صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


خنک شہرِ ایران

نیر مسعود

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

اقتباس

۲۵ جنوری ۱۹۷۷

"دوستانِ عزیز، کچھ دیر میں ہمارا طیارہ تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر اترنے والا ہے۔ امید ہے آپ اس سفر سے محظوظ ہوئے ہوں گے۔ تہران میں موسم خوش گوار ہے۔ فضا قدرے کہر آلود، درجۂ حرارت صفر سے آٹھ درجے نیچے۔ متشکرم۔"

    ہم لوگ، صفر سے آٹھ درجے اوپر کے موسم میں کپکپانے والے ، اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر جہاز سے نیچے اترے تو معلوم ہوا برف کی بھٹّی میں کود پڑے ہیں۔

    ہوائی اڈے کی عمارت گرم تھی، وزارتِ فرہنگ کے نمائندے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہیلتھ سرٹیفکیٹ دیکھنے والا عملہ آگے بڑھا،  نمائندوں نے سرگوشی کی:

    "مہمانونِ دولت!"

اور ہم سب کی صحت شکوک سے بالا ہو گئی۔ کسٹم پر بھی یہی منتر کام آیا اور سامان کی جانچ پڑتال نہیں ہوئی۔ سرکاری مہمان ہونے کے فوائد یہیں سے سمجھ میں آنے لگے ،  نقصانات بعد میں سمجھ میں آئے۔ سرکاری فوٹوگرافر نے ہوائی اڈے ہی پر ہم لوگوں کے اوور کوٹوں، مفلروں اور کنٹوپوں کا ایک گروپ فوٹو لیا جسے دیکھنے کی حسرت رہ گئی۔

    رات کا وقت تھا، بازار بند تھے۔ ٹیکسیوں کا قافلہ ہمواری کے ساتھ چلا اور اس پہلی رات کو وہ لفظ سننے میں نہیں آیا جو تہران میں "متشکرم" اور "خواہش می کنم" کے بعد سب سے زیادہ بولا جاتا ہے ، یعنی "شلوغ"۔ ٹیکسیاں رودکی ہوٹل پر جا کر رکیں جہاں ہماری "اقامت" کا بندوبست کیا گیا تھا ("قیام" نہیں ، اس لیے کہ قیام فارسی میں بغاوت کو کہتے ہیں۔) ہوٹل میں سنٹرل ہیٹنگ تھی لیکن کچھ سفر کی تکان اور کچھ باہر کے درجۂ حرارت، بلکہ درجۂ برودت، کا خیال تھا کہ سب کے اعضا و جوارح چائے طلب کر رہے تھے۔ ہوٹل کے منتظمین سے رجوع کیا گیا تو وہ پریشان سے نظر آنے لگے :

    "متاسّفانہ چای..."

    اُدھر یہ حیرت تھی کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو گیارہ بجے رات کو چائے پینا چاہتے ہیں،  اِدھر یہ کہ روئے زمین پر ایسے بھی ہوٹل ہوتے ہیں جہاں دس گیارہ بجے رات کو چائے کا باب بند ہوتا ہے اور آسمان اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

    "ہوتیل رزیدانس رودکی" تین ستاروں والا ہوٹل ہے۔ کمرے اور بستر وغیرہ آرام دہ تھے۔ سب پڑ کر سو گئے۔ سویرے آنکھ کھلتے ہی کھڑکی سے البرز کوہ سرتاپا برف نظر آیا اور دیکھتے دیکھتے نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ دور تک مکانوں کی چھتوں پر اور سڑک کے کنارے کنارے روئی سی دھنکی ہوئی پڑی تھی۔ یہ منظر نگاہوں میں اترنے سے پہلے ہی ناشتا آ گیا __ دیگر لوازم کے ساتھ برف کے ٹکڑوں سے کھنکھناتے ہوئے گلاسوں میں سنگترے کا رس۔ دو ایک ساتھیوں کی کراہیں سنائی دیں لیکن توکلت علی الله تعالیٰ کہہ کر سب نے گلاس ہونٹوں سے لگا لیے اور اعتراف کیا کہ موسم کے لحاظ سے کوئی بے جا مشروب نہیں ہے۔

    کچھ دیر میں وزارت کے نمائندے صاحب تشریف لائے۔ یہ میزبانوں کی طرف سے ہمارے رہبر مقرر ہوئے تھے۔ ان پر سوالوں کی بوچھار ہوئی۔ انھوں نے ہر سوال کا جواب فوراً دیا اور انگریزی میں دیا۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول