صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خوشبو کا جنگل
صفدر ہمٰدانی
جمع و ترتیب:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
خوشبو کا جنگل
گھنے درختوں کی چھاؤں میں
تیری گود میں سر کو رکھ کر
سوچ رہا ہوں
سارے خواب جو جاگتی آنکھوں دیکھے تھے
سب سچے تھے
سچی تھیں وہ ساری باتیں جو تم نے مجھ سے کہی نہیں تھیں
سچے تھے وہ سارے لمحے فاصلوں میں جو لکھے تھے
سچے تھے احساس وہ سارے
جن کو میں نے
اپنے خالی کمرے میں محسوس کیا تھا
لیکن اب جو گھنے درختوں کی چھاؤں میں
ندی کنارے
تیز ہوا کے جھونکوں کے سنگ تیری گود میں سر کو رکھ کر
سوچ رہا ہوں
جسم کے سارے زاویے کتنی مدت پہلے سے ہی
میری نیلی آنکھوں میں تصویر ہوئے تھے
اور وہ صندل کی خوشبو بھی چاروں جانب چیخ رہی تھی
اسکے بدن کی ساری حدت
میرے ہاتھوں کی پوروں میں اُتری تو محسوس ہوا
جسم کی خوشبو پھولوں کی خوشبو سے روح میں اُتری ہے
٭٭٭
غزل
ٹکڑوں کو دل کے چنتا رہا ہوں تمام رات
کانٹوں پہ جیسے چلتا رہا ہوں تمام رات
جاتے ہوئے وہ کہہ نہ سکی مجھکو الوداع
یہ سوچ کے میں روتا رہا ہوں تمام رات
کس جرم کی سزا ہمیں لمحے میں مل گئی
جیتا رہا ہوں مرتا رہا ہوں تمام رات
اس خوف سے کہ وہ مجھے تنہا نہ چھوڑ دے
سائے سے اپنے ڈرتا رہا ہوں تمام رات
باہر تمام رات رہیں تیز بارشیں
اس ڈر سے گھر میں جلتا رہا ہوں تمام رات
٭٭٭