صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خلوتِ جاں
علامہ طالب جوہری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
اُس کا ہر انداز سجیلا بانکا تھا
کچھ تو بتاؤ وہ خوش پوش کہاں کا تھا
ایک طرف سے کھلی ہوئی تھی شیر کی راہ
لیکن اس پر تین طرف سے ہانکا تھا
مت گھبرانا دوست، غبارِ ناقہ سے
ہم نے بھی اس دھول کو برسوں پھانکا تھا
اُس کے گھر سے نکل کر ہم نے شام ڈھلے
کچھ نہیں یاد کہ کتنے گھروں میں جھانکا تھا
٭٭٭
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا
میں نے تلوار پہ سر رکھا تھا
یعنی تلوار سے سر یاد آیا
وہ تری کم سخنی تھی کہ مجھے
بات کرنے کا ہنر یاد آیا
اے زمانے مرے پہلو میں ٹھہر
پھر سلامِ پسِ در یاد آیا
کسے اڑتے ہوئے دیکھا کہ تمہیں
اپنا ٹوٹا ہوا پر یاد آیا
آج میں خود سے ملا ہوں طالب
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
***
دھوپ جب تک سر پہ تھی زیرِ قدم پائے گئے
ڈوبتے سورج میں کتنی دور تک سائے گئے
آج بھی حرفِ تسلی ہے شکستِ دل پہ طنز
کتنے جملے ہیں جو ہر موقع پہ دُہرائے گئے
آج سے میں اپنے ہر اقدام میں آزاد ہوں
جھانکتے تھے جو مرے گھر میں وہ ہمسائے گئے
٭٭٭