۔ اس کی تلاشی لو۔رحیم کی جیب سے بارہ سو اسسی روپے بر آمد ہوئے گھر میں کیا تھا جو ملتا۔افسر نے جھنجلا کر دہاڑتی آواز میں پوچھا : اور پیسے کہاں ہیں ۔بڑی نے گھرا کر ہتھیلی کھول کر روتی ہوئی آواز میں کہا : یہ میری فیس کے پیسے ہیں لے لیں ۔افسر نے حیرت سے اسے دیکھا: رکھ لے کاکی ہم ڈاکو نہیں ہیں ۔پھر افسر نے زیتون سے پوچھا : باقی پیسے کہاں ہیں ؟اس نے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: یہ میرے علاج کہ لیے تھے۔رکھ لے۔ پولیس والے نے ڈپٹ کر کہا پھر وہ رحیم کو مارتے پیٹتے موبائل کی طرف ہانک لے گئے۔زیتون سکتے کے عالم میں یہ سب دیکھ رہی تھی۔اس کے چہرے کی کالک میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول