صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خوابِ کا دیا
ڈاکٹر نگہت نسیم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
محرم یار پیارا
اب ایک منٹ کی اوقات ہی کیا تھی۔ سوائے اس کے کہ وقت آگے بڑھانے کے لیے اسے آ گے ہونا پڑتا تھا اور ہمیں گننا پڑتا تھا۔ جبھی کچھ سیانوں نے اپنی گھڑیوں میں منٹوں والی سوئی رکھی ہی نہ تھی۔ اندازے کے وقت کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ کم ہو تو مزہ۔۔۔ اور آگے ہو تو بھی فرق نہیں۔
ویسے بھی مجھے تو وقت کی چالوں سے ایسی کوئی خاص دلچسپی بھی نہ تھی کہ مرتی رہوں گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ۔
اٹھتی بھی گھڑیوں کے بغیر اور سوتی بھی سوئیوں کے بغیر۔۔۔
فجر ملے یا نہ ملے ، ہزاروں لوگو ں کی طرح بے پرواہ رہتی اور اکثر ہی دل کے اشاروں پر مور کی طرح اٹھلایا ہی کرتی، سو نماز پڑھی یا نہ پڑھی ، دل کو روگ نہیں لگایا تھا۔ تائی جی کی طرح جو ایک بھی نماز کے چھٹ جانے پر قلق سے دہری پھرا کرتیں۔ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی جائے نماز تھا۔ صفائی ستھرائی، پاکی ناپا کی بس ان کی گفتگو کا شروع آخر یہی ہوتا۔ خاندان بھر میں سنکی، شکی ، پاگل ، خبطی سمجھی اور کہلائی جاتی تھیں جنہیں وہ مسکرا کر ایک اعزاز کی طرح سنبھال رکھتیں۔
’’ رب تک رستہ ہے آسان تھوڑی ہو گا۔۔۔‘‘
پاگل پن اور جنون کے بغیر بھی منزلیں ملی ہیں کسی کو۔۔۔
ان کے چہرے کانور اتنا گہرا ہو جاتا کہ ان کی جھکی ہوئی آنکھوں سے بھی نظر نہ ملتی تھی۔ اور پھر ہم تو عمر کے اس دور میں تھے جس میں پاگل پن اور جنون صرف عشق کے کھاتے میں رکھا جاتا ہے۔
’’ ارے تمہاری تائی امی دیوانی ہو گئی ہیں۔‘‘ ریشم آپا اپنی ماں کو ہمیشہ تمہاری تائی امی کہا کرتی تھیں۔
’’ آپا! وہ آپ کی امی جی بھی ہیں۔‘‘ میں انہیں ہمیشہ کی طرح آج بھی یاد دلا رہی تھی۔
’’ہاں نا وہی۔۔۔بس دیوانی ہو گئی ہیں۔ بھلا ہر وقت کوئی کیسے جنون کر سکتا ہے۔ ایک ہی بات کا جنون۔۔۔‘‘
ریشم آپا کو بس بہانہ چاہیے تھا۔ وہی تھیں جنہیں سب سے زیادہ وضو سے گھبراہٹ ہوتی تھی۔ کبھی پانی ٹھنڈا ہوتا اور کبھی بہت گرم۔۔۔ کبھی نیل پالش کو کھرچتے وقت اپنے بالوں کو نوچنے کی دھمکی دیتی تھیں تو کبھی کپڑوں کی ناپاکی کا رونا۔۔۔ لیکن نماز کو وقت کے ساتھ ملانے پر ہمیشہ ہی خفا رہتی تھیں۔
