صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خوابوں کا سوداگر
اور دوسرے ڈرامے
ڈاکٹر محمد حسن
ترتیب: سید معز الدین احمد فاروق، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
کچلا ہوا پھول
ڈاکٹر محمد حسن
پہلا سین
(زور دار بارش)
ایک :لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔
دوسرا :اللہ بس باقی ہوس۔ قبر تیا رہے۔ صاحبو مٹی دیجئے اور مرحوم کے لئے فاتحہ۔
(سسکیوں کی آواز)
چچا :نہ روؤ بھائی، صبر سے کام لو، مرحوم کی روح کو تکلیف ہو گی، اب ان کے لئے دعائے مغفرت کرو، یہی سب کا آخری انجام ہے اللہ بس باقی ہوس۔
(بجلی کی کڑک جملہ کو کاٹ دیتی ہے۔)
ایک :بس تو یہاں قریب کہیں سے ملتی ہو گی۔
دوسرا :بارش ہے کہ آج تھمنے کا نام نہیں لیتی۔
تیسرا :قبر کی مٹی برابر کر دو بھائی اور یہ ہار پھول سرہانے سجا دو۔
چوتھا :آؤ اس چھتری کے نیچے آ جاؤ۔ بس اسٹینڈ تک چلے چلتے ہیں۔
(بجلی کی کڑک جملے کو کاٹ دیتی ہے۔)
پہلا :اللہ بس باقی ہوس۔ اللہ باقی من کل فانی۔
دوسرا :بس یہیں قریب سے ملتی ہے۔ یہ سامنے سڑک چل رہی ہے جس پر وہ سائیکل سوار چھتری لگائے گاتا چلا رہا ہے۔(گانے کی آواز) یہ زندگی کے میلے۔ یہ زندگی کے میلے اور۔۔۔ افسوس ہم نہ ہوں گے۔
چچا :چلو بھائی چلیں۔
بھائی جان :شبو بھائی کو تیری گود میں سونپ چلا ہوں۔ مٹی کی چادر تجھے میں نے اپنا سب سے بڑا ساتھی سونپا ہے۔شبو بھائی، الوداع شبو بھائی۔
(رونے لگتا ہے۔)
چچا :چلو۔ عزیز من اب چلو۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ سب چلے گئے۔
(بارش اور بڑھ جاتی ہے اور بجلی کڑک کر یکبارگی خاموش ہو جاتی ہے)
آواز :تو آخر تم آ ہی گئے۔
شبو :کون ہو تم؟
وہی آواز :(ہلکی سی ہنسی)مجھے نہیں پہچانتے۔ ہاں میں بھول گئی ابھی تو تمہارا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تو تم جاتی دنیا کے غلام ہو۔
شبو :غلام، میں ؟
وہی :ہاں ابھی تو جسم کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ جس میں تمہاری دنیا حسن اور بدصورتی کے جلوے دیکھتی ہے۔ جس میں تم کمزور اور مضبوط، اعلیٰ اور ادنیٰ، مرد اور عورت، گورے اور کالے کا بٹوارہ کرتے ہو۔(ہلکی سی ہنسی) مگر اب آزادی میں بس تھوڑی ہی دیر اور ہے۔
شبو :آزادی!کیسی آزادی؟
آواز :تمہارا بے داغ کفن زمین کے لاکھوں کروڑوں ان جانے مہمان چاٹ ڈالیں گے پھر وہ آئیں گے جنھیں تم نے کبھی مہمان نہیں بنایا وہ کیڑے مکوڑے ، سانپ، بچھو، کاکروچ، سپنولئے یہ سب کب سے تمہارے جسم کے بھوکے ہیں۔
شبو :تم کیسی ڈراؤنی باتیں کرتی ہو؟
آواز :(پھر ہلکی سی ہنسی) یہی تو کہتی ہوں ابھی ڈرتے ہو، سارے جسم ڈرتے ہیں ، ان پر گوشت نہیں خوف کا ماس ہے۔
شبو :تم نہیں ڈرتیں ؟
آواز :کبھی ڈرتی تھی جب میرے ہونٹ جن پر شاعروں نے نظمیں لکھیں۔ چیونٹیوں کی خوراک بن گئے۔ جب میری سیاہ زلفیں جن کو کالی ناگن کہا گیا تھا مٹی میں مل کر راکھ ہو گئیں۔ میرے رخسار جن پر چاندنی ناچا کرتی تھی کیڑوں کی نذر ہو گئے۔ میرا گداز سینہ، میری نرم اور شفاف رانیں کاکروچ اور جھینگر کھا گئے اور دھیرے دھیرے میں جسم اور ڈر سے آزاد ہو گئی۔
شبو :تم کون ہو؟
آواز :میں صرف چند بچی کچی ہڈیاں اور ایک آواز، گھبراؤ نہیں موت بڑی مسیحا ہے تھوڑی دیر میں تم بھی آزاد اور بے خوف ہو جاؤ گے۔ پھر تمہیں سانپ بچھو بھی ڈرا نہیں پائیں گے۔ موت آزادی دیتی ہے۔
شبو :آزادی اور صورت۔
آواز :ہاں موت آزادی دیتی ہے۔ ہر قید اور بند سے آزادی۔ جب تمہاری آنکھیں مٹی میں مل چکی ہوں گی۔ تم دیکھو گے کہ انسانی جسم کیا تھا جس سے چند لمحے کی لذت لینے کو تم نے جرم قرار دیے رکھا تھا اور اس کے اصول مقرر کر رکھے تھے وہ فرق کیا تھا جو تم نے عورت اور مرد کے درمیان قائم کر رکھا تھا کیا ہم تم برابر نہیں ہیں۔
شبو :ہم تم!!!کون ہم تم؟
آواز :تم مرد اور میں عورت۔ کیا دونوں برابر نہیں ہیں ؟
شبو :اس لمحے سب برابر ہیں۔ سب مٹی کے کھلونے مٹی میں۔
آواز :بارش زوردار ہو رہی ہے۔ کیڑے جلد ہی نکل کر تمہیں کھا جائیں گے پھر میری ہڈیاں تمہاری ہڈیاں بھی نکال لے جائے یا کوئی بھوکا کتا اسے سڑک کے کنارے لے جا کر بھنبھوڑنے لگے۔
شبو :چپ ہو جاؤ، خدا کے لئے چپ ہو جاؤ۔
آواز :خاموشی کس کس سچائی چھپا سکے گی۔ قبرستان والی سڑک کے کنارے بارش میں بھیگے جسم اب ملنا چاہ رہے ہیں۔ ایک لمحے کی لذت کی خاطر اور دیکھتے ہو آج بھی وہ لڑکی کن کن خطروں کو دل میں لئے سمٹی جا رہی ہے لذت سے دور بھاگتی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ اس لڑکے کے ساتھ گھر نہ بسا سکے گی شادی، عصمت، خاندان یہ سب جسم سے آزاد ہونے کے بعد کیسی عجیب سی چیزیں لگتی ہیں۔
(ہنسی۔ طنز سے بھرپور ہنسی)
(بارش کا شور، بجلی کی کڑک)
شبو :موت کتنی عجیب ہے۔
آواز :یوں ہی کہہ لو۔ مگر زندگی عجیب تر ہے۔ وہ دن تمہیں یاد ہے جب میں بمبئی سے تعلیم پوری کر کے گھر لوٹی تھی۔
دوسرا سین
شبو :مارویلیس، ونڈر فل۔ آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ گھرکو واللہ ایسا سجایا ہے کہ بالکل اشوکا ہوٹل معلوم پڑ رہا ہے۔
بھابھی :آؤ شبو۔
شبو :آ رہا ہوں بھابی۔ آسمان سے زمین پر آ رہا ہوں۔ مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کی جان کی قسم یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا۔ قصہ کیا ہے۔ کیا کسی فلم کی شوٹنگ کا پروگرام ہے۔
بھابھی :ہماری ساس کو جانتے ہو تم۔ ان کے آگے کسی کی چلتی ہے بھلا۔
شبو :پھر وہی کراس ورڈ پزل میں گفتگو شروع کر دی۔ اگر اتنا بھیجا اپنے پاس ہوتا تو کروڑ پتی ہوتے ، چار چھ کاریں زوں سے دائیں طرف سے نکلتیں ، آٹھ دس بائیں طرف سے ، یا اس وقت یہ بندۂ ناچیز چاند کی سطح پر چاند بگھی میں بیٹھا حوروں کو رجھا رہا ہوتا۔ سیدھی سادی اردو زبان میں بتائیے۔ واقعہ کیا ہے ؟
بھابھی :ہماری ساس کے ایک اکلوتی بیٹی ہے ناہید۔
شبو :ہے۔
بھابھی :وہ پڑھ لکھ کر ایم اے پاس ہو کر بمبئی سے لوٹ رہی ہے۔
شبو :لوٹ رہی ہے تو پھر ۔
بھابھی :تو پھر اس کا استقبال۔
شبو :واللہ اتنی سی بات جسے افسانہ کر دیا۔
بھابھی :نہیں شبو!افسانہ نہیں بالکل حقیقت ہے۔
شبو :آداب!اماں حضور۔
بیگم :جیتے رہو بیٹے۔ میں نے تمہیں اسی لئے بلایا تھا۔ ناہید کا ہاتھ بچپن ہی میں ہم تمہارے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ آج ہم چاہتے ہیں کہ منگنی کی رسم بھی ادا ہو جائے۔
شبو :کمال کر دیا اماں حضور آپ نے ایسا(شہنائی کی آواز پس منظر سے ابھرتی ہے)S.O.S. طریقے پر بلایا کہ میں سمجھا مرمت نہ سہی گو شمالی تو ضرور ہو گی اور یہ معاملہ نکلا منگنی کا۔
چچا :جی ہاں برخوردار یہ بھی گوشمالی کی ایک نئی قسم ہے۔
شبو :آداب چچا جان!آپ کی منگنی نہیں ہوئی تو آپ نے اسے گوشمالی قرار دے دیا ہے معاف کیجئے گایہ رتبہ بلند ملا جس کومل گیا، سمجھے چچا جان صاحب۔
چچا :خوب سمجھا۔ مگر سنو شبو۔ جس کے پاس آنے والی نسلوں کے لئے اولاد کے سوا اور کچھ دینے کونہ ہو اس کے لئے یہی منگنی بیاہ کا مشغلہ ٹھیک ہے۔
شبو :آپ ٹھہرے آرٹسٹ۔ آپ کے پاس تو دنیا کو دینے کے لئے فن اور بصیرت کا خزانہ تھا خزانہ۔ لہٰذا آپ نے شادی نہیں کی ہے نا یہی بات! اب تو ہو جائیے قائل۔ قسم خدا کی چہرہ پڑھ کر پورے Dialogue منہ زبانی سنا دئیے۔
چچا :عورت، شادی، خاندان، بچے۔ دوسروں کے لئے یہ زندگی ہے میرے لئے یہ رنگ ہیں جن سے میں زندگی کی تصویر بناتا ہوں۔ انسان ان جھمیلوں کے لئے نہیں یہ کھلونے البتہ انسان کے لئے ہیں۔ ان سے کبھی کبھی تسکین پائے اور کے ذریعے اپنی پوری طاقت کو ظاہر کر دے۔ ان سے کھیلے ان کا کھیل نہ بنے۔
بھابھی :اے ہے شبو میاں !تم کہاں الجھ پڑے۔ گاڑی آنے کا وقت ہو رہا جاؤ اپنی پھول دار شیروانی اور چوڑیدار پاجامہ پہن آؤ۔ دلہن کا ٹھاٹھ دار استقبال ہونا چاہئے۔ برات کے ہونے والے دولہا تو تمہیں ہو۔
شبو :بھابھی!واللہ آپ تو شرمندہ کرتی ہیں۔ اپن تویوں ہی اتنا جچ رہے ہیں پھولدار شیروانی پہن لی تو پوری عورت جاتی غش کھا کر گر پڑے گی۔
(گھنٹہ چار بجاتا ہے۔)
بیگم :برجیس دلہن۔
بھابی :جی اماں حضور۔
بیگم :ذرا اسٹیشن ٹیلی فون کرو۔ یہ لوگ ابھی تک نہیں آئے گاڑی لیٹ ہے کیا ؟
بھائی جان :گاڑی لیٹ نہیں تھی امی جان۔
بیگم :تمہیں ناہید کو لینے اسٹیشن بھیجا تھا۔
بھائی جان :وہ نہیں آئی۔
بیگم :یہ ناممکن ہے ایسا ہو نہیں سکتا۔
بھائی جان :امی جان!پوری گاڑی چھان ماری، ایک ایک ڈبہ کو دس دس بار دیکھا اس کا کہیں پتہ نشان نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے دوسری گاڑی سے۔
بیگم :نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میری بچی سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ میرے گھر میں کوئی بے قاعدہ بات نہیں ہو سکتی۔
شبو :واللہ اماں حضور۔ آپ خوامخواہ۔
بیگم :(بات کاٹ کر) شبو!
