صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خزاں کی دھوپ
خورشید احمد جامی
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
اب کے بڑی اداس بہاروں سے ہم ملے
پھولوں کے آس پاس بھی کانٹوں کے غم ملے
یادوں کی سر زمین پہ زخموں کی شکل میں
بچھڑی ہوئی حیات کے نقشِ قدم ملے
مہکی ہوئی سحر کی طرح آئے تم مگر
جلتے ہوئے خیال کی مانند ہم ملے
جو آرزو کے خواب زیادہ عزیز تھے
وہ بھی اگر ملے تو یہاں کم سے کم ملے
اب کے تمہارے شہر میں یوں زندگی ملی
جیسے کوئی مسافرِ دشتِ الم ملے
کچھ اور اعتبارِ شعورِ وفا بڑھا
کچھ اور راستوں میں نئے پیچ و خم ملے
ہر سمت ایک نغمۂ دل جھومنے لگا
ہر سو کسی نگاہ کے قول و قسم ملے
جلتے رہے چراغِ رہِ جستجو مگر
پھر تم ملے کہیں نہ تمہارے کرم ملے
جامیؔ دل ِ حزیں پہ قیامت گزر گئی
جب بھی اداس ہو کے محبت کے غم ملے
٭٭٭
تیری پلکوں سے کوئی خواب اٹھا لیتا ہوں
اور لُٹتی ہوئی راتوں کو سجا لیتا ہوں
فن کا معیار تو یہ ہے کہ ہر اک تلخی کو
نرم الفاظ کے پردوں میں چھپا لیتا ہوں
کوئی شکوہ تری آنکھوں میں ابھر آتا ہے
کوئی نغمہ ترے ہونٹوں سے چُرا لیتا ہوں
جب بھی ہوتا ہے کوئی حادثۂ فکر و نظر
یاد کرتا ہوں تجھے، نام ترا لیتا ہوں
اپنے احساس کی جلتی ہوئی تنہائی کو
تیرا مہکا ہوا اقرار بنا لیتا ہوں
دیکھ کر وقت کی راہوں میں سلگتے چہرے
اپنی کھوئی ہوئی آواز کو پا لیتا ہوں
رات بھر پیار کی نکھری ہوئی تصویروں سے
آرزوؤں کے در و بام سجا لیتا ہوں
ایک اک درد کو دیتا ہوں سہارا جامیؔ
ایک اک زخم کو پیغام بنا لیتا ہوں
٭٭٭