’’ لو اور سنو۔۔۔اس نماز کا کیا فائدہ جو ماتھے پر بل ڈال دے اور دِل میں رب سے دوری۔۔۔‘‘ تائی اماں ریشم آپا کے بال نماز والے دوپٹے میں اڑستے ہوئے پیار سے کہے جاتیں اور سمجھاتیں لیکن ریشم آپا کا دِل ہمیشہ ریشم کے دھاگوں کی طرح اُلجھا ہی رہتا۔۔۔ ہر وقت خفگی کا جالا بنا رہتا۔۔۔
لیکن۔۔۔
ایک منٹ ہمیشہ کی طرح کم پڑتا۔
سوئیوں کی گرفت سے آزاد ہو جاتا۔
اور یوں ایک منٹ میں نماز قضا ہو جاتی۔
’’ ہائے ربا!‘‘ تائی امی کا کلیجہ ہول جاتا۔
اوریوں ایک منٹ کی اہمیت ہمیشہ آس پاس یوں لڑکھتی رہتی جیسے بچہ اپنے من پسند گیند کو ادھر ادھر پھینک کر بھی اسی کے پیچھے لگا رہتا ہے۔
مجھے ریشم آپا بہت اچھی لگتی تھیں۔ بالکل ریشم جیسی ملائم اور سبک سی ریشم آپا۔ ہر رنگ میں ملائم تھیں۔۔۔ہر ادا چمکدار۔۔۔
ان کے سنہرے رنگ میں عجب سی کشش تھی۔ آنکھیں غلافی تھیں اور سمندروں کے بیچ بیچ سونے کی پتلیاں ایسی گھومتی ، ڈولتیں جیسے چکور چاند کی طرف ڈولتا رہتا ہے۔
اور کبھی سنہری کنچے لگتے جو ایسے دوڑتے بھاگتے جیسے کنچے کھیلتے کھیلتے ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ان کی پلکیں اوپر نیچے گرتیں تو ایک دوسرے سے لڑاتی لیتی ہوئی لگتیں اور وہ ادائے بے نیازی سے اپنے خوبصورت بھری بھری گول کلائیوں والے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو مل دیتیں جیسے کسی بچے کو لڑائی سے روکا جاتا ہے کہ ’’خبردار جواب شرارت کی ہو۔‘‘
ان کے خوبصورت متناسب جسم پر جب دوپٹہ شانوں سے ڈھلکتا تو کلیجہ تائی امی کا دھڑک جاتا اور پھر وہ صلواتیں پڑتیں کہ میں بھی گھبرا کر اپنا دوپٹہ شانوں پر پھیلا لیتی۔
ریشم آپا کی پسند بھی لا جواب تھی۔ یوں توہر رنگ ان پر سجتا تھا لیکن میرون رنگ میں دولہن سی ہو جاتی تھیں اور پھر ان کی آنکھوں کی لڑائی جنگ میں بدل جاتی۔۔۔
وہ یونیورسٹی میں ایم اے کر رہی تھیں لٹریچر میں۔۔۔ بقول تائی امی کے ریشم کوتو نہ اردو آتی ہے اور نہ ادب سے دور کا بھی واسطہ۔ خدا جانے ، کالج یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے ماں باپ سے کیوں نہیں پوچھا جاتا۔
ایک تو تائی امی کو بس بیر ہے ریشم آپا سے۔۔۔۔