شبو :میرا مطلب ہے سب ٹھیک ہو جائے گا دیر سویر سو ہی جاتی ہے۔
بھابھی :میں کہتی ہوں تم نے ٹھیک سے دیکھا بھی تھا۔ (ASIDE) اماں حضور کو تو جانتے ہو وہ زمین آسمان ایک کر ڈالیں گی۔
بھائی جان :میرا اعتبار کرو۔ میں نے انھیں دو آنکھوں سے ایک ایک ڈبہ دیکھ ڈالا جن سے تمہیں دیکھ رہا ہوں جان من۔
بھابھی :چلو ہٹو۔ تمہیں ہر وقت چونچلے سوجھتے ہیں۔
(موٹرسائیکل کی پھٹ پھٹ سنائی دیتی ہے۔)
چچا :ناہید۔
بیگم :کہاں۔
(موٹرسائیکل کی پھٹ پھٹ اور قریب آ جاتی ہے۔)
چچا :موٹرسائیکل پراس اجنبی کی کمر میں ہاتھ ڈالے ہوئے ؟
ناہید :ہیلو۔ اویری باڈی(Every Body) امی حضور آپ نے اسٹیشن پر کسی کو نہیں بھیجا۔ اوہو گھر کو ایسا سجایا ہوا ہے کہ بس! بھائی جان، بھابی، اوہ چچا جان(سب سے ملتی ہے۔) امی حضور۔
بیگم :(کوئی جواب نہیں دیتی۔)
ناہید :اوہ میں بھول گئی یہ ہیں میرے دوست۔ ملک کے مشہور باکسنگ چمپئن ملک۔ دراصل بارش بہت زور کی ہو رہی تھی۔ ٹیکسی والے نخرے دکھا رہے تھے۔ مسٹر ملک نے مجھے لفٹ (Lift) دے دیا میں انھیں کی موٹر سائیکل پر چلی آئی۔
شبو :ارے بھئی بہت اچھا ہوا تم نے بتا دیا ورنہ ہمیں تو ان کی موٹرسائیکل پر چاند گاڑی کا شبہ ہونے لگا تھا۔
ناہید :شبو ڈیر۔ تم!
شبو :جی ہاں یہ خاکسار بالکل فلمی ہیرو کے روپ میں !شیروانی پھول دار۔ پاجامہ چست، ٹوپی اصلی نکے دار۔
بیگم :ناہید تمہارے کپڑے بھیگ گئے ہیں اندر آ جاؤ اور سب لوگ بھی دیوان خانے میں چل کر بیٹھیں۔
ناہید :اس برآمدے میں بھی تو کتنا اچھا لگ رہا ہے امی حضور!بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے۔
ملک :اچھا اجازت دیجئے۔
شبو :اتنی جلدی۔
ملک :جلدی ہے۔
شبو :واللہ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ امید ہے آئندہ بھی ملاقات ہو گی مگر باکسنگ(Boxing) والے دستانوں کے بغیر۔بات یہ ہے ملک صاحب کہ مجھے اپنی جان بہت عزیز ہے اور باکسنگ سے میری جان جاتی ہے۔
ملک :مردوں کا کھیل ہے۔
شبو :او۔ کے باس!!او۔ کے !