وقت بے وقت ڈانٹ پھٹکار جس کو وہ کندھے اُچکا کر ایسے سنتیں جیسے تائی امی کسی اور سے کہہ رہی ہوں۔
’’ وقت دیکھ لڑکی، کیا ہوا ہے ؟
ایک ایک منٹ کا حساب دینا ہو گا۔ یہ جو فرشتے ہیں نا دائیں بائیں جو جھٹکتی پھرتی ہو، وہی بتائیں گے منٹ منٹ کا حساب۔۔۔‘‘
ہائے ربا میرے۔۔۔ یہ پھر ایک منٹ کہاں سے آ گیا جس کی اہمیت تھی اور نہ اوقات۔۔۔ بھلا ایک منٹ کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔
لیکن ایسا ہو ا تھا۔۔۔ یہی ایک منٹ ، دنیا بدل دیتا ہے۔
ایک منٹ تو کیا اس کے ہزارویں حصے میں بھی طاقت تھی کہ وہ سب کچھ بدل سکتا تھا۔ اس حصے میں کوئی زندہ اور کوئی مردہ ، کوئی خوش تو کوئی افسردہ۔۔۔
کوئی آیا کوئی گیا۔۔۔
کوئی شیطان بنا تو کوئی انسان۔۔۔
منٹ کی ساری سوئیاں میرے آس پاس بجنے لگتیں۔
گھنٹوں کی طرح۔۔۔
پائل کی طرح۔۔۔۔
تو کہیں اڑنے لگتی تتلیوں کی طرح۔۔۔۔
میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔
’’سن مانو! تجھ سے ایک بات کہنی تھی۔ ‘‘
’’ مجھ سے ؟‘‘
میں نے چونک کر ریشم آپا کو دیکھا اور خوشی سے بھر گئی۔ واہ جی واہ ! دم میں مو ج در موج سرور اترنے لگا۔
’’جی آپا ‘‘ میں ہمہ تن گوش تھی۔
’’ مانو!پتہ ہے کیا۔۔۔‘‘ ریشم آپا نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’ اب بھلا مجھے کیا پتہ۔‘‘ میں نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
ان کی آنکھوں میں نشہ ہلکورنے لینے لگا۔ ان کی دراز پلکوں کی لڑائی بھی بند ہو گئی تھی اور دھیرے دھیرے غلافی آنکھوں پر جھک گئی تھیں جیسے سستا رہی ہوں ، آرام کرنا چاہتی ہو ں یا پھر ہار مان لی ہو۔۔۔
’’مانو‘‘ تجھے پتہ ہے ، میری کلاس میں ایک جادو گر آ یا ہے۔‘‘
’’جادو گر۔۔۔؟‘‘
میں نے سہم کر آپا کو دیکھا لیکن وہ اتنی پر سکون تھیں کہ میں حیران رہ گئی۔
یہ جادو تھا یا سَحر یا پھر مجھے ہی ایسا لگا تھا جیسے ریشم آپا ہم سے بچھڑ رہی ہیں۔۔۔ وہ میرے ساتھ تھیں۔ میرے ہاتھ کو انہوں نے اپنے نرم ملائم ہاتھوں میں لے رکھا تھا اور ان کی زبان بھی مجھ سے مخاطب تھی لیکن ان کی روح میرے ساتھ نہیں تھی۔ ان کا ذہن وہاں نہیں تھا۔ ان کی آنکھیں کسی ایسے مرکز کے گرد چکر کاٹ رہی تھیں جیسے چکور چاند کے گرد۔۔۔ریشم آپا کی نشے کے بوجھ سے مدھ بھری غلافی آنکھیں جو جھکیں تو اٹھی ہی نا!
ان کا جادو گر سَحر کر گیا تھا۔
میں ان کو پور پور بھکاریوں کی طرح پکار رہی تھی۔ اپنے سوال کو دھرا رہی تھی۔ ان کا گرم اور نم ہاتھ میری ہتھیلی میں جذب ہو رہا تھا۔
آپا نیم دراز سی اپنے لمبے بالوں سے دھیرے دھیرے کھیل رہی تھیں۔ کبھی بالوں کو کھولتیں اور کبھی باندھ دیتیں ، ان کا دوپٹہ شانوں سے ڈھلک کر دائیں طرف پڑا ہنس رہا تھا۔۔۔ میں نے سہم کر آپا کو تھام لیا۔
’’ آپا وہ جادو گر کون ہے ؟ کون ہے وہ آپا؟؟َ‘‘ میں نے انہیں کندھوں سے ہلایا۔
ریشم آپا نے مجھے یوں دیکھا جیسے واقعی پلٹ کر دیکھا ہو جاتے جاتے۔۔۔ اور اپنا ڈھلکا ہوا سفید ڈوپٹہ اٹھا کر نیوی بلیو قمیص پر یوں رکھ دیا جیسے اب اس کا کام ختم ہوا۔
وہ خود بھی تو گہرے نیلے رنگ میں پانیوں کی ہی طرح سبک سبک بہہ رہی تھیں یا بادلوں کی طرح اڑ رہی تھیں۔
’’ آپا! بتائیں نا ، کون ہے وہ جادوگر؟‘‘
انہوں نے یکبارگی حیرانی سے مجھ دیکھا اور پھر ہنس پڑیں جیسے گہرے بادلوں کی اوٹ سے سورج کھکھلا رہا ہو۔
’’ مانو اس کا نام ساحر ہے۔‘‘ انہوں نے کھلکھلاتے ہوئے بتایا۔
’’ ساحر۔۔۔ تو بہ آپا ، یہ کوئی نام ہوا۔ آخر عمر، عامر، وجاہت، احمر ، عمیر کیوں نہیں ؟‘‘
’’ اس لیے کہ وہ سب سے الگ ہے۔‘‘ انہوں نے میرے ماتھے پر پڑے ہوئے بالوں کو ہٹایا۔
ٍ عمر میں میرا ان کا چار سال کا فرق تھا لیکن مجھ میں ان میں ہزاروں برس کا فاصلہ تھا۔ کبھی ایسا لگتا جیسے وہ کوہ قاف کی پری ہوں خوب صورت سی۔۔۔ ہر کام ایک پل میں نمٹانے والی۔۔۔ کبھی شہزادی سی۔۔۔ آن بان والی۔۔۔ ہر شخص درباری لگتا ان کے حضور۔۔۔ اور ان کی بے نیازی، ان کے منصب دلبری کو اور بھی جاندار کر دیتی۔
’’ مانو ، سن رہی ہونا۔‘‘
’’جی آپا!‘‘ میں بھی درباری ہی لگ رہی تھی خود کو ، جس کا کام صرف سننا ہو تا ہے۔
’’ مانو! ساحر جب بولتا ہے ، لگتا ہے جیسے دن رات ٹھہر گئے ہوں۔۔۔ اور کیا بولتا ہے مانو، ایسے لگتا ہے جیسے یہ سب پہلی دفعہ ہی کسی نے کہا ہو جیسے سارا کا سارا سچ ہو۔۔۔ کہیں کوئی غلطی نہیں۔۔۔‘‘
اور میں نے چپکے سے سوچا کہ ایسا تو صرف ابا جی ہی کہتے ہیں۔ ہر بات سچ اور کھری کھری۔۔۔ اور پھر مجھے تو اختلاف کرنا ہی تھا۔ سو نام پر کر بیٹھی ، اب ساحر بھی کوئی نام ہوا۔
’’ تم بھی نا۔۔۔ یہ کیا نام گنوائے تم نے ، ہے کوئی ایسا نام جو ساحر جیسا اچھا اور مکمل ہو۔‘‘
’’آپا تم پاگل ہو گئی ہو۔‘‘
اور وہ میری بات پر ہنستی چلی گئی۔
دل ہی دل میں ، میں نے انہیں خوب ہی صلواتیں سنائیں لیکن بظاہر عزت کی پوٹلی سنبھالے اپنے اور ان کے درمیان اپنے چھوٹے بڑائی کے فاصلوں کو سمیٹتی رہ گئی۔ آخر پورے چار سال بڑی تھی۔ ہمارے گھر میں تو چار دن بڑے کو بھی وہی عزت حاصل تھی جو چار سال بڑے کی تھی۔ اتنے بڑے سے گھر میں جس کو دیکھ کر پرانی حویلی کا گمان زیادہ ہو تا تھا،