ملک :او۔کے۔
(موٹرسائیکل اسٹارٹ کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔)
بیگم :آپ لوگ اس طرح کب تک کھڑے رہیں گے۔
شبو :(تالیاں بجا کر) تخلیہ، تخلیہ، تخلیہ۔
بیگم :ہم نے تمہیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے پروان چڑھایا ہے۔ راتوں کی نیند اور دن کا آرام نہیں جانا۔ ہم جان دے سکتے ہیں۔ آبرو سے نہیں کھیل سکتے۔ تم اتنے بڑے خاندان کی چشم و چراغ ہو۔ تم اس گھرانے کی آبرو ہو۔ زندگی بھرکے ہمارے خواب تمہاری امانت ہیں اور تم ان سے کھلونوں کی طرح کھیلنا چاہتی ہو۔ نادان لڑکی۔ ہم اس کھیل کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔
ناہید :(خاموش رہتی ہے۔)
بیگم :ہم جاننا چاہتے ہیں (خاموشی) بولو۔
ناہید :مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔
بیگم :یہ ناممکن ہے۔ تم خاموش رہ کر ہمارا مذاق اڑانا چاہتی ہو۔
ناہید :نہیں۔
بیگم :ہم نے بڑے ارمانوں سے تمہاری واپسی کا انتظار کیا ۔ اس گھر کے ایک ایک کونے کو سجایا۔ آج ہماری زندگی کا سب سے بڑا خواب پورا ہونے والا تھا۔ ہم اپنے سارے قول و قرار پورے کرنے والے تھے۔ شبو کو ہم تمہارا ہاتھ سونپ چکے ہیں آج اس سے تمہاری منگنی اور پھر شادی۔
ناہید :مجھے منظور نہیں۔ امی حضور!
بیگم :گستاخ، بدتمیز۔
ناہید :مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔
بیگم :تمہیں کہنا ہو۔ بہت کچھ کہنا ہو گا۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تمہارے فیصلے کس طرح کئے گئے ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کا پورا پورا حق ہے۔
ناہید :ممی ویری ساری (Very Sorry) ممی ڈیر۔ خاموشی میرا بھی حق ہے کم سے کم یہ حق تو مجھے ملنا ہی چاہئے۔
تیسرا سین
بھابھی :اے ہے باجی اماں کو خواہ مخواہ ضد ہو گئی ہے۔آخر کون سی عمر نکلی جا رہی ہے بچہ ہی توہے۔ اس وقت چپ کھینچ جائیں کچھ دنوں میں اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گی وہ تو ہاتھ دھوکر لڑکی کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔
بھائی جان :اماں حضور کی بات اس گھر میں کسی نے ٹالی ہے کبھی۔
بھابی :مگر اب زمانہ اور ہے میرے سرتاج۔
بھائی جان :کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ میرا دماغ تو کچھ کام نہیں کرتا۔اچھا لاؤ ایک پیالی گرم گرم چائے تو ادھر بڑھاؤ۔
بھابی :میری تو جیسے بھوک پیاس اڑ گئی ہے۔
بھائی جان :فکر کرنے سے کیا ہو گا۔ چائے آج اچھی بنائی ہے تم نے۔
بھابی :تم باجی اماں کو نہیں سمجھاتے۔ ضد دلا کروہ لڑکی کو ہاتھ سے گنوا دیں گی۔
بھائی جان :نا بابا۔ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مجھے تو آج بھی ان سے ڈر لگتا ہے۔
بھابی :لڑکپن میں کون شادی سے انکار نہیں کرتا۔ تم نے جلدی ہامی بھر لی ہو گی تو میں نہیں جانتی۔ پہلے پہل سبھی دون کی لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ سب ٹھیک راستے پر آ جاتے ہیں۔
بھائی جان :میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ لڑکیوں کا زیادہ پڑھنا لکھنا اچھا نہیں اب اس معاملے میں سوائے چچا جان کے اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
***