بی بی جی کے زمانے میں ہی تا یا جی اور ابا جی اس گھر میں اکٹھے رہا کرتے تھے۔ بچپن ، جوانی شادیاں اور سب کے بچے اسی گھر میں ہوئے تھے۔
بی بی جی کے جانے کے بعد تائی امی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی کمی بھی پوری کرتی رہتیں اس لیے کبھی کبھی اب ہم سب کو بی بی جی کی یاد کم آنے لگی تھی۔
عجیب اتفاق تھا۔ تایا جی کے ہاں بچوں میں فرہاد بھائی اور ریشم آپا تھیں اور میں امی ، اباجی کی واحد اولاد سب کی مانو۔۔۔ مجھے بھی اب اپنا اصلی نام یا د نہ رہتا تھا۔ جو صرف سرکاری کاغذوں میں لکھا رہ گیا تھا۔
مانو، میرا نام فرہاد بھائی نے رکھا تھا۔ بقول ان کے ، میں نے سب سے پہلے انہیں ہی دیکھا تھا اور اس وقت میری آنکھوں میں بلی کی آنکھوں والا تجسس اور چمک تھی اور مسکراہٹ لبوں سے ہوتی ہوئی پورے چہرے تک تھی تو انہیں اس سے اچھا نام ملا ہی نہیں اور امی جی سے کہا، کہ یہ ہماری مانو بلی ہے۔ ہماری اور صرف ہماری مانو۔۔۔، اس دن سے لے کر آ ج تک میں صرف مانو تھی سب کی۔۔۔حالانکہ آنکھوں میں چالاکی اور تجسس بھی نہ رہا تھا۔ ہاں ایک شرارت سی رہتی تھی وہاں۔۔۔ یا شاید اپنے اس طرح اہم ہونے کا نشہ تھا۔ جو بھی تھا اس نے مجھے مانو ہی رہنے دیا۔ لیکن ریشم آپا کے سامنے سب کچھ پھیکا تھا۔ میں ان جیسی شاید ہزار بار Recycleہو کر بھی آتی تو نہ بن پاتی۔
آ پا بس ریشم تھیں۔۔۔ ہر ادا سے۔۔۔ ہر رنگ سے۔۔۔ ہر زاویے سے۔۔۔
وہ ساحر کے اثر میں تھیں یا ساحرہ کے اثر میں خود ساحر آ چکا تھا۔۔۔ جو بھی تھا، مجھے حیران کر رہا تھا۔ ان کے سب سے بڑے راز کی راز دار صرف میں تھی۔
ان کے کھوئے کھوئے دن رات کی تفصیل میرے پاس تھی۔
ایک ایک منٹ پر کتنا کچھ بدل جاتا ہے اور بدل رہا تھا۔
ریشم آپا ریشم کی طرح ہاتھوں سے پھسل رہی تھیں۔ ان کی مدھ بھری آنکھیں اُٹھنا بھول گئی تھیں۔
’’ مانو ! آج وہ نہیں آیا تھا۔ ‘‘
’’ کون آپا؟‘‘میں انجان بن گئی۔
’’کون سے کیا مطلب ؟‘‘ انہوں نے ایسے حیران ہو کر دیکھا جیسے کوئی جرم کر لیا ہو میں نے ’’ مانو!‘‘ انہوں نے تنبیہاً پکارا،ایسے جیسے سرزنش کر رہی ہوں۔’’ ساحر اور کون۔‘‘
’’ اوہ۔‘‘میں نے پھر انجان بننا چاہا۔‘‘ کیوں خیر تھی نا آپا؟‘‘
’’ ہاں !‘‘ ریشم آپا پردے اٹھا کر کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔ ’’ ہاں شاید خیر ہی ہے۔ ‘‘ انہوں نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ یہ کیا بات ہوئی آپا !‘‘ میں نے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان کا زمین پر ڈھلکا ہوا دوپٹہ انہیں یاد کراتے ہوئے تھما دیا۔
’’ ساحر نے کہا تھا کہ وہ مجھ سے یونیورسٹی سے باہر اکیلے میں ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘
’’پھر؟پھر آپا؟‘‘ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ’’ پھر؟‘‘ میں نے انہیں تڑپ کر کندھوں سے ہلایا۔
’’ پتہ نہیں کیوں مانو، میں انکار نہیں کر سکی۔ میں اسے انکار نہیں کر سکتی۔‘‘ ان کی آنکھیں ابھی بھی اڑتے بادلوں کی طرح انہی کے تعاقب میں تھیں۔
’’ آپا!‘‘ میں نے انہیں اپنی طرف موڑ لیا۔
ان کی غلافی آنکھیں جھک گئی تھیں ، پلکیں بدمست سی کناروں سے لگی ہو ئی تھیں۔ سنہری چمکتی رنگت پر کشمکش کی کیفیت تھی۔
آپا میرے گلے سے لگی ہوئی تھیں۔ ان کا وجود بارشوں کے بوجھ سے جھکے اس پتے کی طرح لگ رہا تھا جوکبھی خوشی سے جھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو کبھی سہم کر کانپتا ہوا۔
پتہ نہیں کیوں مجھے اس کشمکش سے ہمیشہ ہی گھبراہٹ ہوئی تھی۔ یہ کیفیت اس وقت کا سندیسہ ہوتا تھا جب آپ کا دل نہیں چاہتا کہ یہ کام ہو اور آپ کو کرنا پڑ جائے۔۔۔ کبھی مصلحتاً تو کبھی کا دل رکھنے کے لیے۔۔۔لیکن اس کشمکش میں ایک ہار ہی ہوتی ہے اپنی اور جیت ہمیشہ دوسرے کی۔۔۔
’’آپا!پھر ؟‘‘ میں بھی اسی کشمکش کا حصہ ہو رہی تھی۔
’’ پھر کچھ نہیں مانو، پھر کیا۔۔۔ تم کیا سمجھیں ؟‘‘
آ پا کی آنکھیں سیدھی تیر کی طرح میرے دل کے آر پار ہو رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں شکوہ سا تیرنے لگا تھا۔ شاید ساحر کی بے وجہ ضد کا یا میرے شک کا۔۔۔ شکوہ تو شکوہ ہی تھا۔
اب میں بھی بھلا کیا کرتی۔ تائی امی کا ایک منٹ کا فلسفہ ایک پل میں مجھے سمجھ آ گیا تھا۔ سو میرے سر پر بھی سوار ہو گیا اور ایک منٹ کو تو یہی لگا جیسے ریشم آپا سے کوئی بہت ہی بڑی غلطی ہو گئی ہو۔
’’ مانو ! ‘‘انہوں نے مجھے ہلکے سے چھو ا۔
’’ آپا میں ڈر گئی تھی۔ میں ڈر گئی تھی آپا !‘‘ میں ان سے لپٹ گئی۔
انہوں نے مجھے آہستہ سے مجھے علیحدہ کیا اور خود تخت پر شہزادیوں کی طرح بیٹھ گئی۔ وہی ریشمی سی ریشم آپا تھی۔ نیم دراز سی گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔
اپنے بالوں سے کھیلتی ہوئی۔۔۔
وہی مدھ بھری جھکی جھکی غلامی آنکھیں۔۔۔
اور وہی لڑتی جھگڑتی پلکیں۔۔۔
ڈوبتے سورج جیسی سنہری پتلیاں تھر تھراتی تو لگتا جیسے کائنات کی سانس رک رک کر چل رہی ہو۔۔۔
خوب صورت مسکراتے ہوئے یاقوتی ہونٹ ایسے جیسے اب بولے کہ تب بولے۔۔۔
اور ان کا سرو قامت انہیں سب سے ممتاز کرتا تھا اور اس سے بھی زیادہ ان کا لہجہ ، ان کی باتیں ایسے لگتی جیسے سحر ہو جائے۔۔۔ ہوش اڑ جائیں جیسے نہ سوال آئے اور نہ جواب سوجھیں۔
نا مکمل
٭٭٭٭٭٭٭٭